نفرت، بغاوت اور احساس محرومی کی
آگ میں جلتا ہوا پاکستان کا سب سے بڑا اور کل رقبے کے 48 فیصد پر محیط، ملک
کی صرف 4 فیصد آبادی والا صوبہ بلوچستان اِس وقت آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا
ہے اور ہر آنے والے دن کے ساتھ قومی وحدت سے دوری کی گہری ہوتی ہوئی خلیج
بلوچستان کو ہم دور لئے جارہی ہے، گزشتہ دنوں بلوچستان نیشنل پارٹی کے
مرکزی سیکریٹری جنرل اور سابق سینیٹر حبیب جالب بلوچ کے قتل نے بلوچستان کو
ہی نہیں، پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اِس المیے کے منصوبہ ساز یہ بات
اچھی طرح جانتے ہیں کہ اُن کا ہدف ایک فرد نہیں بلکہ پاکستان کی سالمیت اور
یکجہتی ہے، حبیب جالب بلوچ کے قتل سے چار روز قبل نیشنل پارٹی کے سینئر
رہنما مولا بخش دستی کی شہادت کے سوگ میں ڈوبے ہوئے بلوچوں سمیت ملک بھر کے
صاحبان دل پر یہ خبر بجلی بن کر گری اور بلوچستان کے مختلف علاقوں کے سمیت
کراچی اور دوسرے مقامات پر نظر آنے والا احتجاجی ردعمل، جلاؤ گھیراؤ، توڑ
پھوڑ، پتھراؤ، شاہراہوں کی بندش، تعلیمی اداروں میں سوگ، تجارتی مراکز میں
ہڑتال اور اشتعال کے مظاہرے دکھ کی اُس کیفیت کے مظہر ہیں جس سے بلوچ عوام
اور اُن سے محبت کرنے والے آج دوسرے پاکستانی دو چار ہیں۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ جب بھی بلوچستان میں حالات کو بہتر بنانے کی کوشش
کی جاتی ہے، وہاں کوئی نہ کوئی ایسا دل ہلا دینے والا واقعہ رونما ہوجاتا
ہے جس سے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے کا عمل ضائع ہو کر رہ جاتا ہے، گزشتہ چھ
عشروں سے جاری آپریشنوں اور مقامی روایات سے انحراف کے اثرات صوبے کے لوگوں
کے اپنے ہی وسائل سے محرومی کے احساس کے ساتھ مل کر شدید تر ہوتے رہے ہیں،
نواب اکبر بگٹی کی شہادت کا زخم ایسا کاری ہے جس کے اندمال کے لئے بہت کچھ
کرنے کی ضرورت تھی، پچھلے برس تین رہنماؤں غلام محمد بلوچ، شیر محمد بلوچ
اور لالہ منیر کے تربت میں قتل کے واقعے نے جلتی پر تیل کا کام کیا، گو کہ
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری نے 18فروری 2008ء کے
انتخابات کے بعد صوبے کے عوام سے وفاق کی طرف سے ماضی میں کی گئی زیادتیوں
کی جو معافی مانگی، اُس کا قوم پرست کہلانے والے حلقوں کی طرف سے مثبت جواب
آیا تھا، مگر بعد میں ٹارگٹ کلنگ سمیت جو واقعات رونما ہوتے رہے، اُن سے
حالات مزید بگاڑ کی طرف جاتے نظر آرہے ہیں، مغربی ممالک کے تھنک ٹینکس بعض
منصوبوں اور وزیر داخلہ رحمن ملک کی جانب سے بعض غیر ملکی طاقتوں کے ایجنڈے
کے تذکروں کے باوجود اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ صوبے میں ٹارگٹ کلنگ
کا ایک ایسا سلسلہ جاری ہے جس سے اساتذہ، ڈاکٹر،رینجرز،سرکاری اہلکار،آباد
کار اور مقامی محنت کشوں سمیت کوئی بھی محفوظ نہیں ہے،جبکہ عوامی مقبولیت
کے حامل سیاستدانوں کا قتل صوبے کے موجودہ حالات کے ایک خاص سمت کی طرف لے
جائے جانے کا اشارہ بھی کرتا ہے۔
اس حوالے سے 18 اکتوبر 2009ءکو دی نیوز کراچی کی اشاعت میں دل ہلا دینے
والی رپورٹ قابل توجہ ہے،جس کے مطابق بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن پاکستان سے
آزادی کی تحریک شروع کرچکی ہے،مذکورہ تحریک کی خاص بات یہ ہے کہ اِس میں
خواتین بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں،رپورٹ کے مطابق خواتین میں پاکستان
