’’میں میں‘‘ اور ’’میں نہ مانوں‘‘ کی روش
نے ہمارے قومی مفادات کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ تاریخ کے اوراق میں
ایسی داستانیں جابجا موجود ہیں جب ان لفظوں کی تکرارقومی ترقی اورعوامی
فلاح کی راہ میں حائل ہوگئی حتیٰ کہ ہمارے قومی وجودکے لیے خطرہ بن گئی۔
اسی ہٹ دھرمی کے نتیجے میں مختلف ادوار میں طالع آزماؤں نے جمہوریت کی بساط
لپیٹ دی۔ پھر ہم نے سیاسی بٹیروں کو آمریت کے کھیت میں دانہ چگتے بھی
دیکھا۔عالمی قوتوں نے بھی پاکستان کی ترقی کی راہ میں انہی کے ذریعے
رکاوٹیں ڈالیں۔ بہت سے قومی منصوبے اس گندی سیاست کی بھینٹ چڑھ کر تعطل کا
شکارہوگئے۔کاش اگر ان پر عمل درآمد ہوجاتا تو شاید آج ہم ایشین ٹائیگر
کہلاتے۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر عملدرآمد نہ ہونا اس کی سب سے بڑی مثال
ہے۔سقوط ڈھاکہ بھی اسی کا نتیجہ ہے۔ بجائے ان سے عبرت پکڑنے کے ہمارے ہاں
ایسی سیاسی ہٹ دھرمیاں بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ آج نئے چہرے نئے نعرے لگا رہے
ہیں مگر ان کی سوچ وہی روایتی محاذ آرائی سے اٹی پڑی ہے۔جس کا براہ راست
نقصان قومی وحدت کو پہنچا ہے۔
ہم نے دیکھا کہ جب چین نے پاکستان میں 42بلین ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری کا
اعلان کیا تو ہمارے دشمنوں کی چھاتی پر سانپ لوٹنا شروع ہوگئے۔ بہت سی
عالمی قوتیں اس سرمایہ کاری کے تحت ہونے والے منصوبوں خاص طورپر چین
پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو ناکام بنانے کے لیے سرگرم ہوگئیں۔ سی
پیک کی تعمیر سے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت میں مزید اضافے ، گوادر کی
بندرگاہ کے چالو ہونے سے ملکی ترقی اور معیشت میں اضافے کا تصور ان کی آنکھ
کا کانٹا بنا ہوا ہے۔ چلیں ان کی ’’تشویش‘‘ تو سمجھ میں آتی ہے مگر افسوس
خود ہمارے اندر ’’میں نہ مانوں‘‘ سیاستدانوں کی پریشانی عقل سے بالاتر
ہے۔ان کی یہی سوچ افواہوں کو جنم دے رہی ہے۔ وہ مختلف حیلوں بہانوں سے اس
عظیم منصوبے پر اعتراضات کررہے ہیں، سوالات اٹھارہے ہیں۔ محرومیوں کا رونا
روکر عوام کوپھر سے ورغلارہے ہیں۔ چین پاکستان کے درمیان بدگمانی اور
بداعتمادی کے تاثر ہوا دے رہے ہیں۔ تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان اور
چینی حکام ان تمام سازشوں سے پوری طرح باخبرہیں۔ گزشتہ دنوں پاکستان میں
چین کے سفیرسن وی ڈانگ نے ایسی تمام افواہوں کو مسترد کرکے واضح پیغام دیا
ہے کہ باہمی تعلقات اور سی پیک کے حوالے سے دونوں ممالک کے اعتماد میں شگاف
نہیں ڈالا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ چین اس منصوبے پر کام سے مکمل طور پر
مطمئن ہے اور یہ منصوبہ پاکستان اورچین کے عوام کے لیے گیم چینجر ثابت ہو
