مقبوضہ کشمیر میں عید کے موقع سے بھارتی
فورسز کی طرف سے کشمیری مظاہرین کو بڑی تعداد میں ہلاک کرنے کے خلاف مقبوضہ
کشمیر میں مسلسل تیسرے ہفتے بھی ہڑتال اور کرفیو جاری ہے۔اب تک بھارتی
فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے عام شہریوں کی تعداد پچاس سے زائد ہو چکی
ہے جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں زخمی ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے
ہاتھوں درجنوں کشمیریوں کی ہلاکت اور بڑی تعداد میں زخمی ہونے سے پیدا ہونے
والی سنگین صورتحال میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سخت بیانات کا تبادلہ
ہوا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے عام شہریوں کی ہلاکت پرپاکستان
نے بھارت کے خلاف سفارتی مہم شروع کی ہے اور عالمی اداروں سمیت اہم ملکوں
کو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کیا گیا ہے۔پاکستان کی ان سفارتی
سرگرمیوں پر بھارت کو پریشانی لاحق ہے۔
آزاد کشمیر اسمبلی کے الیکشن میں مسلم لیگ(ن) کی کامیابی پر وزیر اعظم نواز
شریف نے الیکشن کے الگے ہی روز مظفر آباد کا دورہ کرتے ہوئے یونیورسٹی
گراؤنڈ میں عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں پاکستان اور کشمیر میں
فرق نہیں سمجھتا، میں جتنا پاکستانی ہوں اتنا کشمیری ہوں، ہم مقبوضہ کشمیر
کے بھائیوں پر ہونے والے مظالم کو نہیں بھلا سکتے، دکھ کی اس گھڑی میں ہم
ان کے ساتھ ہیں ،اب کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کو کوئی نہیں روک سکتا، وہ
وقت دور نہیں جب کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہو گا اور وہ پاکستان کا
حصہ ہو گا۔
بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے وزیر اعظم نواز شریف کے کشمیر سے متعلق اس
اعلان کے جواب میں کہا کہ پاکستان کا یہ خواب قیامت تک پورا ہونے والا نہیں
کہ کشمیر اس کا حصہ بن جائے گا، پاکستان کے وزیراعظم نے برہان وانی کو ایک
شہید قرار دیا ہے ،ہپاکستان حافظ سعید اور دیگر شدت پسندوں کے ذریعے ایک
ایسے علاقے میں شدت پسندی کو انجام دے رہا ہے جو بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے،
پاکستان کشمیر میں تشدد کو ہوا دے رہا ہے، پاکستان کے منصوبے کبھی کامیاب
نہیں ہوں گے۔بھارتی وزیر خارجہ کے اس بیان پرپاکستان کے مشرِ خارجہ سرتاج
عزیز نے کہا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ انڈیا کی وزیرِ خارجہ نہیں بلکہ
صرف کشمیر کے عوام کر سکتے ہیں اور یہ اختیار کشمیری عوام کو اقوامِ متحدہ
کی سلامتی کونسل کی قرارداد میں دیا گیا ہے۔ دفترخارجہ کی جانب سے جاری کیے
گئے سرتاج کے بیان میں انڈیا کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے وقت آگیا ہے کہ
انڈیا جموں اور کشمیر کے عوام کو اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں کرائے جانے
والی رائے شماری میں حقِ خود ارادیت کو موقع فراہم کرے، جبؤ عوام کی اکثریت
انڈیا یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کر ے گی تو دنیا کشمیری عوام کا
فیصلہ تسلیم کرے گی۔ انڈیا یہ بات نظر انداز نہیں کرسکتا کہ برہان مظفر
وانی کے جنازے میں لاکھوں کشمیریوں نے حصہ لیا ہے۔مشیر خارجہ نے کہا کہ
ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ایک وقت میں برطانیہ انڈیا کو اپنا حصہ کہتا تھا
اور انڈیا کی آزادی کا مطالبہ کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیتا تھا۔
بھارت پر عالمی دباؤ کی صورتحال میں بھارت وزیر اعظم نریندر مودی نے وزیر
داخلہ کو سرینگر بھیجا ۔راج ناتھ کے دو روزہ دورے تجارتی انجمنوں، کئی
ہندنواز سیاسی جماعتوں، اور اہم سماجی شخصیات نے ان سے ملاقات کی سرکاری
دعوت کو مسترد کرتے ہوئے ملاقات سے انکار کیا۔دورے کے اختتام پر ہندوستانی
وزیر داخلہ نے سرینگر کے فوجی ہوائی اڈے پر آدھ گھنٹے کی پریس کانفرنس میں
کہا کہ کشمیر میں پاکستان کا کردار صحیح نہیں ہے، کشمیر پر پاکستان کو اپنی
