بادشاہ وہ جودلوں پر حکومت کرے
(Mufti Muhammad Waqas Rafi, )
گزشتہ کل جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب
ہمسایہ ملک ترکی میں افواج ترکی کے ایک باغی گروہ نے ترکی کے صدارتی محل پر
قبضہ جمانے اور ترک صدر طیب رجب اردگان کا تختہ الٹنے کی کوشش میں شب خون
مارا جسے ترکی کے بہادر عوام نے ناکارہ بنادیا ۔ فوجی بغاوت کے وقت ترک صدر
طیب رجب اردگان تعطیلات کے سلسلے میں ملک سے باہر گئے ہوئے تھے ۔ جب انہیں
اس صورت حال کا علم ہوا تو انہوں نے نیم شب (رات کے بارہ بجے ) اپنی بہادر
عوام کی سچی محبت و عقیدت کا امتحان لینا چاہا اور انہیں سڑکوں پر نکل آنے
کا حکم دے دیا ۔ پھر کیا تھا پورا ترکی ملک باہر سڑکوں پر امنڈ آیا اور جان
ہتھیلی پر رکھ کر فوجی ٹینکوں کے سامنے دفاعی مجسم پیکر بن کر سیسہ پلائی
دیوار بن کر کھڑا ہوگیا اور باغی فوجیوں کو تگنی کا ناچ نچاتے ہوئے انہیں
ٹینکوں سے باہر نکال پھینکا ۔اس دوران باغی فوجی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ترک
عوام پر فائرنگ کرتے رہے لیکن عوام تھے کہ اس گھن گرج فائرنگ کے سامنے ڈٹے
رہے اور سینہ سپر رہے۔ترک عوام نے باغی فوجیوں کو گرفتار کرنے میں پولیس کی
مدد کی اور تقریباً ساری رات جمہوری حکومت کی حمایت میں گزار ڈالی اور صبح
کی نماز ترکی کی سڑکوں پر ادا کی۔اور صبح کی پو پھٹتے ہی جب ترک صدر طیب
رجب اردگان تشریف لائے تو ترک عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ان کا خطاب
سننے کے لئے ایک جگہ جمع تھا ۔ انہوں نے اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ : ’’
الحمد ﷲ! ہم نے فوجی بغاوت کو کچل دیاہے اورجنہوں نے یہ غیر آئینی حرکت کی
ہے ان کے خلاف انشاء اﷲ ! قانونی کار روائی کی جائے گی‘‘ ۔
ترکی میں اس وقت باغی فوجی گروہ کی جانب سے کی جانے والی بغاوت کے نتیجے
میں کم از کم 200کے قریب ہلاکتیں ہوچکی ہیں جب کہ 1100سے زائد افراد زخمی
ہوئے ہیں ۔ ہلاک ہونے والوں میں 104 باغی فوجی 41 پولیس اہلکار اور 47 شہری
عوام شامل ہیں ۔
ترکی میں 2002ء سے طیب رجب اردگان کی حکومت ہے ۔انہوں نے 2014ء میں وزارت
عظمیٰ چھوڑ کر صدارت سنبھالی تھی ۔وہ صدارتی نظام کے حامی ہیں اور ایک نیا
آئین بنانا چاہتے ہیں ۔اور وہ اس سلسلے میں فوجی مداخلت کے بھی سخت مخالف
ہیں ۔اور جب سے ان کی جماعت A.K پارٹی بر سر اقتدار آئی ہے تب سے ترکی
بتدریج ’’اسلامائیزیشن‘‘ کی راہ پر گامزن ہے ۔ ترک افواج میں کمال اتاترک
کی ذہنیت کے جرنیل موجود ہیں جو صدر طیب رجب اردگان سے محض اس وجہ سے شاکی
ہیں کہ وہ سیکولر ترکی پر اسلامی اقدار نافذ کرنا چاہتے ہیں ۔
ترکی صدر طیب رجب اردگان کے 15 سالہ پُرامن دورِاقتدار کے بعد ترکی کو حسب
سابق ایک بار پھر سیاسی بحران کی طرف دھکیلا جارہا ہے ۔ ترکی کی تاریخ پر
اگر نگاہ ڈالی جائے تو وہ اپنے قیام سے لے کر تا ہنوز ہمیشہ ہی ہر تین چار
سال بحرانوں کا شکار رہاہے ۔ چنانچہ ساٹھ کی دھائی تک ترکی کے بحرانوں کے
پیچھے برطانیہ کا اور اس کے بعدحسب ترتیب روس ، متحدہ امریکہ اور اسرائیل
کا ہمیشہ ہاتھ رہا ہے ۔
ترکی میں یہ فوجی بغاوت کوئی پہلی بغاوت نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی تین
چار فوجی بغاوتیں ہوچکی ہیں جو ہمیشہ کامیاب رہیں لیکن یہ واحد فوجی بغاوت
تھی جواس بار ناکام رہی ۔ اس کی اصل وجہ ترک عوام کے دل اپنی مٹھی میں لینا
ہیں ۔ ترک صدر طیب رجب اردگان سے پہلے جو جو حضرات ترک اقتدار کی کرسیوں پر
براجمان ہوئے ہیں وہ لوگ اگرچہ اسلام پسند لیڈر تھے مگر چوں کہ وہ لوگ ملک
کو ترقی و خوشحالی کے راستے پر گامزن کرنے کے حوالے سے کوئی بڑا منصوبہ نہ
بناسکے جس کے نتیجے میں ترکی پسماندگی کا شکار رہا اور 15 برس پہلے تک ترکی
اپنے بحرانوں کی وجہ سے جانا پہچاناجاتا رہا اور ترکی عوام کنویں کے مینڈک
