فتنہ سامانی میں اس کاکون ہے ثانی
دہشتگردی کواگردہشتگردکے مذہبی حوالے سے مختص کیاجائے توتواریخ کے پشتوارے
کھول کردیکھناہوگا کہ ہندوؤں،بدھوؤں، یہودیوں، عیسائیوں اورمسلمانوں میں سے
کرۂ ارض پر دہشتگردی کابانی کس مذہب کے پیروکارزیادہ ہوئے اورکس مذہب کے
ماننے والوں نے سب سے زیادہ انسانوں کاخون بہایا ہے؟تاریخ کی ورق گردانی اس
زاویۂ نگاہ سے کی جائے تواس کے تمام صفحات کی ناقابل تردیدگواہی ایسی ایک
سفاک قوم کی شناخت کرتی ہے اورچیخ چیخ کربتاتی ہے کہ دنیا کواس نوع کی
بدامنی کی طرف دھکیلنے والے عیسائی مت پرعامل اوردنیاکو ڈیمو کریسی اور
ہیومن رائٹس کااپدیش دینے والاسب سے بڑامکارملک امریکاہےلیکن کیااس نے اپنے
خلاف ان گواہیوں اور شہادتوں سے کوئی سبق حاصل کیا ہے ،یقیناًاس اہم سوال
کاجواب نفی میں ہے۔دورنہ جائیں افغانستان پرجوانسانیت سوزمظالم ڈھائے گئے
ہیں،اس کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن مغربی اورامریکی میڈیاکی
مجرمانہ خاموشی اورتعصبانہ رویے پرکئی سوال کھڑے ہوگئے ہیں!
ایک مقامی اخبارمیں برطانوی صحافی جیمی ڈوران کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ۔جیمی
ڈوران کی یہ رپورٹ بیس منٹ دورانئے کی فلم سے ماخوذہے جو مزارشریف
اورشہرغان کی اجتماعی قبروں کے بارے میں تھی۔رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ
مزارشریف اور شہرغان کے قریب دریافت ہونے والی دواجتماعی قبروں میں تین
ہزارکے قریب طالبان اورالقاعدہ کے جانباز ابدی نیندسورہے ہیں۔ دونوں قبروں
میں انسانی باقیات باہرہی سے نظرآرہی تھیں۔ان لاشوں پر گوشت خور پرندوں
اورجانوروں کے نوچنے کے واضح نشانات موجود تھے۔ ان میں ایک اجتماعی
قبرشبرغان قصبے سے آدھ گھنٹے کی مسافت پرہے جو چار ایکڑ پرمحیط ہے۔یہ قبر
مربع شکل کی ہے اوراس میں تین ہزار سے زائدلاشیں دفن ہیں۔یہ علاقہ افغان
نژادصلیبی کمانڈرعبدالرشیددوستم کے کنٹرول میں تھاجواپنی سفاکی میں اب
ہلاکواورچنگیزخان سے بھی کہیں زیادہ عالمی شہرت رکھتاہے۔
فزیشن ہیومن رائٹس کے مطابق یہ لاشیں دسمبر۲۰۰۱ء یاجنوری۲۰۰۲ء میں یہاں
لاکردفن کی گئیں۔یہ بہیمانہ قتل عام اس وقت ہواجب فضامیں امریکی بمبار
طیارے۲۳قسم کے ممنوعہ ہتھیارجس میں چھوٹے جوہری بم،کلسٹرونیپام بم اور
میزائل ''ایم کیونائن‘‘ریپرڈکے ساتھ ڈرٹی بموں کی بارش کررہی تھی اور زمین
پرامریکی فوج ظلم وستم میں مشغول تھی۔ سنڈے مررکی رپورٹ کے مطابق
امریکی،یورپی اوران کے افغان اتحادی فوجیوں کی قیدی طالبان قیدیوں کے ساتھ
سفاکیت اوردرندگی جہاں ایسی دل دہلا دینے والی تھی کہ ہلاکواورچنگیزخان کی
کاروائیوں کوبہت پیچھے چھوڑگئی تھی وہاں میڈیاکے نمائندوں کوخودپرقابونہ
رہااورکیمرہ کے پیچھے اورخبردینے والوں کی حالت بھی غیرہوگئی اور ان دل