کی قومی سلامتی سے متعلق ادارے کے خلاف مردوں سے بھی زیادہ شدید جذبات پائے
جاتے ہیں،جبکہ بلوچ نوجوانوں میں پنجابیوں اور اردو بولنے والوں کے خلاف
جذبات عروج پر ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ کو کراچی سے کوئٹہ جانے والی شاہراہ
اور مستونگ اور قلات کی درو دیوار پر جگہ جگہ پاکستان مخالف نعرے لکھے نظر
آئیں گے،حال یہ ہے کہ بلوچستان میں قومی ترانہ پڑھنے،پاکستانی پرچم لہرانے
پر دھمکیوں کے باعث پابندی ہے، مطالعہ پاکستان کے نصاب سے نکالنے کے مطالبے
ہورہے ہیں،کوئٹہ میں گوادر،خضدار اور حب نیز چمن اور قلات سے لیکر نصیر
آباد، اوستہ محمد تک آتش وآہن کا دور دورہ ہے۔
آج سینئر بلوچ رہنما دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر بلوچستان میں ریفرنڈم کرایا
جائے تو 90 فیصد لوگ پاکستان سے علیحدگی کے حق میں رائے دیں گے،دی نیوز میں
شائع ہونے والی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اب تک بلوچستان سے 50 ہزار
غیر بلوچی خاندان نقل مکانی کرچکے ہیں اور22 ہزار سے زائد سرکاری ملازمین
نے بلوچستان سے باہر ٹرانسفر کی درخواستیں دے چکے ہیں، بلوچستان یونیورسٹی
کے متعدد اساتذہ اپنا ٹرانسفر کراچکے ہیں،جبکہ 120 اساتذہ کی ایسی ہی
درخواستیں احکامات کی منتظر ہیں،اِس صورت حال کی وجہ سے بلوچستان کے اعلیٰ
تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے اور بہت سے ادارے بند
ہوگئے ہیں،رپورٹ کے مطابق بلوچوں میں غیربلوچوں پر بداعتمادی اتنی بڑھی
ہوئی ہے کہ عام لوگوں کو بھی شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور انہیں
پنجابی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔
اِن حالات میں معتدل آوازیں غیرموثر اور غیر متعلق ہوتی جارہی ہیں،بہت سے
بلوچ رہنما سمجھتے ہیں کہ مسئلے کا زیادہ سے زیادہ حل صوبائی خودمختاری
ہے،گو کہ اس رپورٹ کو مبالغہ آمیز کہا جارہا ہے،لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ یہ
رپورٹ ملک کی وحدت و سلامتی کے حوالے سے بین الاقوامی قوتوں کے خطرناک
عزائم کی نشاندہی کررہی ہے،حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان بین الاقوامی توجہ کا
اس لئے مرکز ہے کہ بلوچستان میں معدنی دولت کی فراوانی ہے اور اِس کی زمین
میں پوشیدہ خزانوں کے ساتھ ساتھ یورینیم جیسے معدنی دولت بھی موجود
ہیں،بلوچستان کی زمین کے نیچے بہنے والے سیال سونے کی صرف ایک ذیلی پیداوار
وہ گیس ہے جس پر وطن عزیز کے بیشتر کارخانوں کا انحصار ہے اور جس کی بدولت
ہماری بستیوں کے گھروں میں چولہے جل رہے ہیں،بلوچستان میں چین کی مدد سے
تیار کردہ گوادر پورٹ کو ملکی معیشت میں انتہائی اہمیت حاصل ہے،جبکہ اِس کی
جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر پاکستان دشمن طاقتوں پر خوف اور سراسیمگی کی
کیفیت طاری ہے۔
گوادر پورٹ نے بحیرہ عرب کے تین ساحلوں کو اپنے قریب کردیا ہے،اِس کی اسی
اہمیت کے پیش نظر عالمی سطح پر امریکی ایماءپر اِس طرح کی منصوبہ بندی کی
جارہی ہے کہ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرکے اسے عملی اعتبار سے امریکا کی
بالادستی میں دے دیا جائے،دراصل بلوچستان کو پاکستان سے کاٹ کر امریکی
تحویل میں دینا اُس عظیم عالمی سیاسی کھیل کا حصہ ہے جسے گلوبلائزیشن
(Globalization) کے ماہر اور متعدد کتابوں کے مصنف پیپ سکوبار Escobar Pep
