قدیم دیومالائی صحیفوں میں مہابھارت کا
اپنا مقام ہے۔ اس کے کردار ایسے دلچسپ ہیں کہ ان کی مشابہت حالات حاضرہ کے
مختلف واقعات سے بھی ہوجاتی ہے۔ مہابھارت میں ابھمنیو کو ارجن کا بیٹا اور
کرشن کا بھانجا ہو نےکی سعادت حاصل ہے۔ وہ سب سے زیادہ بہادر اور باصلاحیت
جنگجو ہے۔ اس کا بیٹا آگے چل کر ہستناپور کی سلطنت کا وارث قرار پاتا ہے
لیکن اس کے باوجودوہ جنگ کے تیرہویں دن چکرویوہ میں پھنس کر مارا جاتا ہے ۔
اس کے مارے جانے کی جو توجیہات پیش کی گئی ہیں وہ وزیراعظم نریندر مودی پر
صادق آتی ہیں ۔ اول تو یہ کہ چکرویوہ کو توڑنے کا علم اس کے پاس ادھورا
تھا ۔ جس وقت شری کرشن اپنی بہن سبھدرا کو یہ تعلیم دےرہے تھے وہ سو گئیں
اس لئےوہ درمیان ہی میں خاموش ہوگئے۔ اس طرح مادرِ حمل میں گیان پراپت
کرنےوالے ابھمنیوکی تعلیم ادھوری رہ گئی۔ اگر یہ سب آپ کو عجیب و غریب
لگتا ہے تو مودی جی کی تعلیم کے بارے معلومات حاصل کریں ۔ کسی انٹرویومیں
وہ خود اعتراف کرتے نظر آئیں گے کہ اسکول کے بعد تعلیم کا سلسلہ جاری نہیں
رہ سکا۔ کبھی وہ دہلی میں گریجویشن کرتے دکھائی دیں گے لیکن ڈگری چیخ چیخ
کر کہہ رہی ہوگی کہ وہ نقلی ہے اور پھر گجرات سے پوسٹ گریجویشن کی ڈگری کا
چمتکار بھی نظر آجائیگاگویاہمارے وزیراعظم بھی ست یگ کے لے کر کل یگ تک
جاری دیومالائی سلسلے کی اہم کڑی ہیں۔حالات حاضرہ پر نظر ڈالی جائے توایسا
لگتا ہے کہ کل یگ کا ابھمنیو بھی بڑے آرام سے چکرویوہ میں پھنستا جارہا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ جب اس کا ہر تیر نشانے پر لگتا تھا اور اب سارے خطا ہورہے
ہیں ۔
سیاسی جماعتوں کے نزدیک انتخابات سے زیادہ اہمیت کا حامل کوئی قومی یا
انسانی مسئلہ نہیں ہوتا ۔ فی الحال بی جے پی کیلئے سب سے بڑا چیلنج اتر
پردیش کا انتخاب ہے۔ اترپردیش میں بی جے پی نے پہلے تو مایاوتی کو اپنے
ساتھ لینے کی بھرپور کوشش لیکن جب اس میں کامیابی نہیں ملی تو بی ایس پی کو
اندر سے کھوکھلا کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اس حکمت عملی کے تحت اسمبلی میں
بہوجن سماج پارٹی کے اہم رہنما سوامی پرساد موریہ کو توڑا گیا لیکن پھر یہ
سلسلہ رکا نہیں ۔ موریہ کے بعد آر کے چودھری اور رویندر پرتاپ ترپاٹھی کو
بی ایس پی سے الگ کیا گیا اور ان کے بعد قومی سکریٹری پرم دیو نکل گئے ۔
امیت شاہ کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اس طرح کی حرکات سے مایا وتی کے
تئیں دلت رائے دہندگان کی ہمدردی بڑھ سکتی ہے ۔ بہار میں اس کا مظاہرہ
