اغیارسے نجات......مسلم امہ کااتحاد(آخری قسط)

مشرقِ وسطٰی امورکے ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے امریکی سیاست میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔ امریکابظاہر مصر،سعودی عرب، قطر،کویت،اردن اور دیگر عرب ممالک کواپنااتحادی قراردیتاہے اوران ممالک کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات بھی مضبوط وخوشگواررکھنا چاہتاہے ، زبانی کلامی ایران کودہمکیاں دیتاہے مگردرپردہ ایران کو اس نے کھلی چھٹی دے رکھی ہے اوروہ چاہتا ہے کہ ایران خطے کی واحدقوت بن جائے۔خطے کے تمام ممالک کوہمیشہ کیلئے ایران کے دباؤ میں لائے اوران ممالک کوایران کے خوف سے اپنامحتاج بنائے رکھے،اس لئے ایران کے ساتھ ایٹمی قوت پرمعاہدہ کیاگیا، اقتصادی پابندیاں ہٹادی گئیںاورسلامتی کونسل میں ایرانی اقدامات کی حمائت کی۔ ایران نے حال ہی میں جن میزائلوں کاکامیاب تجربہ کیاہے اورروس سے حاصل کردہ ایس ٣٠٠میزائل کی تشہیرکر رہاہے، حزب اللہ اورحوثی ملیشیاکواسلحہ فراہم کررہاہے ، بشارالاسد انتظامیہ کی نہ صرف کھلی حمائت کررہاہے بلکہ حزب اللہ کے عسکری دستے باقاعدہ جنگ و جدل میں مصروف ہیں۔یہ سب کچھ امریکاجانتا ہے مگراس نے آنکھیں بندکر رکھی ہیں اوران سب کی توجیہہ یہ کرتاہے کہ ایران ان مسائل کے حل کی کوشش کرے گا۔

مغربی دفاعی ماہرین کاخیال ہے کہ امریکاکی پرامیدنگاہیں صرف اورصرف ایران پرہیں۔امریکاکیلئے پورے ایشیامیں ایران کے علاوہ اورکوئی بھی ایسا ملک نظرنہیں آتاجسے وہ اپنے مقصداورمخالفین کے خلاف کیلئے استعمال کرے۔ ایشیامیں امریکی اتحادیوںکی اکثریت کمزورممالک کی ہے اوراگر عسکری لحاظ سے کوئی طاقتورقوت ہے بھی تواس کی پالیسی یہ نہیں ہے کہ وہ طاقتورکاساتھ دیکراپنے لئے مزیدمسائل پیداکرے یاامریکی مفادات کیلئے خودکوخطرے میں ڈال دے مگراس کے برعکس ایرانی مؤقف میں سختی زیادہ ہے۔گزشتہ ادوار میں اس نے اپنے سے کئی گنابڑی قوتوں کودہمکیاں دی ہیں،اس لئے امریکااس حوالے سے ان سے یہ توقع رکھتاہے کہ اگروہ فوجی لحاظ سے مضبوط ہوجائے توخطے کے کمزورممالک نہیں بلکہ چین ،پاکستان، روس اورہندوستان جیسے طاقتورممالک پربھی کسی حدتک دباؤبڑھایاجاسکتاہے اوران کے خلاف ایران کواستعمال کیاجاسکتاہے۔

اسلام اورمسلمانوں کے خلاف امریکاکی شروع کردہ صلیبی جنگ میں ایران نہ صرف یہ کہ شریک نہ ہوابلکہ اس کے برعکس مسلمانوں کے خلاف صلیبیوں کاساتھ دیا،اس لئے امریکا اور دیگرمغربی قوتوں کا بھرپوراعتماد حاصل کر پایا اور عملاً ثابت کرکے دکھایاکہ مغرب کی ہر جارحیت کیلئے وہ اچھے خدمت گار ثابت ہوسکتے ہیں۔ قرائن بتاتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کے متعلق ایران کی پالیسی اب بھی یہ ہے کہ اس کااثرورسوخ پوراخطہ تسلیم کرے ۔ایران نے اپنی اس پالیسی کو خفیہ رکھنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی اورنہ اس کی کوشش کی کیونکہ ایران مشرقِ وسطیٰ کے کسی ملک کی پرواہ نہیں کرتااورنہ عسکری لحاظ سے اسے اپناکوئی حریف نظرآتاہے بقیہ دنیاتوویسے بھی اس کے اس تسلسل کے جاری رکھنے کے حق میں ہے۔ گزشتہ سال کے آخری مہینوں میں جب حوثی باغیوں نے یمن میں پیش رفت کی اورشمالی حصوں میں ایرانی پرچم لہرائے توایرانی رہنماؤں نے باربار بہت فخرسے کہاکہ بغداد،دمشق اوربیروت کے بعدصنعاء بھی ہمارے زیرِ اثرآگیا۔ کچھ عرصہ قبل توعلی یونس نامی ایران کاایک سابق وزیرتہر ان میں ایک سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے بہت آگے تک گیااورکہا:’’پورامشرقِ وسطیٰ ہماراخطہ ہے،ہم شرقی رومیوں،عثمانی ترکوں اور عرب سلفیوں سے بیک وقت لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں''۔