دہلا دینے والے خوفناک مناظرنے ان کوایساحواس باختہ کیاکہ وہ کئی دن سونہیں
سوسکے۔
قندوزمیں جان بخشی اوراچھے سلوک کے وعدے پرآٹھ ہزارطالبان نے امریکی فوجیوں
کے سامنے ہتھیارڈالے تھے۔ ان میں پاکستانی،عرب اوردیگردرجن بھر ممالک کے
مجاہدین شامل تھے۔جیمی ڈوران اوران کی فلم میں عینی شاہدین کے حوالے سے
بتایا گیاکہ ان طالبان اورالقاعدہ مجاہدین کے سروں پراس وقت گولیاں ماری
گئیں جن ان کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے تھے تاکہ ان کی موت کویقینی
بنایاجاسکے،بعض مجاہدین کے نرخرے میں ایک تیزدھارنالی داخل کرکے پٹرول
انڈیل دیاجاتااوربعدمیں اس کوآگ دکھادی جاتی جس سے ہوامیں ان کے جسم بم کی
مانند پھٹ کرچیتھڑوں میں اڑجاتے اوریہ مکار،ظالم اورسفاک دوربیٹھے ان
مناظرسے لطف اندوز شراب کی بوتلیں ہاتھوں میں تھامے رقص کرتے تھے ۔ ریت کے
اس میدان میں جب فلم بنائی گئی توطالبان اور القاعدہ مجاہدین کی
کھوپڑیاں،ہڈیاں،ان کے کپڑے،نمازکی ٹوپیاں،تسبیح،جوتے اورجانوروں کے نوچے
ہوئے انسانی ڈھانچے ہرطرف بکھرے پڑے ہوئے تھے۔ عینی شاہدین میں شامل ایک
ایساکرین ڈرائیوربھی شامل تھاجوہچکیاں لیتے ہوئے بتارہاتھاکہ کس طرح اسے گن
پوائنٹ پر۴۰ فٹ لمبا کنٹینرجس میں تقریباًتین سوسے زائدنوجوان مجاہدٹھونس
کربندکر دیئے گئے تھے،اس کے نیچے ٹائروں کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی آگ کے
اوپرکنٹینرکومعلق کرنے کاحکم دیا گیا، ذراسوچیں کہ اس کے اندرقیدشہداء
کاکیاحال ہوگا!!!! آخریہ انسانیت سوزسزاؤں کاموجدکون ہے اور ایسے
افرادکوتاریخ کس نام سے یاد رکھے گی؟رپورٹ کے مطابق جنگ عظیم دوم کے دوران
نازیوں کے ظلم وستم،تشدداورروسیوں کے ہاتھوں قیدیوں کی ہلاکت کی تمام
دلخراش داستانیں اس امریکی درندگی کے سامنے ماند ہیں مگر افسوس کہ انسانی
حقوق کا علمبردار امریکی میڈیااس ظلم پر ابھی تک خاموش ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق قلعہ جھنگی یا(زنگی) میں چھ سومجاہدین کی شہادت کے
بعدامریکی فوج نے قلعے کاکنٹرول حاصل وہاں تین ہزارسے زائدنوجوان مجاہدین
کی گردنیں مروڑکرشہید کیاگیا اوراپنی نفرت کے اظہارکیلئے ان کے چہرے مسخ
کردیئے گئے۔اس رپورٹ کے مطابق ساڑھے سات ہزارسے زائد قیدی مجاہدین میں سے
تین ہزارکوعلیحدہ کرکے انہیں شبرغان جیل کی طرف روانہ کیاگیا۔ شبرغان
قندوزسے تین دن کی مسافت پرہے ،ہوابندہرکنٹینرمیں دو تاتین سو قیدیوں
کوٹھونساگیا۔ایک عینی شاہدڈرائیورکے مطابق ڈیڑھ سو سے لیکر۱۶۰ قیدی فی
کنٹینرتو راستے میں سفرکی صعوبتوں اوردم گھٹنے سے شہید ہوگئے تھے۔ہواکی عدم
دستیابی پرجب قیدیوں نے شورمچایاتوسفاک امریکی کمانڈرنے حکم دیا کہ قیدیوں
سے بھرے کنٹینروں پرگولیاں برساکر ہوا کیلئے سوراخ کئے جائیں ۔ایک ٹیکسی
