16دسمبر 2014کوتحریک طالبان سے تعلق رکھنے
والے سات مسلح افراد نے پشاور کے آرمی پبلک سکول پر منظم حملہ کیا۔جس کے
نتیجے میں 148افراد نے جام شہاد ت نوش کیا۔ ان میں اکثریت آٹھ سے اٹھارہ
سال کے معصوم طلباء کی تھی ۔ حملہ اتنا سفاک تھا کہ آج بھی اسے یاد کرکے
رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں تپتی گولی ننھے جسم کو کیسے پاڑ کرتی ہے ایسی
بربریت ہمیں آر می پبلک سکول پر حملہ کے بعد دیکھنے کو ملی ۔حملہ آورں میں
ایک چیچن ، تین عرب اور دو افغانی شامل تھے ۔ 19جولائی 2016ء کو حملے کا
ماسٹر مائنڈ عمر خراسانی ڈورن حملے سے مشرقی افغانستان میں مارا گیا۔ آرمی
پبلک سکول پر حملے کے بعد پوری قوم یکسو نظر آئی۔سیاستدان بھی دہشتگردی
کیخلاف متحدہو گئے ۔آل پاکستان پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی ۔20نکاتی نیشنل
ایکشن پلان پیش کیا گیا جس کے نکات کچھ یوں ہیں۔ پھانسیوں پر عمل درآمد
شروع کیا جائے گا، آئین میں 21ویں ترمیم کرکے 2سال کیلئے خصوصی عدالتیں
قائم ہوں گی تاکہ انتہاء پسندوں کو فوجی عدالتوں کے ذریعے کیفر کردار تک
پہنچایا جائے ۔مسلح تنظیموں کو کام کرنے کی جاز ت نہیں ہو گی، NACTAکو فعال
،نفرت اور انتہاء پسندی پھیلانے والے اخبارات ، رسائل اور کتابوں پر پابندی
،دہشتگردوں اور تنظیموں کی فنڈنگ کا خاتمہ ، کالعدم تنظیموں کو اور نام سے
کا م کرنے کی اجازت ،خصوصی دہشتگردی فورس تشکیل ، اقلیتوں کو تحفظ،مدارس کی
رجسٹریشن سمیت پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر دہشتگرد تنظیموں کے خیالات نشر
کرنے پر مکمل پابندی ہو گی۔فاٹا میں بے گھر افراد کی واپسی، انتظامی و
ترقیاتی اصلاحات کی رفتار کو تیز کیا جائے گا، دہشتگردوں کے مواصلاتی نیٹ
ورک کا خاتمہ ،سوشل میڈیا پر دہشتگردی کے پھیلاؤ کو روکنے کے اقدامات ،
بلوچستان حکومت کو اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملکر مکمل اختیار دیا جائے گا۔
فرقہ واریت پھیلانے والے عناصر کیخلاف سخت کاروائی ، افغان مہاجرین کی
واپسی ، رجسٹریشن کیلئے جامع پالیسی بنائی جائے گی اوردہشتگرد تنظیموں تک
رسائی کیلئے صوبائی انٹیلی جنس اداروں کو ساتھ ملایا جائے گا۔ نیشنل ایکشن
پلان کے یہ نکات تھے جن پر تمام سیاسی و عسکری قیادت نے اعتماد کااظہار
کیااب آتے ہیں نیشنل ایکشن پلان کی عمل درآمدی پر خصوصی عدالتوں کے قیام کے
بعد اب تک تقریبا ً450 افرادکو پھانسیاں دی جا چکی ہیں،سیکیورٹی فورسز نے
54ہزار کے قریب تلاشی کی کاروائیاں کیں ،60ہزار گرفتاریاں اور 3ہزار آپریشن
انٹیلی جنس کی بنیاد پر کئے ،102مدارس کو سیل ،کالعدم عسکریت پسند گروپوں