نے تفصیل کے ساتھ طشت ازبام کیا ہے،حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کو جغرافیائی
لحاظ سے وسط ایشیاء میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اسی وجہ سے امریکہ و
بھارت کا اصل نشانہ بلوچستان ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان عالمی سازش کے نرغے میں گھرا ہوا ہے،معدنی دولت
سے مالا مال اِس خطے میں جب سے پاکستان اور چین نے مل کر دلچسپی لینی شروع
کی ہے،تب سے یہاں کے حالات بہت خراب ہیں،بعض عالمی سازشی قوتیں نہیں چاہتیں
کہ گوادر اور بلوچستان کے دیگر میگا پراجیکٹس میں چین کوئی سرگرم کردار ادا
کرے،اِس لئے وہاں ایسے حالات پیدا کر دئیے گئے ہیں جن سے نہ صرف بلوچوں کا
غم و غصہ بڑھ رہا ہے بلکہ میگا پراجیکٹس بھی بہت بری طرح متاثر ہو رہے
ہیں،یہ اِس قدر نازک معاملہ ہے کہ حکومت پاکستان کو اسے پہلی ترجیح کے طور
پر لینا چاہیے،کیونکہ بلوچستان کے ساتھ پاکستان کا مستقبل جڑا ہوا ہے،اِس
صوبے کے معدنی وسائل پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنا سکتے ہیں لیکن حکمرانوں
کو پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے سے کوئی دلچسپی نہیں،اُن کی ساری توجہ یا
تو آئی ایم ایف سے قرضے حاصل کرنے یا آئی ایم ایف کی شرائط پورا کرنے پر پر
مرکوز رہتی ہے،پاکستان کو خودکفالت کی منزل سے کیسے ہمکنار کرنا ہے یہ
ہمارے حکمرانوں کا مقصد نہیں۔
یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ آئینی اور سیاسی ہے جسے
طاقت کے زور پر حل کرنے کا سابق آمر پرویز مشرف کا طریقہ کار درست تھا نہ
ماضی کے حکمرانوں کی فوج کشی کا،صدر آصف علی زرداری نے تو بھٹو دور میں
ہونے والی فوج کشی پر بلوچ عوام سے معافی طلب کی ہے،تاہم ساٹھ برس میں
لگائے جانے والے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے عملی اقدامات بشمول مجوزہ
آئینی پیکیج،لاپتہ افراد کی تلاش،سیاسی قیدیوں کی رہائی،صوبائی خود
مختاری،قومی وسائل،سرکاری ملازمتوں اور فورسز میں بلوچستان کی نمائندگی کا
تناسب بڑھانے کا معاملہ تاخیر کا شکار ہے۔
ایسے وقت میں جب بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھنے اور صوبہ سرحد میں اٹھنے
والی شورشوں کی آگ بجھانے کے لئے تمام طبقوں،حلقوں اور قوتوں کے مل جل کر
کام کرنے کی ضرورت بہت بڑھ چکی ہے،ذمہ دار حلقے اندرونی محاذآرائی پر اپنی
توانائیاں صرف کرنے اور سیاسی بیان بازی کے علاوہ کچھ نہیں کررہے،ایک طرف
وزیرستان میں حالات پہلے ہی مخدوش ہیں،دوسری طرف بلوچستان میں احتجاج کی
ایک شدید لہر دیکھنے میں آرہی ہے،امریکا اپنی عالمی جنگ کے حوالے سے سرحد
اور بلوچستان کے حالات سے فائدہ اٹھانے کے لیے سرگرم ہے،جبکہ بلوچستان سے
ہمدردی رکھنے والے آئینی موشگافیوں میں الجھ کر بلوچوں کوایک ایسی بند گلی
کی طرف دھکیلنے میں مصروف ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔
اس تناظر میں حبیب جالب بلوچ جیسی دلیل کی قوت سے اپنے مؤقف کی پیروی کرنے
والی شخصیات کے اٹھ جانے سے اُن انتہا پسندوں اور علیحدگی پسند عناصر کو
تقویت ملنے کا امکانات اور بھی بڑھ جاتے ہیں،جن کی راہ میں علم و آگہی کی
بصیرت رکھنے والے اعتدال پسند رہنما دیوار بنے رہتے ہیں،حبیب جالب کی شہادت
کو وفاقی و صوبائی حکومتوں اور قومی سیاسی جماعتوں کو خطرے کی گھنٹی سمجھنا
چاہئے،مجرموں کی گرفتاری کی ہدایات،لوگوں کو صبر کی تلقین اور جعلی
گرفتاریوں کا سہارا لیکر اِس قربانی کو ضائع کرنا قوم کو ناقابل تلافی