ڈرائیورجس نے ان کنٹینروں کی طویل قطاردیکھی تھی ،اس نے بتایاکہ ''کنٹینروں
سے خون رس رہاتھا اور اس منظرکو دیکھ کرمیرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور اب بھی
جب یہ منظرمیری آنکھوں کے سامنے گھومتاہے تونیندکے ساتھ بھوک بھی ختم
ہوجاتی ہے۔
شبرغان جیل کے ایک قیدی نے بتایا''میرے سامنے ایک امریکی فوجی نے ہتھکڑی
اورپاؤں میں بیڑیاں پہنے ایک مجاہدکی گردن بڑے ہی ظالمانہ اندازمیں
مروڑکرتوڑڈالی اوراس کی تڑپتی لاش پروہ دیوانہ وارقہقہے لگاتاہواچھریاں
چلاتارہا۔''اس نے مزیدبتایاکہ ''امریکی فوجی طالبان قیدیوں کے سرمنڈواتے
اور پھران کے سروں پرتیزاب یاکوئی ملتی جلتی چیز ڈالتے جس سے وہ قیدی بری
طرح تڑپنے لگتے،اس پرامریکی فوجی قہقہے لگاکرمحفوظ ہوتے۔ایک دوسرے قیدی نے
بتایاکہ امریکی فوجی طالبان قیدیوں کی انگلیاں اورزبانیں کاٹ کران کے سروں
پرتیزاب انڈیلتے ہوئے ننگی مغلظات بکتے ہوئے یہ کہتے کہ ان انگلیوں سے تم
ہم پرفائرکرتے تھے اوراس زبان سے اللہ کے نام کے نعرے لگاتے تھے، اب اپنے
اللہ کو آوازدوکہ تمہیں زمین پرآ کربچائے ،وہ اپنے ساتھ کھڑے مترجم سے کہتے
کہ ہمارایہ نفرت بھراپیغام دیتے ہوئے تمہارے چہرے پربھی ویساہی غصہ
جھلکناچاہئے جیساتم ہمارے چہروں پردیکھ رہے ہو!ایک اورقیدی نے اپنی آنکھوں
دیکھااحوال بتاتے ہوئے کہاکہ امریکی فوجی اپنے دل کوخوش کرنے کیلئے اچانک
قیدیوں کوکمرے سے نکالتے ،ان کی داڑھیاں منڈواتے،پھران پر عجیب ظالمانہ
انداز سے اس قدرتشددکرتے کہ قیدی بے ہوش ہوجاتا۔ جب امریکی مارمار کرتھک
جاتے توقیدیوں کوگھسیٹ کرکمروں میں دوبارہ پھینک دیتے لیکن یہ بہت کم مرتبہ
ہواکہ وگرنہ جانے والا قیدی کبھی واپس نہیں آتاتھا۔
ایک افغان سپاہی نے بتایاکہ ایک امریکی کمانڈرنے کھڑے کنٹینروں کے
ڈرائیوروں کوحکم دیاکہ کیمرے کی نظرمیں آنے سے قبل ان کنٹینروں کو''دشت
لیلیٰ''لے جاؤ اوران میں موجودزندہ ومردہ تمام طالبان کودفن کردو۔دو سے
زائد ڈرائیوروں نے تصدیق کرتے ہوئے بتایاکہ تین ہزارسے زائدقیدیوں کووہ
صحرا میں لے گئے جہاں ۳۰/۴۰امریکی فوجیوں کی نگرانی میں زندہ قیدیوں
کوگولیوں سے بھون دیاگیاجس کے بعدچارایکڑپرمحیط اجتماعی قبرمیں سب کوپھینک
کر بلڈوزروں کی مددسے مٹی ڈال دی گئی۔''سنڈے مرر''کے مطابق ایک کنٹینر
ڈرائیورنے اسے بتایاکہ قیدیوں کی ایک بڑی تعدادبھوک،پیاس اوردم گھٹنے سے
ہوئی لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی لاش سے بدبوتک نہیں آئی بلکہ جب ایک
اٹھارہ سالہ نوجوان پراس کی نظرپڑی تواسے غش آگیاکہ وہ حافظِ قرآن تو اس
کااپناہی قریبی عزیزتھا۔
یہ توامریکی فورسزکے مظالم کی وہ تصویرہے جومغربی میڈیاکے نامور صحافیوں نے
دنیاکودکھاکرامریکی فورسزکے بھیانک چہرے کوبے نقاب کیاہے لیکن کینیڈاکے