تجزیہ کاروں کابجاطورپریہ خیال ہے کہ عرب دنیامیں حالیہ خانہ جنگیوں کاسب سے زیادہ امریکاکوہورہاہے مگرامریکاکے بعدسب سے زیادہ فائدہ جس نے اٹھایا وہ ایران ہے کیونکہ جنگوں اورہنگاموں کے نتیجے میں خطے کے ممالک کمزورہونے کی وجہ سےایران اب صدیوں قبل کے فارس سلطنت کے دوبارہ احیاء کاخواب دیکھ رہاہے اورپہلی بار غیرعربی قوم،غیرعربی ملک اور غیر عربی تہذیب(ایران)عراق،شام،لبنان اور یمن جیسے مشہورعرب ممالک میں دیکھی جا رہی ہے۔

اس اندیشے کی تردیدنہیں کی جاسکتی مگرخیال ہے کہ اگرایسے ادارے موجود بھی ہیں توعملی طورپر اسے پوراکرناناممکن ہے اوریہ بات امریکااوردیگر مغربی قوتیں بھی جانتی ہیں کہ ایران کے خلاف عربوں میں شدیدنفرت پائی جاتی ہے اورخطے میں ایرانی اثرات کی حاکمیت انہیں کسی صورت منظور نہ ہوگی ، عراق اس کی بہترین مثال ہے۔ امریکانے بہت کوشش کی کہ مگرنہ مالکی حکومت کامیاب ہوسکی اورنہ امریکاکی مکمل سرپرستی کے باوجود بغداد انتظامیہ یہاں مجاہدین کی تحریکیں ختم کرنے میں کامیاب ہوسکی، ہاں!ایران کی مداخلت کوتوسیع دینے اورمداخلت پرآنکھیں بندرکھنے کا سلسلہ جاری رہے گا مگراس کامقصدیہاں فرقہ وارانہ منافرتوں کوہوادینااورپھرپورے خطے کوجنگ کامیدان بنانے کی راہ ہموار کرناہے۔
ایران اورامریکاکی قربت کاایک بڑاسبب یہ بھی ہے کہ صدام حکومت کاخاتمہ اورعراق حکومت شیعوں کے حوالے کرنا،یہ ایران کابڑاحصہ تھا۔ایران کایہ مقصدامریکاکی جارحیت اورصدام حسین کے خاتمے کے بعد خودبخودحاصل ہوچکاتھا۔ایران نے بہت کھل کرامریکاکاساتھ دیااوراس کی حمائت کی۔ایران جو امریکاکو اپنا ازلی دشمن قراردیتاتھا اور ''مرگ بر امریکا'' کے سارے نعرے اس نے بھلادیئے۔مجھے وہ دن یادہے جب میرے قیام کویت کے دوران مجھے ایرانی سفیرکی خصوصی دعوت پرایران کی پہلی انقلابی سالگرہ پرجانے کاموقع ملا (ایران سے واپسی پراس کی خاصی قیمت بھی اداکرناپڑی)توایرانی پاسداران نے تہران اسٹیڈیم میں امریکی پرچم کے اوپرمارچ کیااوراس وقت ایران کی ہربڑی عمارت کی لفٹوں کے اندراورباہرامریکی پرچم بنائے گئے تھے جن کوہرکس و ناکس اپنے قدموں میں روندکراپنی نفرت کا اظہارکرتاتھا لیکن آج اسی خمینی کا ایران بالکل بدل چکاہے کہ آج بھی امریکاکی جانب سے عراق پرمسلط کٹھ پتلی انتظامیہ کاسب سے بڑاحامی ملک ایران ہے۔ایران عراق کی اس ظالم اورکرپٹ انتظامیہ میں کون سی خوبیاں دیکھ رہاہے کہ اس قدر خلوص سے اس کاساتھ دے رہاہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکاکی جانب سے عراق پرجارحیت کے بعدآج تک نہ صرف ایران نے امریکاکے خلاف کوئی معمولی اقدام نہیں کیا بلکہ بہت سے مواقع پرجنگ کے کسی مرحلے پر ان کی دوستی بھی سامنے آئی ہے۔