کے 126اکاؤنٹس منجمد کرکے 1ارب کی رقم اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی تحویل
میں لی۔ بیرون ممالک سے امداد لینے والے190مدارس کی نشاندہی کی گئی ،500سے
زائد نفرت پھیلانے والی کتابیں ضبط،71دکانیں سیل،893علماء کیخلاف مقدمے درج
کرکے ان کے کیسز خصوصی عدالتوں میں بھیجے گئے ۔لاؤڈ سپیکر کا غلط استعمال
کرنے پر 7ہزار افراد پر مقدمات درج، مذہبی نفرت پھیلانے پر 6856مبلغین کو
گرفتار ،سموں کی جانچ پڑتال کیلئے 3ماہ میں 979ملین سموں کی تصدیق ہوئی
،51ملین سمز کو بلاک کر دیا گیا، افغان مہاجرین کی رجسٹریشن کا عمل شروع
ہوا، 3416ملک بدر ہوئے۔نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرتے ہوئے کراچی آپریشن
شروع ہوارینجرز نے 58ہزار جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کرنے کیساتھ بڑے
پیمانے پر غیر قانونی اسلحہ برآمد کیا ۔ گرفتار مجرموں میں قاتل ، دہشتگرد
، بھتہ خور اور اغواء کار شامل تھے ۔کراچی سمیت ملک کے مختلف حصوں میں
دہشتگردی کے منصوبے ناکام بنائے گئے ۔ پنجاب میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل
درآمد کیلئے پولیس نے غیر مجاز نمبر پلیٹ ، کالے شیشے والی گاڑیوں کیخلاف
کاروائی کے ساتھ جنرل ہولڈ اپ کئے ۔ کاؤنٹر ٹیررازم نے کاروائی کرتے ہوئے
دہشتگردی میں ملوث کئی اہم رہنماؤں کو گرفتار کرنے کے ساتھ بہت سے
دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کی بات اعداد و
شمار کیساتھ کی جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے عسکری و سویلین
اداروں نے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے خاطر خواہ اقدامات کئے ہیں۔ دہشتگردوں
کو پھانسیاں دینے سے ان کی حوصلہ شکنی کی گئی اور ان لوگوں کو انجام تک
پہنچایا گیا جو دہشتگردانہ سرگرمیوں میں ملوث تھے سموں کی چانچ پڑتال سے اب
کوئی شخص دہشتگردی کے متعلق بات کرنے پر ضرور ایک بار سوچتا ہے کہ کہیں
قانون کی پکڑ میں نہ آجاؤں۔سوشل میڈیا پر بھی اب لوگ کھلے عام نفرت انگیز
مواد یا پھر دہشتگردوں کی حمایت نہیں کر سکتے لیکن پھر بھی ابھی کافی کام
کرنا ہوگا۔دہشتگردوں کا موقف پیش کرنے کیخلاف میڈیا کو’ جکڑنا ‘بھی اچھی
پیش رفت ہے جس سے ان کے موقف کو تقویت نہیں مل رہی ۔ قابل نفرت مواد کی روک
تھام ، مذہبی منافرت پھیلانے والوں کی گرفتاری، لاؤڈ سپیکر ایکٹ اور مدارس
کی جانچ پڑتال نے یقینا دہشتگردوں کے حوصلے پست کر دیئے ہیں خاص کر ان کی
فنڈنگ کے متعلق کیونکہ فنڈنگ ہی وہ ’’مین پائپ لائن ‘‘ ہے جس کی وجہ سے
دہشتگرد’’خون کی ہولی ‘‘ کھیلتے ہیں ان سب میں اہم کرایہ داری ایکٹ ہے اس
سے دہشتگردوں کو چھپنے کیلئے جگہ نہیں ملے گی اور نہ ہی وہ ہمارے اندر آکر