مشہورماہرمعاشیات،مصنف اوریونیورسٹی آف اوٹاواکے پروفیسر مائیکل چوسو ڈوسکی
نے اپنی کتاب ''تیسری عالمی جنگ کے پس منظرکی جانب:ایٹمی جنگ کے خطرات میں
انکشاف کیاکہ امریکاافغانستان میں دیگرکئی ممنوعہ روایتی ہتھیاروں کے ساتھ
چھوٹے چھوٹے ہتھیاروں کابھی استعمال کر رہاہے جبکہ اس سے پہلے وہ عراق میں
بھی ان ممنوعہ ہتھیاروں کااستعمال کر چکاہے۔اس کتاب کے مطابق امریکی کانگرس
نے۲۰۰۳ء میں ''غیر روایتی جنگوں میں''ان چھوٹے جوہری ہتھیاروں کے استعمال
کی اجازت دی تھی اور کانگرس کے ممبران کے مطابق ان کااستعمال''عام شہریوں
کیلئےبالکل بے ضرر تھا‘‘۔
پروفیسرمائیکل کے مطابق امریکاان جوہری بموں اورمیزائلوں کواپنے اہداف پر
گرانے کیلئے’’ایم کیو۔نائن‘‘ریپرنامی ڈرونزکااستعمال کرتارہاہے۔ان ڈرونز
میں پچاس کلوگرام وزن والے۱۴ہیل فائرمیزائل لادکراڑنے کی صلاحیت موجودہے
لہندااسے مختصر جوہری ہتھیاروں کومقررکردہ اہداف پرگرانے کیلئے باآسانی
استعمال کیاجاسکتاہے۔ امریکی مسلح افواج کے پاس اس وقت ہلاکت خیزی کی مختلف
طاقتوں والے۳۴۰۰جوہری ہتھیارموجودہیں جن میں۲۰۰۰کو مختلف جنگی محاذوں
پرتعینات کیاگیاہے۔ان مختصر جوہری ہتھیاروں کوعموماًامریکی فوج کے خطرناک
حدتک قریب دشمن کے خلاف استعمال کیاجاتاہے تاہم افغانستان میں اسے پہلی بار
تورابوراکے علاقے میں اسامہ بن لادن کی پناہ گاہ سمجھے جانے والے غاروں کے
پیچیدہ جال پراستعمال کیاگیاتھا۔اس کی تصدیق زلزلہ پیمائی کی تنظیموں کی
طرف سے بھی کی گئی تھی،جن کے مطابق تورابوراپرکئی دنوں تک جاری رہنے والی
امریکی جنگی طیاروں کی بمباری کے دوران کئی مرتبہ تورابورااورگردونواح کے
علاقوں میں نصف سے تین ری ایکٹراسکیل کے زلزلے کے جھٹکے ریکارڈ کیے گئے تھے
جو بھاری ترین روایتی بموں کے پھٹنے کانتیجہ تھے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ''رائٹ ٹوہیل''کی ویب سائٹ کے مطابق امریکاکی فوج نے
افغانستان میں اپنی۱۶سالہ موجودگی کے دوران غیرانسانی اوراقوام متحدہ کے
ضوابط کے تحت ممنوعہ ہتھیاروں کابے دریغ استعمال کیاجن کے بے پناہ مضر
اثرات ان علاقوں کے لوگوں کونسل درنسل اپنانشانہ بناتے رہیں گے جہاں یہ
جنگیں لڑی گئیں تھیں۔امریکاکی طرف سے سفیدفاسفورس ،نیپام بم، کلسٹربم (ڈیزی
کٹربم)اورخام یورینیم سے تیارکردہ ڈرٹی بم کے استعمال کے نتیجے میں
افغانستان میں بے شمارعام شہری ہلاک اورزخمی ہوچکے ہیں، جبکہ ان میں بڑی
تعدادبچوں کی ہے جونہ صرف حملے کے دوران بلکہ کلسٹربم کی صورت میں متعلقہ
علاقے میں جنگ ختم ہونے کے بعدبھی مسلسل موت یامعذوری کاشکارہو رہے
ہیں۔مزیدبرآں خام یورینیم اورکینسر پھیلانے والے خطرناک موادکے حامل فوجی
سازوسامان کوبے دریغ جلائے جانے کے نتیجے میں انسانی زندگیوں پر زہریلے
