خطہ چناب کاخستہ حال سڑک ڈھانچہ! سیاست دانوں کی نااہلی اور ناکامی کا عکاس

©”بٹوت کشتواڑ شاہراہ پر پل ڈوڈہ تک کم سے کم راستہ میں25ایسے مقامات ہیں جہاں پر سے سڑک ٹوٹی ہوئی ہے ، جوکہ نیچے سے کھوکھلی ہوچکی ہے۔ بٹوت سے چند کلومیٹر آگے گذر کرکشتواڑ تک شاہراہ کے کنارے دریاچناب انتہائی خاموشی سے بہتا ہے لیکن یہ ’Silent Killer‘کا کام کر رہا ہے۔ اگر سڑک سے چناب کے دونوں کنارے واقع علاقہ جات کی طرف غور کر کے دیکھاجائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس چناب نے کتنی ویرانی پیدا کر رکھی ہے۔ دو ر دور تک گھر نظر ہی نہیں آتا۔ جگہ جگہ سے خاموشی کے ساتھ زمین کھسک رہی ہے ۔ دونوں اطراف دریائے چناب خاموشی کے ساتھ تباہی کی داستانیں تحریر کرتا اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ یہاں تک کہ ڈوڈہ سٹی بھی اس کے خطرہ سے باہر نہ ہے کیونکہ یہ بالکل اس کے آگے سے بہہ رہا ہے۔“
کسی بھی ملک، ریاست اور علاقہ کی ترقی کا دارومدار ایک مربوط اور منظم مواصلات اور ذرائع آمدورفت کے نظام پر منحصر ہے۔جہاں جتنا بہتر ذرائع آمدورفت ہوگا اتنا ہی بہتر وہاں معاشی ترقی ہوتی ہے۔ سٹر ک ڈھانچہ کی بہتری سے ترقی کی رفتار کو تیز جاسکتا ہے۔ لوگوں کی خوشحالی علاقے میں پختہ سڑکوں سے ہی وابستہ ہوتی ہے ”جہاں سڑک پکی اور وہاں ترقی “نعرہ تک ہرجگہ سننے کو ملتا ہے لیکن اس پر اتنا عمل نہیں ہوتا۔ دور حاضر میں آمدورفت کے ذرائع کو بہتربنائے بغیرترقی کی دوڑ میں شامل نہیں ہوا جاسکتا۔ خوشحالی اورترقی تک پہنچنے کا بنیادی جزو ہے کہ زمینی نیٹ ورک کو زیادہ سے زیادہ جدید اور بہترین بنایا جائے یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں شاہراہوں کو زیادہ آرام دہ، کشادہ اور رکاوٹوں سے پاک رکھنے پر زیادہ کام کیا گیا۔ ذرائع آمدورفت کا بہترین ڈھانچہ کسی بھی ملک کے لئے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح بڑے شہروں کو ملانے والی شاہرات کے علاوہ بین الاضلاعی روڈز ،بستی سے بستی ،اسی طرح مرکزی شاہراہ سے رابطہ سڑک اور کھیت سے منڈی تک پختہ سڑکوں کا جال اقتصادی انقلاب کی راہ ہموار کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ہندوستان میں بہت سارے علاقہ جات ایسے ہیں جہاں محض سڑک رابطہ ہی ذارئع آمدورفت کا اہم ذریعہ ہے ۔ اس میں جموں وکشمیر ریاست کا بھی شمار ہوتا ہے کیونکہ یہاں پر ابھی تک ریل اور فضائی رابطہ کا استعمال اس پیمانے پر نہیں ہورہا۔ خطہ جموں میں صرف کچھ ہی جگہوں تک ریل ہے جبکہ لداخ خطہ میں بالکل نہیں۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ جموں وکشمیر کاجغرافیائی خدوخال کچھ اس طرح کے ہیں کہ یہاں ذرائع آمدورفت کو تیزی کے ساتھ فروغ دینا آسان نہیں ، اس پر اربوںروپے کے ساتھ ساتھ ان فنڈز کا زمینی سطح پر بہتر استعمال بھی ہے جس کا جموں وکشمیر ریاست میں خاص فقدان ہے۔یہاں کے سیاستدان، بیروکریٹ اس معاملہ میں بہت زیادہ ہوشیار ہیں جوکہ کاغذی خانہ پوری میں بہت مہارت رکھتے ہیں۔ دور دراز علاقہ جات میں کسی پروجیکٹ کے لئے اگر 100روپے منظور ہوتے ہیں تو زمینی سطح پر بمشکل20-30روپے کا تصرف ہی ہوتا ہے ۔ ایک طرف جہاں دنیا چانداور دیگر سیاروں پر اپنے گھر بنانے کی سوچ رہی ہے۔ ریلوے اور فضائی ذرائع آمدورفت عام ہورہے ہیں، وہیں جموں وکشمیر ریاست میں آج بھی سینکڑوں ایسے علاقہ جات ہیںجہاں ابھی تک سڑک رابطہ ہی نہیں پہنچا، یا ہے تو وہ اس معیار کا نہیں جس کا دور حاضر متقاضی ہے۔ ڈوڈہ اور کشتواڑ اضلاع جس کو خطہ چناب کے نام سے بھی جاناجاتاہے میں سڑکوں کی خستہ حالت ہے۔ ان دو اضلاع کو سرمائی راجدھانی جموں اور گرمائی راجدھانی سرینگر سے جوڑنے والی 110بٹوت کشتواڑ واحد شاہراہ ہے۔ کہنے کو تو اس کو قومی شاہراہ کا درجہ دیاگیا ہے لیکن دیکھنے میں یہ ایک رابطہ سڑک سے کچھ زیاد ہ نہیں ہے۔ یہ اضلاع دشوار گذار اور پہاڑی علاقہ میں واقع ہیں جہاں پر ریل رابطہ توابھی خواب ہے جبکہ فضائی سروس تو صرف وی آئی پی ز اور فوج کے حکام تک ہی محدود ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ڈوڈہ اور کشتواڑ کو قدرتی حسن سے نہ صرف مالامال کیا ہے بلکہ بے پناہ قدرتی وسائل سے بھی نوازا ہے جس میں آبی وسائل، جنگلات، زعفران اورنیلم شامل ہیں لیکن بدقسمتی سے بہترسڑک رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے یہاں موجود قدرتی خزانہ لوگوں کی تقدیر نہیں بدل سکا۔ان دونوں اضلاع میں مذہبی وقدرتی سیاحتی مقامات کی اتنی لمبی چوڑی فہرست ہے کہ تفصیل کے ساتھ ان علاقہ جات کو گھومنے کے لئے کم سے کم بھی دو ماہ کا وقت درکار رہتا ہے۔ ہر مقام ایک سے بڑھ کر ایک ہے، جہاں جوشخص جاتا ہے وہ اس کا دیوانہ ہوجاتاہے ۔کشتواڑ مچیل یاترا ، سرتھل یاترا، ہد ھ ماتا اور سندھیہ یاترا،جامع مسجد، زیارت شاہ فرید الدین،کشتواڑ کا دل ماناجانے والا165ایکڑ اراضی پرمشتمل چوگان میدان چنار، دیودار اور مختلف قسم کے درختوں سے ڈھکا ہوا ہے، اس کے جنوب کی طرف اسرار الدین بغدادی اور شمال میں گوری شنکرمندر واقع ہے۔ سنتھن ٹاپ اور کشتواڑ کے بیچ چھنگم، پاڈر، 12ہزار فٹ سطح سمندر سے بلندی پرو واقع سنتھن ٹاپ،واڑون، ڈوڈہ میں جائی(ایکوہیلتھ ریزارٹ )،تیلی گڑھ،بھدرواہ قلعہ، سیاحتی استقبالیہ مرکز بھدرواہ، بھدرواہ سے 41کلومیٹر دور پڈری،بنی بسوہلی سڑک پر واقع گردانہ سو ن بائیں گلیشیر، وادی سرتھل، چھترگلہ پاس، سیوج، چنتہ وادی، بھلیسہ،میلہ پٹ، لال درمن جیسے چند گنے چنے انتہائی مشہور وخوبصورت مقامات ہیں جہاں ایک مرتبہ جو جائے اس کا بار بار وہاں جانے کا من کرتا ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ یہاں تک بیرون اضلاع ، ریاست کے چند ہی لوگ آتے ہیں۔ جس کی اہم وجہ بہتر سڑک رابطہ نہ ہونا ہے۔ کشتواڑ اور ڈوڈہ اضلاع سے تعلق رکھنے والے ہزاروں نوجوان جموں وملک کے دیگر حصوں میں تعلیم، روزگار کے سلسلہ میں آتے جاتے رہتے ہیں جن کے لئے وقت پر منزل مقصود پہنچ پانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہاں کے ہر شخص کے لئے ”بٹوت۔کشتواڑ شاہراہ پر ٹریفک آمدرورفت بحال“سب سے بڑی خوشخبری ہوتی ہے۔ صبح جاگتے وقت اور شام سونے سے قبل نوجوان اور مقامی افراد سڑک کی تازہ ترین صورتحال کو جانتے ہیں تاکہ وہ اپنا منصوبہ تیار کرسکیں کیونکہ اگر سڑک خراب ہوگئی تو پھر ان میں سے بیشترکاجموں، سرینگر یا ملک کے دیگر حصوں میں جانا مشکل ہی نہیں ناممکن سا بن جاتا ہے۔ ۔ بہتر سڑک رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے ملکی وغیر ملکی سیاحوں کی نظروں سے ڈوڈہ اور کشتواڑ اضلاع اوجھل ہیں، یہاں وہ ترقی نہیں ہوسکی جس کایہ خطہ مستحق تھا۔ صرف چند گنے چنے سیاح ہی یہاں سالانہ آتے ہیں۔سڑک اتنی خراب ہے کہ جب آپ بٹوت۔ کشتواڑ شاہراہ پر گذرکر پیچھے سڑک کی طرف دیکھتے ہوتو ایسا لگتا ہے کہ آپ کرشمائی طور وہاں سے گذر کر آئے ہو۔ بٹوت کشتواڑ شاہراہ پر پل ڈوڈہ تک کم سے کم راستہ میں25ایسے مقامات ہیں جہاں پر سے سڑک ٹوٹی ہوئی ہے ، جوکہ نیچے سے کھوکھلی ہوچکی ہے۔ بٹوت سے چند کلومیٹر آگے گذر کرکشتواڑ تک شاہراہ کے کنارے دریاچناب انتہائی خاموشی سے بہتا ہے لیکن یہ ’Silent Killer‘کا کام کر رہا ہے۔ اگر سڑک سے چناب کے دونوں کنارے واقع علاقہ جات کی طرف غور کر کے دیکھاجائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس چناب نے کتنی ویرانی پیدا کر رکھی ہے۔ دو ر دور تک گھر نظر ہی نہیں آتا۔ جگہ جگہ سے خاموشی کے ساتھ زمین کھسک رہی ہے ۔ دونوں اطراف دریائے چناب خاموشی کے ساتھ تباہی کی داستانیں تحریر کرتا اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ یہاں تک کہ ڈوڈہ سٹی بھی اس کے خطرہ سے باہر نہ ہے کیونکہ یہ بالکل اس کے آگے سے بہہ رہا ہے۔ بغلیار ڈیم تعمیر کرنے سے پل ڈوڈہ تو پہلے ہی ڈوب چکا ہے، جہاں مندر، مسجد اور کئی گھرودکانیں بھی تباہ ہوئیں، مسجد اور مندر آج بھی دریاچناب کے بیچ واقع ہیں اور وہاں سے پانی بہہ رہاہے۔ خطہ چناب کے پاس اگرچہ ایسے سیاستدانوں کی ایک طویل فہرست ہے جو ریاستی سطح پر ہی نہیں بلکہ ملکی سطح پر بھی نام کما چکے ہیں جن میں سابق وزیر اعلیٰ ریاست اور سابق مرکزی وزیر غلام نبی آزاد سرفہرست ہیں۔کئی مرتبہ اس خطہ سے تعلق رکھنے والے نمائندوں کو وزارت تعمیرات عامہ کا قلمدان بھی ملا پھر بھی وہ کچھ نہیں کرسکے۔ اس وقت بھی ڈوڈہ و کشتواڑ اضلاع سے 11لیڈر پارلیمنٹ،ریاستی قانون سازیہ اور مرکزی و ریاستی وزارتی کونسلوں میں موجودہیںمگر عوامی مسائل کو حل کروانے میں یہ کس حد تک کامیاب ہیں، اس بات کا اندازہ بٹوت کشتواڑ قومی شاہراہ کی حالت کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے جس کی حالت ہر آئے دن بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت یہ شاہراہ ملک کی بدترین شاہراہ ہے تو بیجا نہ ہو گا۔50برس تک وقتاً فوقتاً اس پر ہونے والے کام کی وجہ سے یہ سڑک اب اس قابل ہو چکی تھی کہ اس کے لئے شاہراہ کالفظ استعمال کیا جاتا ، مگر بغلیارپن بجلی پروجیکٹ کے لئے بنائے گئے ڈیم کی وجہ سے وجود میں آنے والی بٹوت۔پل ڈوڈہ جھیل نے گذشتہ چند برسوں کے دوران نہ صرف اس کی حالت بگاڑ کے رکھ دی بلکہ ماہرین کے مطابق اس بات کے امکانات بھی ہیں کہ ڈوڈہ و کشتواڑ اضلاع کو باقی دنیا سے ملانے والی اس واحد شاہراہ کا بہت سارا حصہ دریائے چناب کی نذر ہو سکتا ہے۔رہی سہی کسر گذشتہ برس اور اس کے بعد بھی وقتاً فوقتاً ہونے والی طوفانی بارشوں نے پوری کر دی ۔آج اس شاہراہ کی حالت آج سے پچاس سال قبل والی حالت سے بھی بدتر ہے۔گذشتہ ایک برس کے دوران جتنی بھی پسیاں آئی ہیں انہیں صرف دو ٹائروں کے لئے جگہ بنانے کی حد تک ہٹایا گیا ہے۔