منظم منصوبہ بندی کرسکیں گے یعنی کہ انہیں ’دقت‘ ضرور محسوس ہوگی۔نیشنل
ایکشن پلان پر عمل درآمد یقینی بنانے کیلئے یہ ایسے اقدامات ہیں جو یقینا
کچھ عرصے بعد اپنے نتائج پیش کرنا شروع کر دیں گے ۔ خاص کر ضرب عضب کے بعد
ملک میں دہشتگردی کے واقعات میں کمی آئی ۔ حساس و اہم دن بخوبی خیر و عافیت
سے گزرے ہیں لیکن! بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ اور دیگر فرقہ وارانہ فسادات کے
واقعات بھی سامنے آئے جو یقینا نہیں ہونے چاہیں تھے قابل افسوس ہیں ہم اس
وقت حالت جنگ میں ہیں اس کی بروقت روک تھام ممکن بھی نہیں جب دشمن چاروں
جانب سے چت ہو رہا ہو تو ایسی تخریبی کاروائیاں کرکے سیکیورٹی اداروں اور
قوم کے حوصلے پست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ضرب عضب کے نتیجے میں دہشتگردوں
کے مضبوط نیٹ ورک کا خاتمہ ہوا کراچی کے حالات ہمارے سامنے ہیں روشنیاں
بحال ہوئیں ۔یہ طے شدہ بات ہے کہ ہر عمل کا مثبت اور منفی پہلو ہوتا ہے
اعداد و شمار موجودہ ملکی حالات ، وسائل، زمینی حقائق ، خارجہ پالیسی ،
ہمسایہ ممالک کا رویہ و تعلقات اور خاص کر پوری دنیا کے پاکستان کے متعلق
رویے کی بات کی جائے تو موجودہ صورتحال میں ہم نے کافی کچھ حاصل کرلیا ہے
اور بہت کچھ ابھی حاصل کرنا باقی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے دوسرے رخ کی بات
کی جائے تو یہ سیکیورٹی اداروں کیلئے بڑا چیلنج ہے کہ کراچی سمیت ملک کے
دیگر شہروں میں کالعد م تنظیمیں متحرک طریقے سے پس پردہ یا پھر کھلم کھلا
کا م کرنے کیساتھ چندہ بھی وصول کررہی ہیں۔دہشتگردوں کے حامی اب بھی
دندناتے پھر رہے ہیں تمام نہیں لیکن کچھ ایسے مدارس ہیں جہاں اب بھی نفرتوں
کے بیج بوئے جارہے ہیں ۔کم سن جوانوں کوجہاد کے نام پر دہشتگرد بنایا جا
رہا ہے۔فنڈنگ بھی جاری ہے اور منافرت پر مبنی تقاریریں بھی کی جاتی ہیں۔ان
سب چیزوں پر قابو پانے کیلئے وقت یقینا درکار ہے ان پر اگر قابو نہ پایا
گیا تو نیشنل ایکشن پلان کی کامیابیاں صرف دعوؤں اور سیاسی نعروں کے سوا
کچھ نہیں ہوں گی ۔ گولی بارود کے ذریعے ہم رویے تبدیل نہیں کر سکتے اور نہ
ہی ذہنی سوچ بدل سکتے ہیں نفرت کا جواب ہمیشہ نفرت سے آتاہے۔ دلوں میں
نفرتیں آج کی پیدا کی ہوئی نہیں ہیں ان کو برسوں لگے ہیں اور انہیں برسوں
بعد ہی ختم کیا جا سکتا ہے دہشتگردی کی جنگ میں داخل ہوئے ہمیں 35سال ہونے
کو ہیں لیکن قوم اب امن چاہتی ہے دہشتگردی سے چھٹکارا چاہتی ہے۔امن کی بات
کی جائے تویہ صرف پاکستانیوں کا مطالبہ نہیں بلکہ پوری دنیا امن چاہتی ہے ۔دنیا