کی سی زندگی بسر کرتے رہے اس لئے وہ حضرات ترک عوام کا دل بھی نہ جیت سکے
اور ترک عوام نے تنگ دل ہوکر ہمیشہ فوج کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں ہمیشہ
ترک فوج اپنی بغاوت میں کامیاب رہی۔
چنانچہ ترکی میں سب سے پہلے 1960ء میں فوجی بغاوت ہوئی جو اس وقت کے اسلام
پسند صدر عدنان میندریس کے خلاف ترک فوج کی ایک کامیاب بغاوت تھی جس کے
نتیجے میں باغی فوج نے حکومت وقت سے تنگ دل عوام کی مدد سے ترک قتدار پر
قبضہ جمالیا تھا اور عدنان میندریس کو تخت شاہی سے نیچے اتار کر فوراً تختہ
دار پر لٹکادیا تھا ۔
دوسری فوجی بغاوت ترکی میں 1980ء میں اس وقت ہوئی جب ستر کی دھائی میں ملک
میں امن و امان قائم رکھنے کے سلسلے میں اس وقت کی حکومت مکمل طور پر ناکام
ہوچکی تھی۔ تنگ دل عوام نے کھل کر ترک فوج کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں
باغی فوج کو تقویت ملی اور انہوں نے اسی کی دھائی میں ایک بار پھر اقتدار
سنبھال لیا ۔ اس وقت مارشل لاء ضوابط کے تحت ہزاروں کی تعداد میں لوگ زد
میں آئے ۔ ان میں سے دسیوں افراد نے تخریب کاری کے الزام کے جرم میں قید و
بند کی المناک صعوبتیں بھی جھیلیں اور بیسیوں افراد کو سزائے موت بھی سنائی
گئی ۔ 1982ء میں ترکی میں نیا آئین نافذ کیا گیا۔ اور 1989ء میں فوجی
سربراہ کی جگہ طور غوت اوزال ترکی کے نئے صدر منتخب ہوئے ۔ صدر اوزال نے
اگرچہ ترکی کی معیشت کو کافی حد تک جدید خطوط پر استوار کیا اور عالمی سطح
پر ترکی کے رتبے کو کافی حد تک بلند کیا لیکن اسے صدر اوزال کی شومیٔ قسمت
ہی کہیے کہ بایں ہمہ وہ ترک عوام کے دل نہ جیت سکے ۔
تیسری فوجی بغاوت ترکی میں اس وقت ہوئی جب 1997ء میں نجم الدین اربکان کی
اسلام پسند حکومت کو حکومت وقت سے تنگ دل عوام کی طاقت کے ذریعے ٹھکانے
لگایا گیا اور نجم الدین اربکان پربطور سزا کے سیاست میں داخلے پر ہمیشہ
ہمیشہ کے لئے پابندی لگادی گئی تھی۔
اور اب وہ وقت بھی چشم فلک نے دیکھ لیا جب ترک فوج کی بغاوت کے خلاف اسلام
پسند اور عوام کے دل موہ لینے والے ترکی کے عظیم لیڈر صدر طیب رجب اردگان
کے ابرو کے ایک اشارے پر پورا ترکی ملک باہر سڑکوں پر امنڈ آیا اور جان
ہتھیلی پر رکھ کر ٹینکوں کے سامنے جان کی بازی کھیلنے کو تیار ہوگیا اور اس
بات کا ثبوت دیا کہ ہمارا اب مرناجینا صدرطیب رجب اردگان کے ساتھ ہی ہوگا’’
واقعی بادشاہ وہ جو دلوں پر حکومت کرے ۔‘‘
ترکی میں سابقہ اسلام پسند لیڈروں کے خلاف سیکولر پسند فوجی بغاوتیں محض اس
وجہ سے کامیاب رہ چکی ہیں کہ ان حکومتوں سے بجاطور پر ترک عوام نالاں تھے
اور ایک بڑی تعداد میں وہ لوگ بدترین معاشی مسائل سے دوچار تھے اور اچھی
طرزِ حکمرانی مفقود تھی ۔ مگر آج کا ترکی یورپ کا مرد بیمار نہیں بلکہ آج
سے پندرہ برس قبل ترک قیادت نے عوام کی بے چینی کا تجزیہ کیا ۔ ملک میں
بنیادی اصلاحاتی ایجنڈے پر عمل در آمد کیا ۔ ایک مضبوط اور مستحکم بلدیاتی
نظام قائم کیا۔ اور ترک صدر طیب رجب اردگان اور ان کے ساتھیوں نے ایک مضبوط
معاشی ڈھانچے پر ملک کی معیشت کو استوار کیا ۔سالانہ آمدن مثالی بنائی ۔
صحت ، صفائی ، بنیادی ضروریات کی فراہمی ، تعلیم کے فروغ اور روزگار کے
بیسیوں نئے وسائل پیدا کیے ۔ جمہوریت کو مستحکم کیا اور ایک قابل رشک خارجہ
پالیسی بنائی ۔ عوام کو بنیادی سہولیات ٗپانی ، گیس ، بجلی، بہترین
مواصلاتی نظام دیا اور مسائل کو عوام کی دہلیز پر حل کرنے کی پالیسیوں پر
عمل در آمد کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بیرون ملک جانے والے ترک وطن واپس آرہے
ہیں اور اپنے ملک کی تعمیر و ترقی اور جمہوری نظام کی مضبوطی میں اپنا
کردار ادا کر رہے ہیں۔بلاشبہ کسی بھی ملک اور کسی بھی خطے کا فخر اور وقار
اس کی غیور اور زندہ دل عوام کی ہوا کرتی ہے۔
|
|