پلڈاٹ کی یوتھ پارلیمنٹ نے بھی سفارشی کلچر اپنا لیا

پلڈاٹ کی یوتھ پارلیامینٹ نے بھی سفارشی کلچر اپنا لیا ساتویں یوتھ پارلیامینٹ 2015 کا آغاز ہوا تو مجھے میرٹ کا اندازا ہوگیا کہ یوتھ پارلیامینٹ کے پاس کتنی میرٹ ہے کیوں کہ سلیکشن کمیٹی میں موجودسندھ کے سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والی یوتھ پارلیامینٹ کی سابقہ ڈپٹی اسپیکر کی قوم سے تعلق رکھنے والے دو امیدوارYP3-45-Sindh06 اور YP2-48-Sindh09 ساتویں یوتھ پارلیامینٹ2015 کے ممبر منتخب ہوگئے
میں سیاسی و جمہوری نظام پر یقین رکھتا ہوں کیوں کہ کسی بھی ملک کی ترقی کا دارومدار سیاسی و جمہوری نظام پر ہی ہوتا ہے جبکہ آمریت کے دوران ایک شخص اپنی مرضی سے ملک کے فیصلے کرتا ہے اور اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے عوام کے تمام تر مفادات کو نظرانداز کردیتا ہے۔ آمریت کے دوران اظہار کی آزادی پر پابندیاں لگتی رہتی ہیں نہ صرف میڈیا بلکہ اعلیٰ عدلیہ بھی آمریت کے ظلم کا شکار ہوتی ہے۔

سیاست میں دلچسپی کی وجہ سے میں نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر کی ہوئی ہے اور سندھ کی مختلف اخبارات میں مضمون لکھتا رہتا ہوں ۔ گذارش یہ ہے کہ گذشتہ سال میں نے پلڈاٹ(PILDAT) کے تحت ساتویں یوتھ پارلیامینٹ آف پاکستان 2015 کا ممبربننے کے لیے درخواست دی تھی جس کے بعد مجھے انٹرویو کے لیے میرئٹ ہوٹل کراچی میں بلایا گیا تھا جہاں پر سلیکشن کمیٹی میں موجود قومی اسیمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکرمحترم وزیر احمد جوگیزئی اور یوتھ پارلیامینٹ کی سابقہ ڈپٹی اسپیکرسمیت ایک اور خاتون نے مجھ سے انٹرویو لیا۔ انٹرویو کے دوران مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ یہ سب فارملٹی ہے اس ملک کی روایات کے تحت من پسند نوجوانوں کو ہی منتخب کیا جائے گا کیوں کہ انٹرویو میں جو سوالات کیے گئے وہ بلکل ہی عام تھے۔ انٹرویو کے ایک ماہ بعد مجھے یوتھ پارلیامینٹ کی جانب سے ای میل موصول ہوئی کہ میں منتخب نہیں ہو سکا ای میل میں یہ بھی لکھا گیا تھاکے آئندہ سال میری حوصلا افزائی کی جائے گی میں نے سوچا چلو ٹھیک ہے آٹھویں یوتھ پارلیامینٹ کا رکن بننے کے لیے درخواست دوں گا ۔ ایک سال انتظار کرنے کے بعد اپریل 2016 کے دوران میں نے آٹھویں یوتھ پارلیامینٹ کے لیے آن لائین درخواست دی مگر مجھے شارٹ لسٹ نہیں کیا گیا یہ تھی یوتھ پارلیامینٹ کی حوصلا افزائی جو انہوں نے مجھے دی خیر مجھے نہیں معلوم کے یوتھ پارلیامینٹ کے پاس میرٹ کی کیا بنیاد ہے کیوں کہ 2015 میں مجھ سے جو سوالات کیے گئے تھے وہ ایسے سوالات نہیں تھے جو میں ایسا سوچوں کہ شاید میرے جوابات غلط ہوں جس کی بناپر میں منتخب نہیں ہو سکا ۔ میں نے سنا تھا کہ یوتھ پارلیامینٹ کا ممبر بننے کے لیے کسی امیدوار نے سفارش کروائی تو اس کی درخواست رد کردی جائے گی مجھے خوشی ہوئی کہ یہاں پر میرٹ مضبوط ہے لیکن جب ساتویں یوتھ پارلیامینٹ 2015 کا آغاز ہوا تو مجھے میرٹ کا اندازا ہوگیا کہ یوتھ پارلیامینٹ کے پاس کتنی میرٹ ہے کیوں کہ سلیکشن کمیٹی میں موجودسندھ کے سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والی یوتھ پارلیامینٹ کی سابقہ ڈپٹی اسپیکر کی قوم سے تعلق رکھنے والے دو امیدوارYP3-45-Sindh06 اور YP2-48-Sindh09 ساتویں یوتھ پارلیامینٹ2015 کے ممبر منتخب ہوگئے مجھے نہیں معلوم کہ منتخب ہونے والے امیدوار یوتھ پارلیامینٹ کی سابقہ ڈپٹی اسپیکر کے رشتیدار ہیں یا نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس معاشرے میں قومپرستی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ منتخب ہونے والے دونوں امیدوار اہل ہوں گے مگر سلیکشن کمیٹی میں کوئی قوم والا ہواور سندھ سے ایک ہی قوم کے دو امیدوار منتخب ہوجائیں تو پھر سوال ضرور اٹھتے ہیں۔ میرا حق ہے کہ میں یوتھ پارلیامینٹ سے سوال کروں کہ ساتویں یوتھ پارلیامینٹ 2015 کے لیے مجھے کیوں رجیکٹ کیا گیا؟؟ مجھے وہ اسباب بتائے جائیں؟؟ ایک پاکستانی شہری کی حیثیت سے مجھے یہ پوچھنے کا بھی حق ہے کہ مجھے آٹھویں یوتھ پارلیامینٹ 2016 کے لیے شارٹ لسٹ کیوں نہیں کیا گیا؟؟ کیا یہ یوتھ پارلیامینٹ کے قول و فعل میں تضاد نہیں کے گذشتہ سال مجھے ای میل میں کہا گیا تھا کہ 2016 میں میری انتہائی حوصلا افزائی کی جائے گی اور جب میں نے آٹھویں یوتھ پارلیامینٹ کے لیے درخواست دی تو مجھے شارٹ لسٹ تک نہیں کیا گیا، یوتھ پارلیامینٹ نے میری حوصلا افزائی کی یا حوصلہ شکنی؟؟؟؟؟ مجھے ایک موقع تو دیا جاتا اس میں یوتھ پارلیامینٹ پہ کیا فرق پڑتا؟؟

