پچھلی دو دہائیوں سے دنیا خبروں کی دنیا بن
کر رہ گئی ہے۔لیکن اس کے باوجود دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں خبر کا تلاش
کرنا کوئی آسان کام نہیں۔مگر ہمارا ملک شائد وہ واحد ملک ہے جہاں خبر تلاش
نہیں کرنا پڑتی بلکہ اتنی زیادہ خبریں ہونے کی وجہ سے بہت سی خبریں میڈیا
کی زینت بننے سے محروم ہو جاتی ہیں۔بہت سارے کالم نگار کالم کے عنوان تلاش
کرنے میں مصروف ہوتے ہیں مگر مجھ جیسے طالبعلم ایک سے زیادہ عنوان ہونے کی
وجہ سے پریشان ہو جاتے ہیں کہ آج کس پر لکھیں۔اور یہ کوئی خوش آئند بات
نہیں ۔
پچھلے کچھ دنوں سے سندھ کی سیاست خبروں کی زینت بنی ہوئی ہے۔خاص طور پر جب
سے رینجر اختیارات کی مدت ختم ہوئی ہے اس دن سے وفاق اور سندھ کے درمیان
سیاسی رسہ کشی جاری ہے۔اسی دوران ایک ایسا واقعہ جو لاڑکانہ میں پیش آیا جس
میں مبینہ طور پر سندھ کے وزیر داخلہ سہیل انور سیال کے بھائی طارق سیال کے
فرنٹ مین اسد کھرل کو کرپشن کے الزام میں رینجرز نے گرفتار کیا۔جس کے بعد
طارق سیال نے لوگوں اور پولیس کی مدد سے اسد کھرل کو رینجرز سے چھڑوا
لیا۔اور رینجرز اہلکاروں کو گرفتاربھی کیا گیا۔جس کے بعد سندھ حکومت اور
رینجرز کے درمیان معاملات تناؤ کا شکار ہو گئے۔اس ساری صورتحال کے بعد
رینجرز نے اندرون سندھ رینجرز کاروائیاں کرنے کے لئیے اختیارات مانگ
لیے۔کیونکہ رینجر سمجھتی ہے کہ جو لوگ کراچی میں جرم کرتے ہیں ان کے کافی
حد تک تانے بانے اندرون سندھ سے ملتے ہیں ۔اور بہت سارے مجرم بھاگ کر
اندرون سندھ چھپ جاتے ہیں۔اس لئیے رینجرز چاہتی ہے کہ وہ ان مجرموں کے
تعاقب میں سندھ میں بھی خصوصی اختیارات کے تحت کاروائیاں کرے گی۔رینجرز اور
سندھ کے وزیرداخلہ کے درمیان کافی معاملات خراب ہو گئے تھے۔جن کو سلجھانے
کے لیے اگلے ہی روز وزیر اعلیٰ نے ڈی جی رینجرز بلال اکبر اور وزیر داخلہ
سندھ کو طلب کیا اس ملاقات کے دوران پولیس کے ایک اعلیٰ عہدے دار بھی وہاں
پر موجود تھے۔وزیراعلیٰ سندھ سیّدقائم علی شاہ نے شائدپہلی بار بغیر پوچھے
رینجرز اور سول قیادت کے درمیان مفاہمت کی کوشش کی۔ان معاملات کو ٹھیک کرنے
کی ہی ایک کوشش کور کمانڈر کراچی نوید مختار سے ملاقات بھی تھی۔مگر ایسا
اچانک کیا ہو گیا کہ جناب آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کا
اجلاس دبئی طلب کر لیا۔اور پھر اجلاس کے اختتام پر وزیراعلیٰ سندھ جناب
قائم علی شاہ صاحب کو فارغ کرنے کی نویدبھی سنا دی گئی۔اگر ہم اس سارے
معاملے کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جمہوریت بچانے کے نام پر
مفاہمت کی دعویدار پیپلز پارٹی دراصل کرپشن بچاؤ مفاہمت کا شکار ہے۔اور یہ
ہر اس معاملے پر مفاہمت کرنے کے لیے تیار ہیں جس سے ان کی کرپشن بچ سکے۔اور
اگر مان بھی لیا جائے کہ قائم علی شاہ کی مجموعی کارکردگی کی بنیاد پر
ہٹایا گیا ہے۔تو اس کا بڑا سادہ سا جواب یہ ہے جناب پچھلے پانچ سال کونسی
دودھ کی نہریں بہا دی تھیں اس وزیراعلیٰ صاحب نے۔اور اگر ان کو ہٹانا مقصود
ہی تھا تو کم از کم قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کو تو پتہ ہوتا۔سچ بات تو
یہ ہے جس دن سے رینجرز اور وزیرداخلہ سندھ کے درمیان معاملات خراب ہوئے