گزشتہ سال مارچ کے اواخرمیں جنیوامیں امریکانے اپنے پانچ اتحادیوں کی حمائت سے ایرانی قیادت سے ایرانی ایٹمی پاور کے پروگرام سے متعلق بات چیت کی۔انہیں دنوں داعش کے شکنجے سے عراق کاسب سے زیادہ تیل رکھنے والاشہر تکریت چھڑانے کیلئے پاسدارانِ انقلاب کے ساتھ ساتھ ایران کی بنائی ہوئی تنظیموں بدر،قدس،اورخوان حزب اللہ کے نام سے عراقی ملیشیاکے گروپ امریکی فوج کے شانہ بشانہ داعش کے خلاف لڑتے رہے ۔اس پوری جنگ کی قیادت پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ جنرل قسیم سلیمانی کررہے تھے۔تکریت سے داعش کے انخلاء کیلئے ہونے والی جنگ میں امریکاکی مداخلت پاسدارانِ انقلاب کی مرضی سے ہوئی تھی اورمعاہدہ بدر،قدس،اخوان حزب اللہ کے نام سے تینوں گروپوں کے مشترک ترجمان نعیم العبیدی نے کیاتھا۔اسی معاہدے کی بناءپرامریکا پوری لڑائی میں پاسدارانِ انقلاب یاعراقی ملیشیاکی فضائی مددکرتارہا۔اسی سلسلے میں امریکاکے دو ڈرون حملوں میں پاسدارانِ انقلاب کے بڑے افسران علی یزدانی اورہادی جعفری ہلاک ہوگئے جنہیں تہران میں سپردخاک کیاگیا۔ افسران کی ہلاکت پرایرانی پریس نے بہت زیادہ شور مچایااوریہ شوراس وقت تھما جب نعیم العبیدی نے کہاکہ امریکاکے ڈرون حملے میں ان کی ہلاکت قصداً نہیں تھی۔ان دونوں افسران سمیت اب تک ایران کے گیارہ چھوٹے بڑے افسران ہلاک ہوئے ہیں۔
مختصریہ کہ مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے امریکی پالیسی میں تبدیلی کی وجہ سے سعودی، امریکااوردیگرمغربی ممالک سے شدید مایوس ہوچکاہے اور اس نے اپنی پوری توجہ اب عرب دنیا پر مرکوزکردی ہے۔اب پوری اسلامی دنیاکی حمائت حاصل کرنااس کی انتہائی کوشش ہے،ہاں!سعودی عرب کیلئے ہرلحاظ سے یہ بات مفیدہے کہ صلیبی لشکروں کے سالار لاکھوں مسلمانوں کے قاتل امریکاسے دوستی کاخاتمہ کردے۔اپنی ساری توجہ عرب دنیابلکہ اسلامی دنیاپر مرکوز کردے ۔دوسروں سے خریدے گئے طیاروں اوروسائل سے دھوکہ نہ کھائے اورکسی بھی اسلامی ملک کے ساتھ جنگ میں خود کونہ ڈالے۔
 
اسی طرح ایران کوبھی چاہئے کہ اپنے کثیراسلحہ،جنگی وسائل اوراچھی لڑنے والی فوج پرغرورنہ کرے ،امریکاکی دوستی پربھروسہ نہ کرے اورنہ اپنے لئے مفیدسمجھے۔امریکاکی دوستی کی تاریخ کوبغورپڑھ لے کہ امریکانے اپناکام نکال کرسب سے پہلے اپنے دوست کی پیٹھ میں خنجرگھونپنے میں کبھی شرم محسوس نہیں کی۔پوری اسلامی دنیاسے تعلقات کیلئے نرم پالیسی اس کے مفادمیں ہے،یمن اورشام کامسئلہ بہت معمولی مسئلہ ہے اگرایران اورسعودی عرب اپنی اناکوبھول کرآپس میں مفاہمت کرلیں توبہت آسانی سے ان مشکلات کاایک بڑاحصہ حل ہو سکتاہے اورمسلمان بڑے نقصانات اورمصائب سے بچ سکتے ہیں۔ان دونوں ممالک کے درمیان تلخیوں کے اضافے سے نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پوری اسلامی دنیا کو بہت بڑےنقصانات ہوں گے۔ مشرقِ وسطیٰ کے موجودہ حالات اس کی بہترین مثال ہے۔

اسلامی دنیااب مزیدخرابیاں اورمسائل برداشت نہ کرپائے گی۔پوری اسلامی دنیاان دونوں ممالک سے بہتری کاپرزور مطالبہ کرتی ہے اورامیدہے یہ دونوں ممالک اسلامی دنیا کے اس مطالبے پرتوجہ دیں اوران تمام اقدامات اورپالیسیوں سےبچنے کی کوشش کریں گے جس سے پوری اسلامی دنیا کو عموماًاوران دونوں ممالک کوخصوصاًنقصان ہواورعالم کفر کیلئے فائدے کاسبب بنے۔
 
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 350406 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.