میں نے نوٹ کیا ہے کہ یوتھ پارلیامینٹ آف پاکستان کے جو ممبر منتخب ہوتے ہیں ان میں سے اکثریت کا تعلق لاہور، کراچی، راولپنڈی، فیصل آباد اور ملتان جیسے بڑے بڑے شہروں سے ہوتا ہے جبکہ پاکستان کے دوسرے چھوٹے / پسماندہ علاقوں کے امیدواروں کو نظرانداز کیا جاتا ہے، کیا وہ پاکستان کے شہری نہیں جو کالج سائیڈ سے ڈگریاں لے رہے ہیں؟؟ کیا صرف وہ ہی نوجوان ممبر بننے کے حقدار ہیں جو پاکستان کے بہترین تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں؟؟ اگر مان لیا جائے کہ یوتھ پارلیامینٹ پاکستان کے چھوٹے علاقوں کے نوجوانوں کو نظرانداز نہیں کرتا تو پھر مجھے آٹھویں یوتھ پارلیامینٹ کے لیے شارٹ لسٹ کیوں کہ نہیں کیا گیا انٹرویو دینے تو میں اپنے خرچ پہ آتا ۔ گذشتہ سال یوتھ پارلیامینٹ نے اپنی ویب سائیڈ پر اردو زبان میں بھی درخواست فارم دیا تھا جو کہ بہت سارے نوجوانوں نے ڈاؤنلوڈ کرکے پُر کیا اور بذریعہ ڈاک یوتھ پارلیامینٹ کو ارسال کردیاجبکہ اس مرتبہ یوتھ پارلیامینٹ نے اپنی ویب سائیڈ پر صرف انگلش زبان میں درخواست فارم دیا اور وہ بھی آن لائین پر کرکے بھیجنے کو کہا گیا اور وہ آن لائین فارم 10 منٹ میں ایکسپائر ہو رہا تھااور یہ بات ویب سائیٹ پر بھی نہیں بتائی گئی تھی جس وجہ سے بہت سارے نوجوان درخواست نہیں دے سکے کیوں کہ پاکستان کے اکثر نوجوانوں کواتنی انگلش نہیں آتی کہ وہ درخواست فارم میں پوچھے گئے سوالات کے 10 منٹ کے اندر جوابات دے سکیں اور پاکستان کے پسماندہ علاقوں کے نوجوانوں کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت بھی نہیں جو وہ آن لائین فارم پُر کر سکیں جبکہ ویب سائیٹ کے ہوتے ہوئے یوتھ پارلیامینٹ نے ڈاؤنلوڈ کیے جانے والا انگلش درخواست فارم فیس بوک پیج پر رکھا اور ویب سائیٹ پر بھی یہ نہیں بتایا کہ کے جن نوجوانوں کو درخواست فارم ڈاؤنلوڈ کرنا ہے وہ فیس بوک سے کریں دیکھا جائے تو فیڈرل پبلک سروس کے کے ا آن لائین فارم بھی 10 منٹ میں ایکسپائر نہیں ہوتے، کیا یہ پاکستان کے ان نوجوانوں کے ساتھ زیادتی نہیں جو ملک کے سیاسی و جمہوری معاملات میں دلچسپی تو رکھتے ہیں مگر ان کو موقع فراہم نہیں کیا جاتا؟؟ کیا یوتھ پارلیامینٹ کا ممبر بننے کے لیے انگلش زبان اور انٹرنیٹ کی سہولت لازمی ہے ؟؟ ایک طرف یوتھ پارلیامینٹ کے فارم میں کہا جاتا ہے کہ اردو پڑھنا اور لکھنا آنا چاہیے دوسری طرف فارم انگلش میں ہوتا ہے کیا یوتھ پارلیامینٹ آف پاکستان کی اس پالیسی کو طبقاطی نظام کی عکاسی سمجھا جائے؟؟ یوتھ پارلیامینٹ کے درخواست فارم میں قومی و صوبائی اسیمبلی کی نشت کے حوالے سے بھی پوچھا جاتا ہے تو پھر یوتھ پارلیامینٹ کی نشستیں بھی اسی طرح تقسیم کیوں نہیں کی جاتی تاکہ پاکستان کے تمام علاقوں کے نوجوانوں کو نمائندگی مل سکے ، ضروری تو نہیں کہ سندھ کی تمام سیٹ دو ۔ تین شہروں کے درمیان گھومتی رہیں۔

