مقصدِ حیات اور سیاست کی اونچی اُڑان
(Muhammad Jawad Khan, Havelian)
انسان نے کبھی اپنی حیات کے اوپر غور کی ہے
کہ اُس کو کیوں پیدا کیاگیا ہے۔۔۔۔؟ اس کی پیدائش کے اعراض و مقاصد کیا ہیں۔۔۔۔؟جی
نہیں۔۔۔شاید ایسے لوگ بہت کم رہ گئے ہیں جن کو حیات کا مقصد معلوم ہو۔۔۔کہ
ہم کو کیونکر پیدا کیا گیا ہے، اور ہمارے اوپر کون کونسی ذمہ داریاں ہیں
اور ان ذمہ داریوں کا ہم نے حساب کس طرح سے دینا ہے، کوئی بھی نہیں جانتا
ہے یہ جو زندگی ہم بڑی شان و شوکت اور بڑے ناز و نخروں سے گزار رہے ہیں اس
کا خاتمہ کب ۔۔۔کہاں۔۔۔اور ۔۔۔کیسے ہو جائے گا۔ مگر ہم تو صرف لگے ہیں
دوسروں کو نیچا دیکھانے میں، دوسروں کی برائیاں کرنے میں، دوسروں کے کام
میں روڑے اٹکانے میں، دوسروں کی خوشیوں سے جلنے میں، دوسروں کے ساتھ نا
انصافیوں کا بازار گرم کرنے میں ، دوسروں کو دن رات تنگ کرنے میں، پڑوس میں
کوئی بھوکا مر رہا ہے تو ہمیں کوئی پروا نہیں اور میڈیا پر یا ریا کاری
کرنے کے لیے ہم لاکھوں روپے کی سکیموں کا اعلان کر دیتے ہیں، اپنے گھر میں
رکھے ہو ئے ملازم کی حالت تو یہ ہوتی ہے کہ اس کو ٹائم پر تنخواہ نہیں دی
جاتی اور ہم ملازمین اور مزدور کے حقوق کے جلسوں میں بڑی بڑی تقریریں کر
رہے ہوتے ہیں۔ تھانوں میں جا کردیکھا جائے تو امیر کا نام و نشان نہ ہو گا
اور بے گنا ہ غریب کو مارمار کر اس کا حلیہ بگاڑا ہوتا ہے۔ ہم کس طرف کو
جار رہے ہیں۔انصاف کی لائن میں امیر مجرم کو میڈیا اس قدر اچھال کر بیان
کرنے لگتا ہے کہ وہ مجرم سے زیادہ ہیرو ظاہر ہو رہا ہوتا ہے اور اوپر سے جب
وہ ویکٹری کا نشان بنا رہا ہو تا ہے تو مظلو م کا کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔
سکول و کالجز میں چلے جاؤ تو غریب کے بیٹے کے لیے ٹاٹ و دری والا سکول میسر
آنا بھی بڑی خوش قسمتی کی بات ہے ۔ اکثر تو ہمارے ہاں غربت کی وجہ سے اکثر
بچے تو سکول کی دہلیز تک جا بھی نہیں پاتے ۔ اور بعض جو ٹاٹ و دری و الے
سکول سے آگے نکل جاتے ہیں تو آگے امیر زادوں نے مقابلے کا میدان بنایا ہوتا
ہے اور جہاں وہ مقابلے کے میدان میں کامیاب نہ ہو سکیں تو وہاں ان کی دولت
غریب کے حق پہ ڈاکا ڈالنے آ جاتی ہے۔ادھر ایک بات اور کہ دوران ملازمت آپ
کا وہی باس آپ کے ساتھ رویہ اچھا رکھتا ہے جو کہ خود کسی دور میں مزدور کے
پیشہ سے اوپر گیا ہو ، وہ باس آپ کی قدر و منزلت کبھی نہ کرے گا جو سونے کا
چمچ لے کر پیدا ہوا اور دولت کی کشتی پر بیٹھے بیٹھے ڈگر ی لی اور آپ کے سر