ہوچکا ہے سابق وزیراعلیٰ مانجھی کی غداری سے نتیشکمار کے رائے دہندگان قریب
تر ہوگئے اور خود مانجھی کی اپنی نیاّ ڈوب گئی ۔
اتر پردیش میں دیاشنکر سنگھ کے ایک احمقانہ بیان نے بی ایس پی کو پھر
سےزندہ کردیا۔جتنے لوگ بی جے پی سے نکلے تھےان سب نے مایا وتی پر ٹکٹ فروخت
کرنے کا الزام لگایا تھااور یہ بہت حد تک درست بھی ہے ۔ مایاوتی ہی کیوں بی
جے پی نے کیا وجئے ملیا سے کچھ لئے بغیر خیرات میں اپنے ارکان سے اس
بدعنوان سرمایہ دار کو ووٹ دینے کیلئے کہا ہوگا؟ اور دہلی سے فرار ہونے میں
مدد کی ہوگی؟ موجودہ سیاست کو تجارت کے علاوہ کچھ اور سمجھنے والا دراصل
سیاست کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہے۔ دیا شنکر سنگھ نے بھی کوئی نئی بات
نہیں کہی بلکہ جو لوگ روپیوں کے عوض بک کر بی ایس پی کو خیرباد کہہ رہے ہیں
ان کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ایسا کرنے کی وجہ مایاوتی کے ذریعہ
ٹکٹوں کی فروخت ہے لیکن ساتھ ہی دیا شنکر سنگھ نے مایا وتی کو طوائف سے
بدتر کہہ دیا ۔ دیا شنکر کی بدزبانی نے مایاوتی کے ستارے چمکا دئیے ۔ دیا
شنکر خود تو ڈوبے لیکن ان کے ساتھ بی جے پی کے شیڈول کاسٹ مورچے کے صدر دیپ
چند رام نے استعفیٰ دے کر یرقانی خاندان کی ساری سوشیل انجنیرنگ چوپٹ کردی
۔
دیا شنکر سنگھ نے جو کہا نہ وہ پہلی بار ہےاور نہ بی جے پی کا ہڑبڑانا نیا
ہے۔ اپریل کے اندر اترپردیش بی جے پی کے خواتین مورچہ کی صدر مدھو مشرا نے
بھی کہا تھا کہ آج تمہارے سر پر بیٹھ کردستور کے سہارے جولوگ راج کررہے
ہیں یاد کرو وہ کبھی تمہارے جوتے صاف کیا کرتے تھے ۔ ایک زمانے تک ہمیں جن
کے ساتھ بیٹھنا بھی گوارہ نہ تھا جلد ہی ہمارے بچے انہیں حضور کہہ کر
پکاریں گے۔ اس بیان کے سامنے آتے ہی بی جے پی نے مدھومشرا کو ۶ سال کیلئے
پارٹی سے نکال باہر کیا تھا دیا شنکر کے ساتھ بھی یہی کیا گیا لیکن اس طرح
کے تضحیک آمیز رویہ کے بعد بھی اگر امیت شاہ اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ
دلت سماج بی جے پی کو یا ان کے اکسانے پر مایاوتی سے الگ ہونے والوں کی
حمایت کرے گا تو اس سے بڑی بے وقوفی کوئی اور نہیں ہے۔
اتر پردیش میں سب سے پہلے انتخاب کا بگل بی جے پی نے جون کے اندر قومی
اجلاس منعقد کرکے بجایا۔ اس سے قبل کئی لوگ وزیراعلیٰ کے عہدے کیلئے اپنی
دعویٰ داری پیش کرچکے تھے۔ورون گاندھی کو ڈانٹ دیا گیا ۔ اویدیہ ناتھ کو
نظر انداز کردیا گیا اور سمرتی ایرانی کا نام بھی مسترد ہوگیا ۔ اس طرح راج
ناتھ سنگھ کا نام سب سے ابھر کر سامنے آیا ۔اجلاس کے بعد ہونے والے خطاب