گذشتہ سال جب میں ساتویں یوتھ پارلیامینٹ کا ممبر بننے کے لیے انٹرویو دینے گیا تو میں نے سلیکشن کمیٹی کے آگے جمہوریت کی حمایت میں اپنے مضامین پیش کیے جو کہ سندھ کی معروف اخبارات میں شایع ہوئے تھے مگر مجھے سلیکشن کمیٹی کی جانب سے یہ کہہ کر مضامین واپس دیے گئے کہ یہ تو سندھی زبان میں لکھے ہوئے ہیں ، کیا میں اپنے جذبات کا اظہار سندھی میں نہیں کر سکتا؟؟ کیا سندھ کے لوگوں کو سندھی زبان کے ذریعے جمہوریت کے فوائد نہیں بتائے جاسکتے ؟؟ کیا مضمون نویسی میں محنت نہیں لگتی پھر چاہے کسی بھی زبان میں کیوں نہ ہوں؟؟ تخلیق تو تخلیق ہوتی ہے اگر کوئی سمجھے تو۔کیا مجھے اس بات کی سزا دی گئی کہ میں نے جمہویت کی حمایت میں مضمون لکھے تھے اور میں نظریاتی طور پرپاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتا ہوں؟؟ اگر سندھی میں لکھنا ٹھیک نہیں تو پھر سندھ کے عظیم صوفی شاعرشاہ عبداللطیف بھٹائی کی تمام شاعری کو بھی اس بنیاد پر رد کردیا جائے کہ یہ سندھی زبان میں شاعری کی گئی ہے۔

میں تسلیم کرتا ہوں کہ یوتھ پارلیامینٹ میں میرٹ کی بنیاد پر ممبران منتخب ہوتے ہیں مگر ایسا بھی نہیں کہ سفارش نہیں چلتی یوتھ پارلیامینٹ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے جہاں پر سچ کو الزام سمجھتا جاتا ہے، جہاں پر جعلی ڈگریوں پر لوگ بڑے بڑے عہدوں پر مقرر ہو جاتے ہیں ایسی صورتحال میں یہ کہنا کہ یوتھ پارلیامینٹ کے پاس سوفیصد میرٹ ہے میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ گذشتہ سال جب میں نے ساتویں یوتھ پارلیامینٹ کے لیے انٹرویو دیا تو کراچی کے ایک صحافی دوست نے مجھے کہا کہ وہ میری سفارش کرے گا (اس کا مطلب سفارش چلتی ہے) مگر میں نے اپنے دوست کوروکا کہ سفارش نہیں کروانی کیوں کہ سفارش کروا کے کچھ حاصل کرنے سے ضمیر کو اطمینان نہیں ملتا مگرمیں سمجھتا ہوں کہ ہم جس نظام میں بس رہے ہیں وہاں پر حق حاصل کرنے کے لیے بھی سفارش کی ضرورت پڑتی ہے جیسے ہر جائز کام کے لیے رشوت دینی پڑتی ہے۔ جب میں نے یوتھ پارلیامینٹ کے حوالے سوشل میڈیا پر اپنے خدشات کا اظہار کیا تو یوتھ پارلیامینٹ کی ٹیم نے مجھ سے فیسبوک پر رابطہ کیا اور مجھے کہا گیا کہ میں اپنے خدشات لکھ کر ارسال کروں اور میں نے ایسا ہی کیا پر 3 ماہ گذرنے کے باجود یوتھ پارلیامینٹ نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا اس کا مطلب وہ میرے تمام خدشات درست ہیں۔مزید یہ کہ ساتویں یوتھ پارلیامینٹ میں مجھے رجیکٹ کرکے میرے ساتھ ناانصافی کی گئی اور آٹھویں یوتھ پارلیامینٹ کے لیے مجھے نظرانداز کرکے یوتھ پارلیامینٹ نے اپنے ہی قول کی خلاف ورزی کی۔ پاکستانی شہری اور ایک رائیٹر کی حیثیت سے میں اپنے تمام خدشات عوام کی عدالت میں پیش کر رہا ہوں تاکہ یوتھ پارلیامینٹ مستقبل میں سفارشی کلچر کو فروغ دینے سے پرہیز کرے۔
Bukhari Kazim Ameer
About the Author: Bukhari Kazim Ameer Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.