سوچ بدلنی چاہیے،کشمیر کے مسئلے میں تیسری پارٹی کی مداخلت نہیں چلے گی
،پاکستان کشمیر کے معاملے میں مداخلت کرنے سے گریز کرے، کشمیر میں صورتحال
معمول پر آنے کے بعد یہ فیصلہ لیا جائیگا کہ آیا علیحدگی پسندوں کے ساتھ
مذاکرات کئے جائیں کہ نہیں ۔ صحافیوں نے راج ناتھ سے پوچھا کہ آیا انھیں
کشمیر میں ہوئی ہلاکتوں اور ظلم و زیادتیوں پر کوئی پچھتاوا یا افسوس ہے؟اس
کا جواب انھوں نے یہ دیا کہ افسوس جتانے سے کچھ نہیں ہوگا۔اسی دوران
کانگریس نے مودی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ چینی وزارت خارجہ نے19
جولائی کوجموں وکشمیر کے واقعہ پر تبصرہ کیا لیکن مودی حکومت نے اب تک اس
معاملے میں کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔چینی وزارت خارجہ نے کشمیر معاملے
میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’تصادموں کے دوران ہوئی موت سے ہم فکر مند
ہیں، امید ہے کہ اس صورتحال سے مناسب طریقے سے نمٹا جائے گا‘‘۔بھارت کی
اپوزیشن کانگریس کا کہنا ہے کہ کشمیر معاملے میں چین نے پہلی بار تبصرہ کیا
ہے اور چین کی یہ رائے ہندوستان کے داخلی معاملات میں مداخلت ہے۔کانگریس نے
یہ بھی کہا کہ چین اور پاکستان نے آزاد کشمیر میں مشترکہ گشت شروع کیاہے
اورایسا پہلی بار ہو رہاہے ۔
مقبوضہ کشمیر میں سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ دہلی میں بھارت کے پالیسی
سازوں کا خیال ہے کہ برہان وانی ایک دہشت گرد تھا اور اس کی حمایت میں
نکلنے والے لوگ فورسز کے ساتھ الجھ گئے اور مارے گئے، لیکن زمینی حقائق کچھ
اور ہیں۔بھارتی پالیسی سازوں کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں کافی عرصے سے حالات
کشیدہ تھے۔ جون میں فوجی چھاونیوں سے گھرے شمالی ضلع کپوارہ میں ایک تصادم
میں مسلح شدت پسند مارے گئے تو لوگوں نے فوج کے ساتھ کام کرنے والے ایک
مزدور کا گھر نذر آتش کردیا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے شدت پسندوں کی
موجودگی کی اطلاع فوج کو دی تھی۔کشمیری مبصرین کا کہنا ہے کہ اپریل میں ایک
لڑکی کے ساتھ فوجی اہلکار کی چھیڑ چھاڑ کے واقع پر پورا ضلع سراپا احتجاج
بن گیا، اور سرکاری فورسز کی کارروائی میں خاتون سمیت پانچ افراد مارے
گئے۔کشمیر میں سابق فوجیوں اور وادی چھوڑ کر جانے والے کشمیری ہندؤں کے لیے
علیحدہ کالونیاں تعمیر کرنے کے منصوبے پر غم و غصہ بڑھ رہا تھا۔لوگوں کو یہ
ڈر تھا کہ بی جے پی کی حکومت کشمیریوں کی شناخت ختم کرے گی۔ برہان کی ہلاکت
گویا بھس میں چنگاری کا کام کرگئی۔مبصرین کے مطابق لوگوں کو صرف اس بات پر
افسوس ہے کہ مقامی وزیراعلی محبوبہ مفتی راج ناتھ سنگھ کو قائل کرنے کی
بجائے خود ہی اس قدر قائل ہوگئیں کہ انھوں نے بھی راج ناتھ کے سر میں سر
ملا کر پاکستان کو دبے الفاظ میں دھمکی دے ڈالی۔مبصرین کا کہنا ہے کہ
مقبوضہ کشمیر میں یہ ایک جنگی صورتحال ہے۔ خاص طور پر جب پوری آبادی خود کو
محصور اور مقہور سمجھ رہی ہو۔ ایسے میں انڈین وزیر داخلہ کی طرف سے کشمیر
کی پوری آبادی کو قابل سزا قرار دیا گیاہے اور بھارتی وزیر داخلہ کا یہ
دورہ کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے،راج ناتھ کے دورے سے
محبوبہ کا لہجہ بدل گیا، اب وہ بھی حالات کا نزلہ پاکستان پرگرا رہی
ہے۔کشمیریوں کو پہلے سے ہی معلوم تھا کہ بھارتی وزیر داخلہ کا یہ دورہ
ناکام رہے گا۔یوں یہ واضح ہو رہا ہے کہ بھارت اب بھی مقبوضہ کشمیر میں
بندوق کی نوک پر اپنی مرضی کا امن قائم کرنا چاہتا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر کے
آزادی پسند عوام مسلسل جانی نقصانات اٹھاتے ہوئے ،کسی بھی صورت بھارت کے
خلاف مزاحمت ترک کرنے کو آمادہ نہیں ہیں۔آج کشمیر سے متعلق اس حقیقت کا ایک
بار پھر اعادہ ہو رہا ہے کہ بھارت سات عشروں سے ہر قسم کی سازشوں، فوجی
طاقت کے بھرپور اور مسلسل استعمال کے باوجودکشمیریوں کے عزم آزادی کو فتح
کرنے میں ناکام چلا آ رہا ہے- |