پر کسی سیاسی کی سفارش سے مسلط ہو گیا ہو گا، اس لیے ہمارے معاشرے کی سب سے
بڑی، کمزور ، نازک اور دن بدن بدلتی اور بگڑتی صورت ِ حال سے یہ بات واضع
ہو رہی ہے کہ ہمارے مسلط شدہ حکمران ہمارے مسائل کو کبھی بھی نہ تو سمجھ
پائے ہیں اور نہ ہی سمجھ پائیں گئے کیونکہ وہ تو صرف اس رقم کو پورا کرنے
کے لیے آتے ہیں جو انہوں نے خرچ کر کے الیکشن جیتا ہوتا ہے۔سٹیج پر آتے ہیں
تو اس طرح بات کرتے ہیں کہ جیسے اس دنیا میں ان سے بڑا غریب پرور اور غریب
کا داد رس کوئی اور موجود ہی نہیں، مگر کبھی کبھار غریب ان کی دہلیز پر چلا
جائے تو اول وہ گھر میں موجود ہی نہیں ہوتے ، اگر خوش قسمتی سے کسی کو مل
بھی جائیں تو ان کی آنکھ ہی نہیں کھلتی ، پھر خدا خدا کر کے اگر ان کی آنکھ
کھل جائے تو وہ اسی غریب کو جو ان کے جلسے میں سے ان کی تقریر سن کر آیا
ہوتا ہے اس سے اول سوال کرتے ہیں کہ تم کون ہو۔۔۔؟ تمہارا خاندان کو نسا ہے۔۔۔؟
تمہار ا فیملی بیگ راؤنڈ کیا ہے۔۔۔۔؟ اور الیکشن میں تم، تمہارے خاندان اور
تمہارے دوست احباب نے کس کو سپورٹ اور حمایت کی تھی۔۔۔؟ بس جس نے ووٹ نہیں
دی ہوتی تو وہ اپنا جواب سن کے خو د ہی وآپسی کی راہ دیکھنے لگتا ہے۔
آئیے میں آپ کو ملا جی کی ایک کہانی سناتا ہوں جو کہ بالکل ہمارے آج کے
معاشرے کی عکاسی کرتی ہے۔
ملا جی بذات خود ایک سیدھے سادھے اور عام سے آدمی تھے، ایک دفعہ بس میں
سوار ہو کر کہیں جا رہے تھے ، کنڈیکٹر کو کرایہ دینے کے لیے سائیڈ والی جیب
میں ہاتھ ڈالنے لگے تو ساتھ بیٹھے ہوئے ایک اجنبی شخص نے ان کا ہاتھ پکڑ تے
ہوئے کہا ۔۔۔! کہ نہیں ملا جی آپ کا کرایہ میں خود دوں گا۔ ملا جی نے بہت
مزاحمت کی مگر وہ شخص نہ مانا اور ملا جی کا کرایہ دے کر اگلے سٹاپ پر اتر
کر اپنی راہ لے لی اچانک ملا جی نے جیب میں سے رومال نکالنے کے لیے ہاتھ
ڈالا تو جیب میں سے سب کچھ غائب تھا۔ مطلب وہ اجنبی سب کچھ لے اڑا تھا۔
دوسرے دن ملا جی بازار کسی کام سے گئے تو اُسی اجنبی شخص کو دیکھا اور اسکو
پکڑ لیا وہ شخص ندامت کے آنسو لے کر ملا جی سے بولا کہ مجھ کو معاف کر دیں
، آپ کی چوری کرنے کے بعد جب میں گھر گیا تو میری بیٹی مر گئی تھی۔ ملا جی
کو گلے ملا معافی وغیر ہ مانگی اور چلا گیا۔ ملا جی نے سودا لیا اور
دکاندار کو پیسے دینے لگے تو جیب پھر خالی پائی، مطلب کے دوسری دفعہ بھی
ہاتھ ہو گیا۔
اچانک ایک دن ملاجی اپنے موٹر سائیکل پر سوار ہو کر کہیں جارہے تھے کہ