عام میں راج ناتھ سنگھ کا عوام نے اسی جوش و خروش کے ساتھ خیر مقدم کیا
جیسا کہ کسی زمانے میں مودی جی کا ہوتا تھا ۔ ان کی تقریر سے قبل نعرے
لگانے والوں کا جوش اس قدر تھا کہ لوگ خاموش ہونے کا نام نہ لیتے تھے۔ مودی
جی اس سے ٹھٹک گئے۔ اس کے بعد راج ناتھ کا نام کا اعلان تو درکنار دوسرے دن
حکمت عملی طے کرنے کیلئے جو نشست رکھی گئی تھی اس میں راج ناتھ کو بیٹھنے
کا موقع نہیں ملا۔ مودی جی انہیں اپنے ساتھ لے کر دہلی آگئے۔اس کے بعد سے
بی جے پی کو اترپردیش میں وزیراعلیٰ کا امیدوار نہیں ملا۔ راج ناتھ سنگھ
بہت طاقتور امیدوار ہے لیکن مودی اور شاہ کی جوڑی انہیں اپنے لئے خطرہ
سمجھتی ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ جہاں۲۷ سال بعد مری پڑی کانگریس کی رتھ
یاترا کا اترپردیش میں استقبال ہورہا ہے وہیں بی جے پی کی نیاّ بیچ منجدھار
میں ڈول رہی ہے۔
دلتوں پر مظالم کا معاملہ اترپردیش سے نکل کر گجرات ، مہاراشٹر اور کرناٹک
تک پھیل گیا ہے ۔ ابتداء گجرات سے ہوئی جہاں گئو بھکتی کے نشے میں چور رام
بھکتوں نے مردہ گائے کی کھال نکالنے والے دلو ں کیکھلے عام پٹائی کردی ۔
ویسے جولوگ گائے کے پیشاب کو اپنے لئے امرت سمجھتے ہیں ان سے کیا توقع کی
جائے؟ ان بے قصور دلتوں کو خود آدرش گجرات کی پولس نے بلوائیوں کے حوالے
کیا ۔ اس ظلم کے خلاف ملک بھر میں احتجاج ہوا اورایوان پارلیمان میں اس کی
گونج سنائی دی۔ وزیراعلیٰ آنندی بین پٹیل نے جب کچھ دے دلا کر معاملے کو
ٹھندا کرنے کوشش کی تو مظلوموں نے جواب دیا ہمیں معاوضہ نہیں انصاف چاہئے۔
ان ظالموں کو ہمارے حوالے کرو تاکہ ہم ان سے بدلہ لے سکیں۔ مودی جی اور شاہ
جی کو خود اپنی ریاست میں ہونے والا یہ ظلم نظر نہیں آیا جبکہ اس کے خلاف
کئی دلتوں نے خودسوزی کی کوشش کی اور ان میں سے ایک ہلاک بھی ہوگیا۔
اتر پردیش میں اخلاق احمد کے اہل خانہ کےخلاف ایف آئی آر درج کرانے کے
بعد سنگھ پریوار کے حوصلے اس قدر بلند ہوگئے کہ ان لوگوں نے کرناٹک کے اندر
ایک دلت خاندان پر بیف کھانے کا الزام لگا کر اس کی پٹائی کردی۔ بجرنگ دل
کے ۴۰ لوگوں نے پہلے تو بلراج اور اسکے اہل خانہ کو ایک گھنٹے تک یرغمال
بنائے رکھا اور پھرلاٹھی و ہاکی سے ان پر ٹوٹ پڑے۔ اس حملے میں بلراج کا
ہاتھ ٹوٹ گیا اور اس کی اہلیہ و بیٹی بھی زخمی ہوئی۔ کرناٹک میں بیف پر
پابندی نہیں ہے ۔ یہاں سے بڑے کا گوشت پڑوسی ریاستوں بلکہ دنیا بھر میں
برآمد کیا جاتا ہے لیکن وہاں رہنے والے غریبوں کو اس سے محروم رکھا جارہا