ہیں۔شائد آصف زرداری کو خدشہ تھا کہ کہیں وزیر اعلیٰ صاحب رینجرز کو
اختیارات کے حوالے سے نرمی اختیار نہ کرلیں۔اور پھر وہ صاحب تو اینٹ سے
اینٹ بجانے کے چکر میں ملک چھوڑ کر بھاگے ہوئے ہیں۔ان کو اب مفاہمت کرنے
والا قائم علی شاہ نہیں چاہیے بلکہ اینٹ کا جواب پتھر دینے والا چاہیے ۔جو
آصف زرداری کی حکمت عملی کو لے کر آگے چلے۔اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر
عاصم والے معاملے میں بھی وزیراعلیٰ کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں دے
سکے۔اسطرح بہت سارے کرپٹ لوگوں کو ملک سے راہ فرار اختیارکرنا پڑی۔مجھے اس
بات سے گلہ نہیں کہ ان کو کیوں ہٹایا گیا ۔گلہ تو اس بات کا ہے کہ کس طرح
ہٹایا گیا اور کس وجہ سے ہٹایا گیا۔حالانکہ کون نہیں جانتا کہ سندھ حکومت
کے سب معاملات ایک محترمہ دیکھتی ہیں۔وہ بے چارہ تو ایک کٹھ پتلی وزیراعلیٰ
کی حیثیت سے اپنی خدمات زرداری اینڈ کمپنی کو پیش کر رہا تھا۔اور کچھ نہیں
تو وزیراعلیٰ صاحب کو باعزت طریقے سے رخصت ہی کر دیتے تاکہ ان کی جمہوری
عمل کے لیے دی گئی قربانیوں کو لوگ یادتو رکھ سکتے۔قائم علی شاہ صاحب کی
جمہوریت کے لیے خدمات کواگر دیکھا جائے تو قابل تحسین ہیں۔مگر ساتھ ہی اگر
ان کا پچھلا تقریباً آٹھ سالہ دور دیکھا جائے تو کوئی گراں قدر خدمات نظر
نہیں آتیں۔اور اگر یہ کہا جائے کہ ناکام ترین حکومت تو بھی کہنا غلط نہیں
ہو گا۔اسکی وجوہات جو بھی ہوں مگر قائم علی شاہ کا شمار بانیان جمہوریت میں
ہوتا ہے۔اس لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ ایک انقلابی سیاست کرنے والا
جیالا ،کٹھ پتلی وزیراعلیٰ کیسے بن گیا۔ قائم علی شاہ کی پیدائش
23دسمبر1933ءمیں خیر پور میرس کے ایک پڑھے لکھے اور بااثر گھرانے میں
ہوئی۔ابتدائی تعلیم خیر پور سے حاصل کی۔اس کے بعد کراچی یونیورسٹی سے فائن
آرٹس میں بی اے کیا۔بعد ازاں ایس ایم لاء کالج سے قانون کی ڈگری بھی حاصل
کی۔اسی دوران ان کی ملاقات قائد عوام جناب ذوالفقار علی بھٹوسے ہوئی جو ان
دنوں اسی کالج کے پروفیسر تھے۔قائم علی شاہ نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز
1960ء میں خیر پور کے ضلع کونسل کا چیئرمین منتخب ہو کر کیا۔ذوالفقار علی
بھٹو سے ان کی وابستگی اتنی زیادہ تھی کی کچھ ہی سال بعد 1967ء میں جب
پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔انہوں نے کالج کے استاد کو اپنا
سیاسی گرو بھی مان لیا۔اور پھر سیاست کے داؤ پیچ جناب ذوالفقار علی بھٹو سے
سیکھے۔سیّد قائم علی شاہ نے پہلی دفعہ پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے 1970ء
میں انتخاب لڑا اور اپنے مضبوط حریفوں کو شکست سے دوچار کیا۔بھٹو صاحب نے
اس نوجوان شاہ کی غیر معمولی کامیابی کو بہت سراہا اور انہیں اپنی چھوٹی سی
کابینہ کا وزیر صنعت اور کشمیر افئیرز بنا دیا۔1977ء میں جب ضیاء الحق نے
مارشل لاء نافذ کیا ۔اس وقت قائد عوام جناب ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ قائم
علی شاہ کو بھی گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔قائم علی شاہ کے ساتھ اور