گا۔ پاکستان میں چینی سفیر کہتے ہیں، پاکستانی حکومت اور پوری قوم سی پیک
معاملے پر ہمارے ساتھ ہے، پاک فوج سی پیک منصوبے کو مثالی سکیورٹی فراہم
کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ منصوبہ تسلسل اور کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
فوج اور حکومت کے درمیان بھی سی پیک کے معاملے پر کسی قسم کا کوئی اختلاف
نہیں۔ دونوں مل کراس منصوبے کو تکمیل کی طرف لے جارہے ہیں۔ پاک فوج نے سی
پیک کی حفاظت کا ذمہ لے کر ان قوتوں کو پیغام ہے کہ اب وہ قومی اہمیت کے اس
عظیم منصوبے کودوسرا کالاباغ ڈیم بننے نہیں دے گی۔ اس سلسلے میں منصوبے پر
کام کرنے والے افراد کے تحفظ کیلئے ایک خصوصی حفاظتی ڈویژ ن قائم کیا گیا
ہے۔ ایک اور حفاظتی ڈویژن پاکستان کے جنوبی علاقوں میں کارکنوں کے تحفظ
کیلئے تشکیل دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقتصادی راہداری منصوبے پر
سکیورٹی کا مسئلہ بڑا اہم ہے کیونکہ ان منصوبوں پر 13ہزار کے قریب چینی
انجینئر زاور ورکرز کام کررہے ہیں ۔ پاک فوج نہ صرف منصوبے پر کام کرنے
والے کو تحفظ فراہم کررہی ہے بلکہ سڑکوں اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں
بھی بھرپور حصہ لے رہی ہے۔ ، پاک فوج کے انجینئر ز بلوچستان اور جنوبی
پنجاب میں 874کلومیٹر طویل شاہراہوں کی تعمیر میں عملی حصہ لے رہے ہیں اور
اس سے قبل وہ 670کلومیٹر شاہراہوں کی تعمیر مکمل کرچکے ہیں۔ اس طرح پاک فوج
منصوبوں پر کام کرنیوالے افراد کے تحفظ اور تعمیر کے کام میں خود حصہ لے کر
دوہرا کردارادا کررہی ہے۔ سی پیک کی تعمیر کے بنیادی منصوبے کے علاوہ دیگر
کئی منصوبوں کی طویل فہرست ہے جن میں توانائی کے متعدد بڑے منصوبوں کے
علاوہ اس پرریلوے ٹریک، تیل اور گیس پائپ لائنز اور انڈسٹریل اسٹیٹس کا
قیام بھی شامل ہے۔
یہ بلوچستان، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کو براہ راست جبکہ دوسرے صوبوں
کو روڈ نیٹ ورک کے ذریعے منسلک کرکے ہمارے دلوں کوبھی ملانے کا باعث بنے گا
۔ منصوبوں کی تیاری، ان میں مقامی صنعتوں کی شمو لیت، مقامی لیبر اور
افرادی قوت کی کھپت اس کے فوائدکے حصول میں اہم کردار کریں گے۔ اس لیے
مجموعی طور پر یہ منصوبہ پاکستانی عوام کی معاشی ترقی اور پسماندہ علاقوں
کی بہتری کیلئے امید کی بڑی کرن ہے۔یہ منصوبہ پاک چین دوستی کی سب سے بڑی
یادگار اور دوستی کی زنجیر ہے۔لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ کم از کم اس
ترقیاتی منصوبے کے حوالے سے ’’میں میں‘‘ اور ’’میں نہ مانوں‘‘ کی تکرار سے
اجتناب کیا جائے۔ چین نے تو اس کے متعلق افواہوں کو مسترد کرکے دشمنوں کو
بے چین کردیا ہے۔ اب ہماری باری ہے کہ ہم بھی اس کی بروقت تکمیل اور حفاظت
کے لیے یکساں قومی سوچ اپنا کرپاکستان کے دشمنوں کواور بھی بے چین کردیں۔ |