ہمارا مسکن ہے ہر بندہ یہی چاہتا ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو ، خوشیاں ہوں
اور محبتیں ہوں۔دہشتگردی اب صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی مسئلہ بن
چکا ہے ۔ دہشتگردی کو پاکستان یا اسلام سے جوڑنا بھی قطعاً درست نہیں لیکن
ہم اسلام کے نام پر استعمال بھی ہوئے ہیں اور ہو بھی رہے ہیں مخصوص ذہنیت
کے حامل افراد کی وجہ سے اب بھی ’نا بالغ ‘ذہنوں کو’ طالبان‘ بنایا جا رہا
ہے جو اپنا نظام لانے کی بات کرتے ہیں ایک ایسا نظام جو آپ ﷺ کے اسلام اور
نظام سے مختلف ہے آپ ﷺ نے جو دین ہم تک پہنچایا وہ تو امن ، آشتی ، محبت ،
پیار اور بھائی چارہ والا تھا لیکن ایسا دین ہمیں دیکھنے کو نہیں ملتا جو
لوگوں کا قتل عام کرکے نافذ کیا جائے۔ہر ملک اندرونی طور پر انتہاء پسندوں
کے ہاتھوں یرغما ل ہے وقتاً فوقتاً ایسے لوگ ’’ ٹریلر ‘‘ پیش کرکے اپنی
سفاک ذہنیت کا عکس پیش کرتے رہتے ہیں تازہ مثال امریکہ میں سیاہ فاموں کا
قتل عام ہے ۔ عراق ، شام ،لبنان،افغانستان ، نائجیریا،صومالیہ،یمن،
فلسطین،کشمیر، لیبیااور پاکستان سمیت کئی یورپی ممالک دہشتگردی کے لپیٹ میں
ہیں اس لئے امن اب پوری دنیا کا مسئلہ ہے صرف ایک ملک کا نہیں۔ جولائی
2016ء کے مہینے میں 162دہشتگردی کے واقعات پوری دنیا میں ہوئے جن میں زیادہ
تر مسلم ممالک تھے جو دہشتگردی کے لپیٹ میں آئے اس لئے دہشتگردی صرف
پاکستان کا مسئلہ اب نہیں رہا۔دہشتگردی کی جنگ میں ہم نے 60ہزار سے زائد
معصوم جانوں کو کھود یاہے ۔ ہمیں اندرونی طورپر انتہا ء پسندی کا سامنا ہے۔
افواج پاکستان ، پولیس اور شہریوں پر دہشتگردوں نے بے پناہ حملے کئے ہیں۔
ہمارے ہوائی اڈوں، پولیس اسٹیشنوں ، قدرتی گیس کی پائپ لائنوں ،ریلوے
اسٹیشن ،ہوٹل ، ائیر بیسز،حساس اداروں کے دفاتر یہاں تک کہ ہماری مساجد ،
گرجا گھروں اور مذہبی مزارات کو بھی نہیں چھوڑا گیاجس کی وجہ سے پاکستان کا
’امیج‘ منفی طور پر ابھر کر پوری دنیا کے سامنے پیش ہوا۔دہشتگردی کے واقعات
نے اسلام کے چہرے کو بھی مسخ کر دیا ۔دنیا ہمیں نفرت کی نگاہ سے دیکھنے پر
مجبو ر ہوئی ۔معیشت برباد ہوئی ،صرف اور صرف تباہی ہمارے حصے میں آئی ۔اب
فیصلہ کن گھڑی آن پہنچی ہے کہ ہمیں بلا تفریق دہشتگردوں اور ان کے حامیوں
کیخلاف مضبوط اور ’اٹل‘ موقف اختیار کرنا ہوگانیشنل ایکشن پلان اپنی جگہ
ٹھیک ہے اس پر مزید کام ہونا چاہیے لیکن اب ایک ’’قومی ایکشن پلان‘ ‘ہمیں
بحیثیت ایک قوم معاشرے میں ’نافذ ‘کرنا چاہیے ۔ سیاسی ، عسکری و بیورو
کریسی قیادت متحدہوکر اپنے ’مفاد‘ کو ترک کر کے دہشتگردو ں کی حوصلہ شکنی
کریں ۔ سیاسی جماعتیں بھی اپنے اندر موجود عسکری گروپوں کا قلع قمع کریں