بھی لوگ تھے جو جیل میں ڈالے گئے مگر کچھ نے اپنی پارٹیاں بنا لیں اور کچھ
ویسے پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر چلے گئے۔مگر قائم علی شاہ نے بھٹو صاحب کا
ساتھ نا چھوڑا اور ایک مخلص کارکن کی حیثیت سے ڈٹے رہے یہاں تک کہ مالی
مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔اور یہی نہیں قائم علی شاہ کے خاندان پر
مصیبتوں کے پہاڑ توڑے گئے مگر انہوں نے پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔اور سب سے
بڑی تکلیف دہ بات یہ تھی کہ جب ان کے روحانی گرو جناب ذوالفقار علی بھٹو کو
پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ضیاء الحق کی وفات کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی
وطن واپسی ہوئی اور انہوں نے پارٹی قیادت سنبھال لی۔محترمہ نے قائم علی شاہ
کو پی پی پی سندھ کا صدر بنا دیا۔جس کے بعد 1988ء کے عام انتخابات میں
قائم علی شاہ کی شاندار کامیابی کے بعد انہیں سندھ کا وزیراعلیٰ منتخب کیا
گیا۔اس کے علاوہ موصوف سینیٹر بھی رہ چکے ہیں۔اور پھر 2008ء سے لے کر
28جولائی2016ء تک وزیر اعلیٰ کا سفر کوئی معمولی سفر نہیں۔یہاں پر قابل
غور بات یہ ہے کہ جس شخص کی تربیت ذوالفقار علی بھٹو جیسے لیڈر نے کی ہو۔جس
شخص نے مارشل لاء کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا ہو۔جمہوریت کی بنیادوں میں جس کا
خون پسینہ شامل ہو۔اور دکھ کی بات یہ کہ وہ ناکام ترین وزیراعلیٰ ثابت ہو
یہ کیسے ممکن ہے۔جہاں تک میں بطور ایک طالبعلم سمجھتا ہوں جب انسان اپنے
اصولوں پر سمجھوتا کرنا شروع کر دیتا ہے اسکے زوال کا وقت شروع ہو جاتا ہے
۔اور یہی قائم علی شاہ صاحب کے ساتھ ہوا ہے۔2008ٗء کے انتخابات بعد پیپلز
پارٹی حقیقی معنوں میں ختم ہوچکی تھی کیونکہ محترمہ کی شہادت کے بعد اس
پارٹی پر لیبل تو پیپلز پارٹی کا تھا مگر اس پارٹی میں لوگ یعنی عوام دور
دور تک کہیں نہیں دکھائی دیتے تھے۔اس پارٹی کو ایک کمپنی کی طرز پر چلایا
جانے لگا۔اور پارٹی کے مخلص لوگ بھی سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوگئے۔یہی وجہ
ہے کہ آج ایک وفاق کی جماعت ایک صوبے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔اور اس کی
بنیادی وجہ یہی ہے جب آپ مزدوروں کی نمائندہ جماعت کو ایک فرد کی کمپنی بنا
دیں گے پھر ایسا تو ہو گا۔جب جمہوریت کے بانی ،کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ کا
کردار ادا کریں گے تو نتائج بھی ایسے ہی ہونگے۔آج کل بلاول بھٹو زرداری
صاحب اپنی جماعت کی ٹوٹی پھوٹی بساط کو پھر سے کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے
ہیں۔مگر یہ تب تک ممکن نہیں ہو گا جب تک کہ جماعت کی بھاگ ڈور پھپھوکے ہاتھ
میں ہو اور فیصلے دبئی سے ہوں۔اگر یہ چاہتے ہیں کہ جماعت اپنے پاؤں پر پھر
سے کھڑی ہو جائے تو انہیں اپنے وزیر اعلیٰ کو با ا ختیار بنانا ہو گا ۔عوام
کے فیصلے عوام کے نمائندوں کو کرنے دیں۔اور اپنے صوبے کو کرپشن سے پاک کرنے
کی ہر ممکن کوشش کریں۔اور ہر وہ کام کریں جو ملک و قوم کے مفاد میں
ہو۔کیونکہ اسی میں پیپلز پارٹی کی بقاء ہے۔اور اگر ایسا نا ہو سکا تو اس
بار شہیدوں کے مرثیے بھی کام نہیں آئیں گے۔ |