قائم علی شاہ کی کتاب
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
سید قائم علی شاہ آٹھ سال تک وزارتِ عُلیا
کی ذمہ داریاں نبھانے کے بعد بالآخر مستعفی ہوگئے، ان کا استعفیٰ فوراً
قبول بھی کرلیا گیا۔ اگر انہوں نے یہ کارنامہ خود سرانجام دیا ہوتا تو ممکن
ہے اس کی قبولیت میں اخلاقاً ہی کچھ تاخیر کردی جاتی ، یہ کام چونکہ منصوبہ
بندی کے تحت ہوا، اس لئے اس کارروائی کے تمام امور معمول کے مطابق ہی
نمٹائے جارہے ہیں۔ تاہم سندھ میں پی پی حکومت کی نیا وزیراعلیٰ بلا مقابلہ
لانے کی معصوم سی خواہش شاید پوری نہ ہو سکے، کیونکہ پی ٹی آئی نے جمہوریت
کے حُسن کو بڑھاوا دینے کے لئے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خیر جو
بھی ہو، قائم علی شاہ اپنی سیٹ پر قائم نہیں رہ سکے، اب ان کی جگہ پر مُراد
علی شاہ کی مراد بر آئی ہے۔ آنے والے دنوں میں اس تیار شدہ تبدیلی کا پراسس
مکمل ہو جائے گا۔ قائم علی شاہ پاکستانی سیاست کے بزرگ ترین سیاست دان گنے
جاتے تھے۔ آجکل چونکہ ٹی وی چینلز کا زمانہ ہے، اس لئے کسی بھی سیاستدان کی
سابقہ کارگزاری کو تاریخ کی ترتیب کے ساتھ دوبارہ دکھانے کا اہتما م کردیا
جاتا ہے، کسی کو یاد کرنا ہو، کسی کو کچھ یاد دلانا ہو، کسی کا تمسخر اڑانا
ہو، یا کسی کا جھوٹ سچ سامنے لانا ہو، تو پرانی ویڈیوز کو ترتیب دے کر ایک
رپورٹ تیار کرلی جاتی ہے۔ خبر میں مزید چٹخارہ پیدا کرنے کے لئے اس کے ساتھ
میوزک بھی اسی قسم کا دیا جاتا ہے، بعض اوقات بھارتی گانوں کی گونج میں کسی
کی تضحیک کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ سندھ کے ’وڈے سائیں‘ رخصت ہوئے ہیں تو ٹی
وی چینلز نے یہی کچھ کیا ہے، یہ کاروبار ابھی مزید بھی کچھ دن تک جاری رہے
گا۔
ابھی تو قائم علی شاہ نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب تک اسی سیٹ پر اپنی خدمات
سرانجام دیتے رہیں گے، مگر ساتھ ہی یہ خبر بھی آگئی ہے کہ اگلے دنوں میں
مکمل فرصت پانے کے بعد بھی وہ آرام سے نہیں بیٹھیں گے، فراغت کے دنوں کے
لئے انہوں نے ایک مصروفیت تلاش کرلی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وہ ایک کتاب لکھنے
کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو وہ مبارک باد کے مستحق ہیں، کہ
کچھ ہی عرصہ میں وہ صاحبِ کتاب ہو جائیں گے۔ صوبے کی حکومت کی سربراہی سے
اچانک فارغ کر دیئے جانے کے بعد فوری طور پر کتاب لکھنے کے ارادے سے شاہ
صاحب کی خود اعتمادی اور پرعزم ہونے جیسی خوبیوں کا اندازہ ہوتا ہے، کیونکہ
کسی صدمے کے بعد انسان کوئی تخلیقی کام کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا، یا
کم از کم بڑا تخلیقی کام نہیں کرسکتا، اگر جذبات بھرا مضمون لکھنے کی بات
ہوتی تو کہا جاسکتا تھا کہ شاید وہ مضمون شاہکار بن جائے، کیونکہ دل و دماغ
کوئی چوٹ کھانے کے بعد جن جذبات کا اظہار کریں گے وہ یقینا شاہکار ہی ہو
سکتا ہے۔ اس صورت میں بھی اگر انہوں نے کتاب لکھنے کے عزم کیا ہے، تو یہ
ایک خوش آئند بات ہے، کیونکہ شاہ صاحب سندھ کی سیاست میں عشروں سے عملی طور
پر موجود ہیں، انہوں نے قیام ِ پاکستان کے وقت سے لے کر اب تک تمام وقت
متحرک رہ کر گزارا ہے۔ انہوں نے پاکستان بنتے بھی دیکھا، مارشل لا لگتے بھی
دیکھے، انہوں نے ایک ہی پارٹی میں اپنی زندگی گزاری ، یہ امر کسی بھی اعزاز
سے کم نہیں کہ انہوں نے پارٹی کے قیام سے لے کر اب تیسری نسل تک پارٹی کے
ساتھ وفاداری کی، اور پارٹی قیادت (مالکان) نے بھی انہیں اس وفاداری کا صلہ
دیا۔
کتاب لکھنے کے لئے یقینا قائم علی شاہ کے پاس لاکھوں باتیں ہونگی، ہزاروں
واقعات ہونگے، نہ جانے کتنے پوشیدہ گوشے ایسے ہیں جن کا علم صرف شاہ صاحب
کو ہی ہے، وہ پارٹی کے بانی سے لے کر ان کی تیسری نسل تک کی سیاست کے عینی
شاہد ہیں۔ یقینا بہت سی باتیں ایسی بھی ہونگی، جن کے منفی اثرات عوام اور
سیاست پر پڑ سکتے ہیں، یا ایسا سچ بھی انہیں معلوم ہو سکتا ہے، جس سے ملک و
قوم کواُن کے قائدین کے ہاتھوں کوئی نقصان پہنچا۔ وہ طرح طرح کے واقعات تو
لکھ سکتے ہیں، مگر قوم کو سچ کی بھی ضرورت ہے، ان کی کتاب تاریخ کا ایک باب
ہوگی، اور مورخ کے لئے ضروری ہے کہ وہ سچ بولے۔ قائم علی شاہ کی کتاب دلچسپ
ضرور ہوگی، کیونکہ ان کا تقریر اور گفتگو کا اسلوب دلچسپ ہی ہوتا ہے، اگرچہ
تقریر میں وہ شعر وغیرہ بھول جاتے تھے، مگر لکھنے کے عمل میں وہ تسلی سے
درست شعر بھی لکھ سکیں گے۔ قوم ان کی اس کاوش کی منتظر ہے۔ |
|