وزیراعلیٰ کی تبدیلی
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
خیبر پختونخوا حکومت اس لئے بھی منفرد ہے
کہ یہاں پر تبدیلی لانے والی جماعت کی حکومت ہے،اسلئے ناقدین سمیت ہر کسی
نے صوبے کی حکومت اور کارکردگی پر نظر رکھی ہے کہ یہاں پر تحر یک انصاف کی
حکومت نے کونسا کارنامہ سرانجام دیا کہ جب باقی ملک میں ان کی حکومت آئے گی
تو حالات کئی گنا زیادہ بہتر ہوں گے۔پرویز خٹک کی حکومت پر اپوزیشن جماعتوں
سے زیادہ پارٹی کے اندر تنقید ہوتی ہے کہ انہوں نے تین سال گزرنے کے باوجود
صوبے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں لائے اور پرویز خٹک روایتی سیاست کررہے ہیں
، پرویز خٹک پر یہ بھی الزامات ہیں کہ انہوں نے اپنے خاندان سمیت یاروں
دوستوں کو بھی حکومت میں نوازاجو پارٹی کی بنیادی منشور کے خلاف ہے دوسرا
پرویزخٹک کی حکومت پریہ اعتراضات بھی کیے جاتے ہیں کہ صوبے کے عوام نے جس
نظریہ پر پارٹی کوووٹ دیا تھا کہ کرپشن کا خاتمہ ہوگا ،بلدیاتی نمائندوں کو
فل اختیارات ملیں گے ،ایجوکیشن، صحت سمیت عوام کے بنیادی مسائل کو حل کیا
جائے گا لیکن پرویز خٹک ان مسائل اور اختیارات دینے اور کرپشن کے خاتمے میں
ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے پارٹی کے اندر ایم پی ایز اور ایم این ایز نے
وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو تبدیل کرنے کا چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سے
مطالبہ کیا ہے لیکن تاحال عمران خان ان کے مطالبے پر پرویز خٹک کو تبدیل
کرنے کیلئے تیار نہیں بلکہ گزشتہ روز اسلام آباد میں عمران خان کا کہناتھا
کہ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں پرویزخٹک کی کارکردگی بہت بہتر ہے ۔اس میں
کوئی شک نہیں کہ پرویز خٹک کی حکومت نے صوبے میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور
لائی ہے بعض ضروری قانون سازی بھی کی ہے لیکن کیا عام آدمی کو اس قانون
سازی اور حکومت سے فائدہ پہنچا ہے؟کیا آدمی کو ہسپتال میں علاج کی سہولت
بہتر مل رہی ہے ؟ کیا عام آدمی کو پولیس کی جانب سے وہ ریلیف مل رہا ہے جس
کا وہ حقدار ہے ؟ کیاآدمی کے درج کردہ سالوں سال سے پڑے ایف آئی آر پر
پولیس کو ئی کارروائی کررہی ہے ؟ کیا عام آدمی کے بچوں کو سرکاری اسکول میں
بہتری محسوس ہوتی ہے کہ سرکاری اسکو لوں کی حالت بہتر ہوئی ہے؟کیا صوبے میں
رہائش کا مسئلہ حل ہوا ہے ؟ کیا پٹواری کا نظام کمپیوٹرائز ہوا ہے؟ کیا
پٹواری نے پیسے لینا بند کیے ہیں؟ ان سب کا جواب اگر نفی میں نہیں ہے تو کم
ازکم ان میں وہ بہتری نہیں آئی جس کی عوام توقع کررہے تھے لیکن اس سے بڑھ
کر میں سوال کرتا ہوں کہ پارٹی کے ایم پی اے پر جو کر پشن کے الزامات تھے
اس پر دو سال گزرنے کے باوجود ثابت کیوں نہیں ہوئے،وہ آج تک کس جرم میں سزا
بھگت رہاہے ،کیااس کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے پرویز خٹک پر اعتراضات
اٹھائے تھے؟جس کی وجہ سے ان کو سزا ملی رہی ہے ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ
ان کے اعتراضات پر انکوائری کمیشن بنادیا جاتا لیکن بجائے اس کے ان کے خلاف
ہی کارروائی شروع ہوئی جو تاحال مکمل نہ ہوسکی ، دوسرا مسئلہ پارٹی کاسب سے
بڑا نعرہ کرپشن کو ختم کرنے کا تھا جس کیلئے آزاد کمیشن بنانے کا فیصلہ ہوا
، عوام کے پیسوں سے چلنے والے صوبائی اسمبلی کے درجنوں اجلاسوں کے بعد جب
قانون سازی ہوئی جس میں ان کو یہ اختیارات بھی دیے گئے تھے کہ کمیشن
وزیراعلیٰ کا بھی احتساب کرے گا جس کو پارٹی چیئرمین نے خوب کیش کیااور ہر
پریس کانفرنس اور جلسے میں اس کا ذکر کیا لیکن بعدازاں ان کے اختیارات کم
کیے گئے جبکہ اب پورا کمیشن ہی ختم ہوگیا ۔یہ زمینی حقائق ہیں جبکہ خان
صاحب کے وعدیں اور نعرے آج بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ تیسرا پارٹی نے بلد
یاتی نمائندوں کو اختیارات دینے کے جو وعدے اور باتیں کی تھیں اس کا بھی
زمینی حقائق سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ،آج صوبے کے بلدیاتی نمائندے جن
کی اکثر یت تحریک انصاف ہی سے تعلق رکھتی ہے ، دربدر کی ٹھوکریں کھارہی ہے
، اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں ، جو قانونی سازی کی گئی تھی وہ بھی بے
معنی ہوئی اس میں بھی تبدیلی کی گئی جبکہ علاقے کے اسکولوں، ہسپتالوں اور
دوسر ے سرکاری اداروں کی مانیٹرنگ کرنے اور ان کو بہتر کرنے کے اختیارات تو
درکنار اب تک کے بنیادی فنڈز بھی نہیں دیے گئے ہیں جس سے عام لوگوں کے
نالوں اور گلیوں کے کام ہوسکیں بلکہ زیادہ تر فنڈز جو جاری ہوتے ہیں وہ
ترقیاتی کاموں سے زیادہ ان کی تنخواہوں پر خرچ ہوتے ہیں ۔ بلدیاتی نمائندوں
کا جو جم غفیر منتخب ہواہے جس میں ، کسان، خواتین ،پانچ ،چھ قسم کے
کونسلروں سمیت اقلیت ،علاقہ ناظم،تحصیل ناظم اور ڈسٹرکٹ ناظم کی فوج ہے
سوائے تحصیل ناظم اور ڈسٹرکٹ ناظم کے باقی سب کے سب بے اختیار اور ٹائم پاس
کررہے ہیں ان تحصیل اور ضلع ناظم میں اکثریت پارٹی کے ایم پی اے اور ایم
این اے کے بھائی ، بہن اور رشتہ دار ہیں ،اسلئے ان پر مہربانی کی جارہی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ بلدیاتی نمائندے اپنے اختیارات کے لئے وقتاً فوقتاً احتجاج
بھی کرتے ہیں ۔چیئرمین تحریک انصاف کو چاہیے کہ وہ میاں نواز شریف نہ بنیں
جس پر دن میں 22گھنٹے تنقید کرتے ہیں کہ وہ اپنے ایم این اے اور ایم پی اے
سے ملنا وقت کا ضائع اور اپنی توہین سمجھتے ہیں ، پارٹی چیئرمین پرویز خٹک
اور ان کی حکومت پر تنقید کرنے والے ایم پی ایز اور ایم این ایز سے ملاقات
کریں اور سب کی بات غور سے سنیں ، اس کے بعد پارٹی کے غیرمنتخب شدہ لوگوں
کے ذریعے تحقیقات کرائیں کہ سچائی کیا ہے اس کے بعد فیصلہ کریں کہ پارٹی
منشور پر کتنا عمل ہورہاہے ، آیا صوبے کے عوام ان کو دوبارہ منتخب کریں گی
؟ ان پر غور کرنا چاہیے اور اگر وزیراعلیٰ کو تبدیل کرنا ضروری ہے تو اس
میں تاخیر بالکل نہیں کرنی چاہیے، ساتھ میں صوبے سے منتخب ہونے والے دوسرے
ایم این ایز اور پارٹی کے کارکنوں کی بھی رائے لینی چاہیے اس کے بعد فیصلہ
کرنا چاہیے تاکہ حکومت کی کارکردگی بہتر ہوجائے اور عوام کو حقیقی معنوں
میں تبدیلی محسوس ہو۔ |
|