اثرات مرتب ہورہے ہیں جبکہ خام یورینیم والے ہتھیارجن علاقوں میں استعمال
کئے جاتے رہے ہیں،یورینیم کے زہریلے اثرات کی وجہ سے برسوں بعدبھی وہاں
نامکمل اورخطرناک جسمانی نقائص والے بچوں کی پیدائش کاسلسلہ جاری ہے۔
اقوام متحدہ کے جنیواپروٹوکول کے تحت مجموعی طورپر۲۳قسم کے روایتی ہتھیاروں
کے جنگوں میں استعمال پرپابندی عائدہے اورتاریخی حقائق کے مطابق امریکاوہ
واحدملک ہے جو مختلف مواقع پران تمام ممنوعہ روایتی ہتھیاروں کو اپنے
دشمنوں کے خلاف استعمال کرچکاہے جبکہ ایٹم بم جیسے غیر روایتی ہتھیار کوبھی
استعمال کرنے والایہ دنیاکاواحدملک ہے ۔۲۳ممنوعہ ہتھیاروں کی فہرست آگ
پھیلانے والے نیپام بم،غبارہ بم،کھوکھلے سرے والی گولیاں،خام جوہری مادے سے
تیارشدہ ڈرٹی بم،سالٹڈبم، زہریلی گولیاں،نابیناکردینے والی لیزرشعاعیں
اورمائیکرولیزرشعاعیں،جلادینے والی شعاعیں، خود بخودتباہ ہونے والی سرنگیں
پلاسٹک بارودی سرنگیں،بغیرپھٹے بم،آگ پھینکنے اورپھیلانے والے ہتھیار،
مسٹرڈ گیس، اعصاب شکن گیس، فوسجین گیس، آنسو گیس، مرچ اسپرے،نیزوں سے بھرے
پوشیدہ گڑھے،حیاتیاتی ہتھیار، چمگادڑبم، ٹڈی دل،پسواورچوہےاورچیچک پھیلانے
والے کمبل شامل ہیں۔
اقوام عالم کے سنجیدہ لوگوں کے ضمیرکوجھنجھوڑنے کیلئے رپورٹ کے آخر میں
امریکااورمغرب کے دہرے منافقانہ معیار پرطنزاً یہ سوال پوچھاگیاہے کہ
''۲۰۰۳ء میں عراق پرامریکی حملے کابش انتظامیہ نے یہ جوازپیش کیاتھاکہ صدام
حسین نے اپنے عوام کے خلاف کیمیائی ہتھیاراستعمال کئے ہیں اوراس کے پاس بڑے
پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں۔اس کے ثبوت کے طور پر۱۹۹۱ء
میں کردباغیوں کے خلاف سفیدفاسفورس استعمال کی رپورٹ پیش کی جاتی تھیں، اس
کے باوجودجب امریکی فوجوں نے پہلے عراق اورپھرافغانستان پرقبضہ کیاتوان کی
طرف سے فوجی مہمات میں جو سفید فاسفورس استعمال کیا گیاوہ عراق میں استعمال
ہونے والے فاسفورس سے پانچ گنازیادہ مہلک تھا، جسے اہداف کوزیادہ نمایاں
کرنے والی روشنی اوردھویں کی حفاظتی چادر پھیلانے کیلئے استعمال
کیاگیا،پھرامریکااوراس کے حلیف ممالک اب اسے کیسے جائزقراردے سکتے ہیں؟
یادرہے کہ برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلئیر عراق پرحملے کے معاملے
پرعالمی میڈیاکے سامنے اپنی غلطی کااعتراف کرتے ہوئے معافی بھی مانگ چکے
ہیں لیکن کیااتنے بڑے انسانی المیے پراس کی تلافی ممکن ہے؟
اس چشم کشارپورٹ میں تمام معلومات کے آخرمیں یہ نوٹ بھی تحریرہے کہ بہت سے
حقائق کوضابطہ تحریراورنشرکرنے سے محض اس لئے گریزکیا گیا ہے کہ قارئین
اورناظرین بھی اس خوف سے دوچارنہ ہوں جس کرب سے ہم گزرے ہیں لیکن اس حقائق
سے پردہ اٹھانااس لئے بھی ضروری ہے کہ پتہ چل سکے کہ اس دورمیں انسانیت
کاسب سے بڑادشمن کون ہے!
|