ہے۔ دلتوں پر مظالم کے خلاف قانون کے تحت جب ملزمین کے خلاف مقدمہ درج کرکے
پولس نے۷ افرادکو گرفتار کیا تو چوری کے بعد سینہ زوری دکھاتے ہوئے بجرنگ
دل کے ساتھ بی جے پی کے رکن اسمبلی نے بھی احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی ۔
عدم رواداری اور نفرت کی یہ آگ مہاراشٹرمیں بھی پھیل رہی ہے۔ بیڑ ضلع میں
دو دلتنوجوانوں کو محض اس لئے ۳۰ لوگوں نے راستے میں روک کر زدوکوب کیا کہ
ان کی موٹر سائیکل پر ڈاکٹر بابا صاحب کی تصویر آویزاں تھی۔ یہ بات اگر
آپ کو حیرت زدہ کرتی ہے کہ آخر ڈاکٹربابا صاحب کی تصویر میں کیا خرابی ہے
تو آپ نہیں جانتے کہ احمدنگر کے پاس کوپرڈی کے مقام پر ایک نابالغ لڑکی کی
عصمت دری اور قتل ہوگیا ۔جائے واردات سے سیکڑوں میل دور جن موٹر سائیکل
سواروں کو مارا پیٹا گیا ان کا تعلق عصمت دری سے نہیں تھا بلکہ اس ذات سے
تھا جس کے فرد نے یہ گھناونا جرم کیا تھا اور ان کو مارنے والے مراٹھا تھے
جس سے مظلومہ کا تعلق تھا ۔ عصمت دری اور قتل کی تمام تر مذمت کے باوجود
کیا مراٹھوں کا یہ رویہ درست ہے ہر دلت پر اپنا غصہ اتاریں؟ لیکن انہیں کون
سمجھائے؟ مرکزی وزیر برائے سماجی انصاف رام داس اٹھاولے تک کو خود ان کی
حلیف جماعت بی جے پی کے وزیراعلیٰ نے کوپرڈی جانے سے روک دیا اور کہا ۸ دن
بعد ہم وہاں جائیں گے ۔
اٹھاولے تو خیر دلت ہیں لیکن خود براہمن فردنویس بھی ابھی تک کوپرڈی جانے
کی ہمت نہیں جٹا سکے ۔ دلت سماج کے دیگر دو رہنماوں ڈاکٹر پرکا ش امبیڈکر
اور یوگیندر کواڑے کو بھی پولس نے وہاں جانے سے روک دیا ۔ کوپرڈی ہی کی طرح
کا ایک واقعہ نئی ممبئی میں پیش آیا جہاں سوپنل سوناونے نام کے ایک دلت
نوجوان کو محض اس لئے قتل کردیا کہ وہ ایک آگری سماج کی لڑکی سے شادی کرنا
چاہتا تھا ۔ سوپنل کو لڑکی کے بھائی زبردستی پولس تھانے لے گئے وہاں پر اس
سے ڈرا دھمکا کر یہ لکھنے پر مجبور کیا گیا کہ وہ لڑکی سے رابطہ نہیں رکھے
گا ساتھ ہی یہ بھی لکھوا لیا گیا کہ اگر اس کے ساتھ کوئی ناگہانی واردات ہو
جائے تو اس کیلئے کوئی اور ذمہ دار نہیں ہوگا۔ اس وصیت کے بعد تو گویا اس
کے قتل کا پروانہ مل گیا۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ ساری دنیا کوپرڈی تو جانا
چاہتی ہے لیکن کوئی سوناونے خاندان کی غمگساری کیلئے نوی ممبئی نہیں جانا
چاہتا ہے۔
طبقہ واری منافرت کےآتش فشاں اندر ہی اندر پک رہا ہے اور ہم سب اس کے
دہانے پر کھڑے ہیں ۔ یہ چونکہ حکمراں جماعت کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے اس