صرف حصول اقتدار کی خاطر دہشتگردوں کی ’معاونت‘اور ’ حمایت ‘ حاصل کرنے
کیلئے ان کو ’سپورٹ‘ نہ کریں بلکہ ملکی مفاد دیکھیں اورآنے والے نسلوں کی
بقاء کیلئے سخت گیر موقف اختیا ر کریں ہم نے بہت کچھ گنوا دیا ہے اب مزید
ہمیں نہیں گنوانا ہمیں اپنی نسلوں کو سنوارنا ہے ۔ رحم کسی پر نہ کیا جائے
اچھے اور برے طالبان کی تفریق بھی ختم ہو نی چاہیے ۔ برسراقتدار آنے والی
حکومتیں بھی اپنی ذمہ داریاں نبھائیں ان کی کوتاہیوں کی وجہ سے لوگ ہتھیار
اٹھانے پر مجبور ہوئے ہیں۔تشدد کے بغیر ہم لوگوں کے تنازعات کو حل کرنے کے
قابل ہو سکتے ہیں ان کے معیار زندگی کو بہتر کیا جائے۔شہریوں کی حفاظت
یقینی بنائی جائے تاکہ وہ انتقام کی خاطر ہتھیار نہ اٹھائیں۔شہریوں کو
قانون کا پاسدار بنانا بیحدضروری ہے اس کیلئے ہمارے قانونی اداروں کو اپنا
کردار ادا کرنا ہوگا۔انصاف کی فراہمی اور منصفانہ قوانین ہر شہری کی ضرورت
ہے اس کا پورا ہونا ضروری ہے ۔حکومت عوام کی جوابدہ ہوتی ہے خوراک ، صاف
پانی ،تعلیم ،صحت عامہ اور مہذب معاشرہ عوام کا بنیادی حق ہے حکومت اس کی
فراہمی کیلئے اپنا بھرپور کردار اداکرے۔ حکومت کیساتھ ساتھ عا م شہری بھی
اس میں اپنا حصہ ڈالیں خاص کر مخیر افراد۔لوگوں کومذہب، نسل ، زبان ،علاقے
اور قومیت کی بنیاد پر تقسیم کرنا بند ہونا چاہیے ۔ بیشک کوئی بھی قوم
تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی ہمارا تعلیمی نظام امن کے آفاقی اصولوں پر
مبنی ہونا چاہیے نوجوانوں کی ایسی ’’کھیپ ‘‘ تیار کرنا ہو گی جو امن کو
سمجھ سکے جو صیحح معنوں میں تعمیری ،تہذیبی اور تشدد سے پاک پر امن معاشرہ
قائم کرنے کیلئے اپنا کلیدی کردار ادا کر سکے ۔عوام کی جانب سے نافذ’قومی
ایکشن پلان ‘میں امن کیلئے نوجوانوں کی بڑی تعداد کو آگے آنا ہوگاجو
دہشتگردی کے خاتمے کیلئے جدید امن پر مبنی پروگرام سامنے لائے،دہشتگردی کے
چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ’’پیس سٹڈیز ‘‘ سرکل منعقد کریں۔مصالحتی عمل کو آگے
بڑھانے کیلئے دانشوروں کی خدمات اور مکالمے کرناہوں گے۔مرد و خواتین کو
بااختیار بنانا ہوگا۔انتہاء پسند ی ، بنیاد پرستی اور نفرت انگیز رویوں کے
خاتمے کیلئے ایک نئی راہ روشنیوں سے مزین سامنے دکھانا ہوگی جو امن کے
اجالے ہر سو بکھیر دے۔ جس کی کرنیں دہشتگردی اور انتہاء پسندی کا خاتمہ کر
سکیں ۔دولت کی غیر منصفایانہ تقسیم ، غربت ، بیروزگاری اور احساس محرومی کو
ختم کئے بغیر ہم اپنے مقاصد میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے اس لئے ضروری
ہے کہ ان تمام خامیوں کا خاتمہ ترجیحی بنیادوں پر کیا جائے۔ا س کیلئے مجھ
سمیت ہمیں بلا تفریق ایک قوم بن کر سامنے آنا ہو گا۔ |