اچانک اس شخص کو دیکھا تو دبوچ لیا ، چور چونکہ چالاک بھی تھا اور ہو شیار
بھی اس نے روتے ہوئے پھر معافی مانگی اور تمام پیسے وآپس لوٹا دیئے اور
ساتھ میں ہی ملا جی کو ہوٹل لے جا کر چائے بھی پلائی اس پر ملا جی کا دل
بھی نرم ہو گیا اور ملا جی خوش بھی ہو گئے کہ سارے پیسے وآپس مل گئے ہیں اس
خوشی کے عالم میں جب ملا جی ہوٹل سے باہر آکر اپنے موٹر سائیکل کی طرف قدم
پڑھاتے ہیں تو ان کو معلو م ہوتا ہے کہ چور تو اس بار انکا موٹر سائیکل ہی
لے کر بھاگ جاتا ہے۔
بالکل یہ ہی حال ہم پاکستانی عوام او رحکمرانوں کا ہے ہر مرتبہ اقتدار میں
آنے کے لیے عوام کو مختلف طریقوں سے الو بناتے ہیں ، نئے خواب اور نئی منزل
کی آ س دیکھاتے ہیں اور جیسے ہی الیکشن میں کامیاب ہوتے ہیں تو اس طرح غائب
ہو جاتے ہیں کہ جیسے وہ کسی کو جانتے ہی نہیں اور ہم بھی آپس میں دو بھائی
اس بات پر لڑ پڑتے ہیں کہ ہمارے سیاسی لیڈر کی برائی کوئی نہ کرے۔ اور
ہمارے سیاسی لیڈر اپنی عیاشیوں اور اپنی مکارانہ مصروفیا ت میں اس قدر مگن
ہوتے ہیں کہ ان کو کارکنان کی خبر تک نہیں ہوتی ۔ ادھر ایک بات اور کہ ہم
لوگ پڑھے لکھے اور ایک سوجھ بوجھ اور عقل مند انسان کو ووٹ دینا گوار اہی
نہیں کرتے اور امید لگا بیٹھتے ہیں کہ ہمارے حالات بہتر ہونگے ،ہماری معشیت
مضبوط ہو گی، ہمارے بچے اچھے سکولز میں تعلیم حاصل کریں گئے۔ ہماری آنے
والی نسلوں کو ہر وہ سہولت ملے گئی جس کے ہم خواب دیکھا کرتے تھے۔
مگر یہ سب ایک ایسا خواب ہے جو کہ ہم خود کبھی پورا ہونے نہیں دیتے۔ ہم خود
نہیں چاہتے کہ کوئی اچھائی ہو کچھ تبدیلی کی لہر آئے، امیر و غریب میں
بڑھتے ہوئے اضافے میں کچھ تو کمی آئے۔ ہم سب کو ایک ہونا ہو گا ، اگرچہ وہ
کسی بھی رنگ و نسل ، شکل و صورت، قوم و برادری ،اور کسی بھی سیاسی و مذہبی
پارٹی کا ہی کیوں نہ ہو ، جب تک ہم ایک دوسرے کے مسائل کو خود نہیں سمجھیں
گئے تو کوئی بھی ہماری مدد کو نہیں آئے گا، کسی بھی سیاسی پارٹی کے لیے
اپنے بھائی سے نفرت نہ کریں۔ ایک جگہ مل بیٹھیں، ایک دوسرے کی قد ر کریں
ایک دوسرے کی بھلائی کا سوچیں اور ایک پڑھے لکھے اور درد دل رکھنے والے
انسان کو اپنا نمائندہ بنائیں ، جو ایسا نمائندہ ہو کہ ہم کو کسی بھی وقت
اور کسی بھی لمحہ ہم کو دستیاب ہو اور ہمارے لیے اس کا دل اس طرح دھڑکے جس
طرح ہمارے خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے طرز حکومت کا
طریقہ و سلیقہ ،عملی و قلمی دونو ں طریقوں سے کر کے دیکھایا ہے۔ |
|