نقصان کی طرف لے جاسکتا ہے،مرکز اور بلوچستان کی حکومتوں کو فوری طور پر
اِس سانحے کے ممکنہ اثرات کا اس طرح جائزہ ہوگا جس سے قوم کو محسوس ہو کہ
ہماری وفاقی و صوبائی حکومتیں اور سیاسی و مذہبی جماعتیں لوگوں میں پائی
جانے والی تشویش اور اُس کے اسباب کا ادراک اور حل رکھتی ہیں،حقیقت یہ ہے
کہ حبیب جالب بلوچ کی شہادت سے بلوچستان کی حقیقی قوم پرست سیاست کا ایک
اور باب بند ہواہے،نواب اکبر بگٹی جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ بلوچ رہنما کے
بعد ایک اور اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نڈر بلوچ رہنما کا قتل بھی اُسی ٹارگٹ
کلنگ کا شاخسانہ ہے جس کا سلسلہ ایک عرصے سے بلوچستان میں جاری ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے بانی عطاءاللہ مینگل کی بات قابل توجہ ہے جس میں
انہوں نے کہا ہے کہ ” ہمارے لوگوں کو ایک ایک کرکے مارا جارہا ہے وہ اپنی
طرف سے سب کو دھکا دے کر اُس مقام پر لیجانا چاہ رہے ہیں جہاں سے واپسی
ناممکن ہو، مگر ہمارے پاؤں اُس طرف نہیں اٹھ رہے،لیکن اِن قدموں کو ہم کب
تک روکیں گے؟ عطاءاللہ مینگل نے ایک اور بات اور کہی جو بہت معنی خیز
ہے،اُن کا کہنا تھا کہ ملک جب تک باہر کی دنیا نہ چاہے نہیں ٹوٹتے اور نہ
بنتے ہیں ۔“ قارئین محترم عطاءاللہ مینگل ہوں یا دیگر بلوچ عمائدین بلا شبہ
وہ زخم خوردہ اور غمزدہ ہیں،اِس مرحلے پر جہاں اُن کو اعتماد میں لینا بہت
ضروری ہے وہیں اُن کی باتیں ارباب اقتدار کو دعوت غورو فکر بھی دے رہی ہیں۔
ہمیں یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ حبیب جالب بلوچ کی شہادت نے
بلوچستان کے منظر نامے کو یکسر تبدیل کردیا ہے اور نیشنل پارٹی کے رہنما
سابق ضلعی ناظم مولا بخش دشتی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری
جنرل حبیب جالب بلوچ کا قتل بلوچستان کی نازک اور سنگین صورتحال کی عکاسی
کررہا ہے،سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف نے بلوچستان کے رہنما،سابق
وزیراعلیٰ،گورنر اور وفاقی وزیر اکبر بگٹی کو میزائل حملوں کے ذریعے قتل
کرکے بلوچستان میں جو آگ لگائی تھی وہ پھیل کر آتش فشاں کا روپ دھار چکی
ہے،دوسری طرف حکومتی رٹ کے نام پرارباب اقتدار بلوچوں کو ایسے راستے پر
دھکیلنے کی کوشش کررہے ہیں،جہاں سے اُن کی واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
ابھی بھی وقت ہے کہ عطاءاللہ مینگل،نواب خیر بخش مری،جنرل عبدالقادر
بلوچ،محمود خان اچکزئی جیسے بلوچ رہنما جو پاکستانی آئین و قانون کے اندر
رہتے ہوئے حقوق کے حصول کی کوششوں پر یقین رکھتے ہیں کی موجودگی سے فائدہ
اٹھا کر ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے اور بااختیار افراد اور ا دارے تساہل
وسست ر وی کی روش ترک کرکے بلوچستان کے مسئلے پر ”وعدے نہیں عمل“ کی حکمت
عملی اختیار کرکے دشمن کے عزائم کو ناکام بنانے کیلئے سیاسی بنیادوں پر
بلوچستان کے مسئلے کا حل تلاش کریں،یاد رکھیں کہ حالات و واقعات کی رفتار
تیز ہے اور عمل کی مہلت بہت ہی کم ہے،آنے والے دنوں میں بلوچستان کا سیاسی
منظر نامہ کیا ہوگا یہ حکومت اور سیاسی جماعتوں کے رویوں پر منحصر ہے،ہمارا
ماننا ہے کہ پارلیمانی سیاست کی حامی قوتوں کا اشتراک عمل ہی ناراض بلوچ
قوم پرستوں سے مذاکرات کی مضبوط بنیاد بن سکتا ہے اور قومی وحدت کو متحد
رکھ سکتا ہے۔ |