وہی روایتی باتیں اور ہٹ دھرمی
جو انڈیا کا خاصہ ہے ایوب خان سے لیکر آج تک جانے مسئلہ کشمیر پر جانے کتنے
مذاکرات کے ادوار ہوئے لیکن کوئی قابل دکر کامیابی یا کشمیریوں کو حق خود
اختیاریت نہ مل سکی۔ اس مسئلہ پر جنگیں ہوئیں اور ہم آدھے ملک سے محروم ہو
گئے انڈیا پاکستان کے اندرونی معاملات میں مستقل مداخلت کا مرتکب ہوتا رہا
ہے وہ ہمارے ہاں تعصبات اور فرقہ واریت کو ہوا دے کر حکومت مخالف جذبات
پروان چڑھانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اس نے مشرقی پاکستان میں یہی کچھ کیا
جس سے بغاوت پھیل گئی ایسے موقع پر ہماری نا عاقبت اندیش قیادت اور مغربی
پاکستان کی سیاسی لیڈروں کی اقتدار کی خواہش نے فوجی حل کی حمایت کر کے
علیحدگی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ انڈیا نے مشرقی پاکستان میں فوجیں
داخل کر کے قبضہ کر لیا یہ کھلی مداخلت تھی۔ جس کی منصوبہ بندی وہ پچھلے
پچیس سال سے کرتا رہا تھا۔
اس کے عزائم نظریہ پاکستان کے خاتمے کے ہیں جس پر وہ طویل مدتی فارمولے پر
عمل پیرا ہے اس لئے وہ کسی ایسے فارمولے پر رضامند نہیں ہوتا جو اس کے
عزائم کی راہ میں رکاوٹ بنے اور ظاہر ہے کہ پاکستان ان کی شرائط تسلیم نہیں
کرتا ہوتا یوں ہے کہ مذاکراتی ٹیم یہاں جس بات پر متفق ہو کر انڈیا جاتی ہے
وہاں جا کر کچھ اور ہی مؤقف اختیار کر لیتی ہے۔ جس سے دونوں ممالک میں بد
اعتمادی کا عندیہ ملتا ہے۔
ایک وقت ایسا بھی آیا جب ہندوستان نے پوکھران میں ایٹمی دھماکے کئے اور
پاکستان سے کشمیر بزور طاقت چھین لینے کی بات کرنا شروع کر دی تھی مجبوراً
پاکستان کو چاغی میں دھماکے کر کے اپنی ایٹمی طاقت کا اظہار کرنا پڑا اسکے
بعد انڈین لہجے میں تبدیلی آ گئی اور پاکستان کو بے معنی مذاکرات کے جھانسے
دے کر اپنے طویل مدتی اکھنڈ بھارت منصوبے پر عمل پیرا ہے۔
اس وقت بھی افغانستان سے ہمارے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں مداخلت کا
مرتکب ہو رہا ہے جس پر ہماری حکومت تساہلی سے کام لے رہی ہے کہ تعلقات خراب
نہ ہوں اور اسکی مداخلت اتنی بڑھ چکی ہے کہ بلوچستان اور فاٹا میں حکومتی
عملداری کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ اور غالباً انڈیا اس سے فائدے اٹھانے کا
انتظار کر رہا ہے۔ ہمیں اس صورتحال پر گہری نظر رکھنی ہو گی اور سیاسی
فارمولے سے مسئلے کے حل کی طرف پیش قدمی کرنی ہوگی۔
بقول قدرت اللہ شہاب کے بھارت ہمارے ساتھ خیر سگالی کی بات کرے یا تعلقات
معمول پر لانے کا آغاز کرے, تجارتی لین دین ہو یا زراعتی گفت و شنید ہو
ثقافتی ہیر پھیر ہو ہر شعبہ میں بھارت کی حکمت عملی کی سژک ایک اور صرف ایک
منزل کی طرف جاتی ہے اور وہ ہے اکھنڈ بھارت!
انڈیا مختلف ادوار میں اپنے فائدے کی شقیں جیسے تجارت جس میں اس کا فائدہ
ہو فوراً مان لیتا ہے۔ ایوب خان کے دور میں عالمی بینک کے تعاون سے پانی کی
تقسیم کا معاہدہ ہوا اس کے تحت بھارت نے پاکستان کے تین دریاؤں چناب’ ستلج
اور سندھ کا کنٹرول حاصل کر لیا ‘ان پر عالمی اداروں کے تعاون سے ڈیم بنانے
میں مصروف ہے کچھ مکمل ہو چکے اور کچھ تعمیر کے مراحل میں ہیں ہم نے بہت
شور مچایا میکن معاہدے کے مطابق ہم اپنے مؤقف تسلیم کرانے میں ناکام رہے !
اور بھارت ہمارے ملک کے ایک بڑے زرعی حصے کو معاہدے کی رو سے صحرا میں
تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
جانے کیوں ہمارے ناعاقبت اندیش حکمر ان ایسے معاہدے کر جاتے ہیں کہ آئندہ
نسلیں اسکا خمیازہ بھگتنی رہیں۔
ہمیں کشمیر سمیت تمام مسائل کے حل کی مدت طے کر کے ہندوستان کو مذاکرات پر
مجبور کر کے معاہدے کرنے ہونگے, ورنہ اسی طرح آمدن نشستن برخاستن ہی ہوتا
رہے گا۔ |