لئے وہ پوری طرح بے دست پا ہے۔ اس سنگین مسئلہ کی جانب سے توجہ ہٹانے کیلئے
کبھی ڈاکٹر ذاکر نائک کے آئی آریف سے کسی کو گرفتار کرلیا جاتا توکبھی
کلیان یا پربھنی سے مسلم نوجوانوں کوداعش سے تعلق کا بے بنیاد الزام لگا کر
اٹھا لیا جاتا ہے۔داعش کے نام سے جو کھیل چل رہا اس کے بارے میں خود اے ٹی
ایس نے محکمہ قانون سے مطالبہ کیا ہے کہ جعلی شکایت کرنے والوں کو سزا دی
جائے۔ پچھلے ۸ ماہ میں اس قسم کی ۳۰۰ شکایتیں موصول ہوئی ہیں اوروہ سب کی
سب جعلی تھیں ۔ ان میں سے ایک ۸۰ سالہ امام مسجد کے خلاف تھی جو گزشتہ ۲۰
سالوں سے امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ تفتیش کے بعد پتہ چلا کہ مسجد
کے ٹرسٹ میں آپسی چپقلش رہی تھی ۔ جب ایک گروہ کو محسوس ہوا کہ امام صاحب
دوسرے دھڑے کے طرفدار ہیں تو اس نے امام صاحب کو داعش کا طرفدار بنادیا۔
ممبئی کے علاقہ کرلا میں سڑک پر کباب بیچنے والے ایک شخص کے خلاف شکایت
آئی تو پتہ چلا کہ اس کی وجہ سے ایک سبزی فروش کے کاروبار پر پڑنے
والےمنفی اثرات تھے ۔ ایک دفتر کے اندر کوئی خاتوناپنے ساتھ کام کرنے والے
کی کسی مرد میں دلچسپی رکھتی تھی جب اس نے دیکھا کہ وہ مرد کسی اور کی جانب
متوجہ ہے تو اس پر داعش سے تعلق کا الزام لگا دیا گیا ۔ یہاں تک کہ ایک
خاندان نے شادی کے رشتے کو منظور کرنے سے انکار کردیا تو اس کو پریشان کرنے
کیلئے اس کا رشتہداعش سے جوڑ دیا گیا۔ یہ تمام باتیں پولس کے محکمہ نے
بتائی ہیں جس سےاندازہ ہوتا ہے کہ ان فرضی شکایتوں کے پس پشت کہیں ذاتی
دشمنی ، کہیں کاروباری مسابقت،کہیں حسدیا ہمسائیگی کی مخاصمت جیسی وجوہات
کارفرما ہیں ۔ یہ تو انفرادی معاملات ہیں لیکن جب اس سے سیاسی مفادات
وابستہ ہوجائیں اور خودحکومت اس کا استعمال اپنے مخالفین کو ہراساں کرنے
کیلئے یا اپنی ناکامیوں کی جانب سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے کرنے لگے تو
معاملہ بہت زیادہ بگڑ جاتا ہے ۔
کیرالہ کے ایک شخص ایبن جیکب نے شکایت کی اس کی بہن میرین جیکب جس کا نیا
نام مریم ہے اور اس کے شوہر بیکسٹن ونسنٹ جس نے اسلام قبول کرنے کے بعد
اپنا نام یحیٰ رکھ لیا غائب ہوگئے ہیں اس لئے وہ ضرور داعش سے جاکر مل گئے
ہوں گے۔ اس اندیشے کی بنیاد پر وہ جس داعی کے ساتھ رابطے میں تھے اسے ممبئی
آکر گرفتار کرلیا گیا یہ کس قدر احمقانہ منطق ہے، اس لئے کہ یہ دوسال قبل
کا واقعہ ہے۔ آئی آر ایف کے عرشی قریشی کو ان سے جوڑ کر داعش سے جوڑنے کی
کوشش کرنا ایسی مذموم حرکت ہے کہ جس کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔افسوس کی بات
یہ ہے کہ شکایت کنندہ کا تعلق سنگھ پریوار تو درکنار ہندو سماج سے بھی نہیں
ہے ۔
کیرالہ پولس کی مدد سے یہ گندہ کھیل کھیلنے والی صوبائی حکومت بی جے پی یا
کانگریس کی نہیں بلکہ کمیونسٹوں کی ہے اور ان سے سنگھ پریوار کی دشمنی اس
قدر بڑھی ہوئی ہے کہ قتل و غارتگری تک کی نوبت آتی رہتی ہے۔ اس کے باوجود
کیرالہ کی اشتراکی حکومت کا سنگھ کا آلۂ کار بن کر بے قصور لوگوں کو بلکہ
اداروں اور مذہب کو بدنام کرنے کی سازش میں شامل ہوجانا از حد قابل مذمت
ہے۔بی جے پی کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس طرح کے خواب آور انجکشن سے کام نہیں
چلے گا جب یہ آتش فشاں پھٹے گا تو پورے سنگھ پریوار کو اپنے ساتھ بھسم
کرلے گا ۔ یہ بھسما سور ناچتے ناچتے جب اپنا ہاتھ اپنے ہی سر پر رکھے گا تو
خود بھسم ہوجائیگا لیکن اس وقت یہ اپنے ساتھ کتنوں کو نگلےگا یہ کوئی نہیں
کہہ سکتا۔ اس موقع مودی جی کو چاہئے کہ وہ نیرو کی مانند بنسی بجانے کے
بجائے ابھمنیو کی کہانی سے درس عبرت لیں۔
ابھمنیو کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ چندردیوتا کے فرزند ورچھا کا اوتار
تھا اور ساتھ ہی شری کرشن کا بھانجا بھی تھا اس لئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے
کہ ماموں نے مدد کرکےاپنے بھانجے کو بچایا کیوں نہیں؟ اس کی بھی ایک نہایت
دلچسپ حکایت ہے ۔ابھمنیو اپنے پچھلے جنم میں ابھقصورہ نام کا دانو(شیطان )
تھا اور وہ کرشن کے ماما کنس کا دوست تھا ۔ راجہ کنس اپنے بھانجے کرشن کو
قتل کرنا چاہتا تھا لیکن ہوا یہ کہ کرشن نے کنس کو ٹھکانے لگادیا ۔
ابھقصورہ نے اپنے دوست کنس کے خون کا بدلا لینے کا ارادہ کیا تو شری کرشن
نے اسے جادو سے کیڑا بنا کر ایک ڈبے میں بندکر دیا۔ کرشن کی بہن سبھدرا نے
ارجن سے شادی کے بعدغلطی سےڈبہ کھول دیا۔ وہ کیڑا رحم میں داخل ہوگیا اس
طرح ابھمنیو کی پیدائش ہوئی ۔ جب ارجن نے کرشن سے اپنے بیٹے کےموت کی شکایت
کی تو اس نے بتایا کہ میں نے پچھلے جنم کا بدلا لیا ہے۔ مودی جی نے بھی
وزیراعلیٰ کے دور میں جن لوگوں کو جینا دوبھر کردیا تھا اور اب بھی جس طرح
راج ناتھ تو دور اپنی منظور نظر سمرتی ایرانی کو ناراض کررہے ہیں اس سے ان
کے خلاف بھی کئی ابھقصورہ تیار ہوگئے ہیں ۔ وہ سب انتقام کی آگ میں جل رہے
ہیں اور مودی جی کےچکرویوہ میں پھنسنے کاانتظار کررہے ہیں ۔مودی جی کو یہ
نہیں بھولنا چاہئے کہ جب وہ پھنس جائیں گے تو ارجن کی مانند نہ سنگھ پریوار
کچھ کر سکے گااور نہ کرشن کی طرح امیت شاہ حمایت میں آئے گا ۔
|