بہت سارے مقامات پر شاہراہ پر بچھائے گئے میکڈم کے نشانات بھی مٹ چکے ہیں،جگہ جگہ گڑھے پڑ گئے ہیں ۔ذرا سی بارش سے شاہراہ اکثر مقامات پر تالابوں یا دلدل کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔گاڑیاں اس شاہراہ پر جھولتے ہوئے چلتی ہیں اور مسافروں پر پورے سفر کے دوران گھبراہٹ سی طاری رہتی ہے۔دو گاڑیاں جب شاہراہ پر آمنے سامنے آ جاتی ہیں تو کراسنگ کا مسئلہ درپیش آتا ہے جس کے لئے پہلے دونوں ڈرائیور یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ پیچھے کی طرف واپس جائے گا اور پھر کئی سو میٹر الٹا سفر کرنے کے بعد کراسنگ ممکن ہوتی ہے۔کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ دونوں ڈرائیور اس بات پر اڑ جاتے ہیں کہ وہ پیچھے نہیں جائیں گے اور پھر آدھے آدھے گھنٹے تک بھی ٹریفک رک جاتی ہے اور لوگوں کو سخت پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔بٹوت سے پل ڈوڈہ تک متعددمقامات پر شاہراہ آہستہ آہستہ دھنستی جا رہی ہے اور امکانات ہیں کہ بہت جلد یہ دریائے چناب کی نذر ہو جائے گی،پل ڈوڈہ سے ٹھاٹھری تک بھی حالت تشویش ناک ہے جب کہ ٹھاٹھری سے کشتواڑ شاہراہ کی حالت سب سے زیادہ ابتر ہے۔گذشتہ ایک برس سے شاہراہ پر اس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کیا جاتا ہے کہ جب کہیں پسی گر آنے سے شاہراہ پوری طرح بند ہو جاتی ہے تو ایک مشین کے ذریعہ تھوڑا سے ملبہ ہٹا کر دو ٹائروںکے لئے راستہ بنایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ شاہراہ پر کہیں کوئی مزدور یا مشین وغیرہ کام کرتے نظر نہیں آتی ہے۔گذشتہ برس مرکزی حکومت کی طرف سے لئے گئے ایک فیصلہ کے مطابق بٹوت کشتواڑ قومی شاہراہ ون بی کی دیکھ ریکھ ریاستی محکمہ تعمیرات عامہ کے سپرد کی گئی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ قریب دو دہائی قبل بھی یہ سڑک قومی شاہراہ کا درجہ ملنے کے بعد بھی تعمیرات عامہ کے زیر نگرانی تھی اور اس کی کشادگی کے لئے بٹوت، کھلینی اور ٹھاٹھری کے مقامی پر خصوصی ڈویڑن قائم کئے گئے تھے لیکن تعمیر کا کام جب تسلی بخش طریقہ سے نہ چلا تو حکومت نے اس کی تعمیر کا کام گریف کے ہاتھوں میں دے دیا۔گزشتہ برس مرکزی سرکار نے ایک بار پھر 110کلو میٹر طویل اس سڑک کو واپس محکمہ تعمیرات عامہ ،آر اینڈ بی کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا ۔رواں برس کے مئی ماہ میں حکومت ہند نے جموں وکشمیر سرکار کو اس بات کی منظوری دی تھی کہ بٹوت کشتواڑ قومی شاہراہ کو براستہ چنینی۔سدھ مہادیو کھیلنی تعمیر کیاجائے کیونکہ جیولیوجیکل ماہرین نے اپنی رپورٹ میں کہاتھا کہ آنے والے چند سالوں میں موجودہ بٹوت کشتواڑ شاہراہ کا بیشتر حصہ دریاچناب کی وجہ سے دھنس جائے گا۔ ا س سلسلہ میں حکومت ہند نے 1000کروڑ روپے کے جامعہ منصوبہ کو منظوری دیتے ہوئے اس کی مفصل پروجیکٹ رپورٹ تیار کرنے کو کہاتھا کیونکہ ڈوڈہ تک بٹوت کشتواڑ شاہراہ آنے والے چند سالوں میں تاریخ بن کر رہ جائے گی۔ بٹوت۔چنینی۔سدھ مہادیو کھیلنی سڑک کی کل لمبائی 82کلومیٹر ہوگی۔ سال بھر اس مجوزہ سڑک کو آمدرفت کے قابل بنانے کے لئے سدھ مہادیو میں 2.5کلومیٹر ٹنل تعمیر بھی کیاجانا ہے۔ جیالوجیکل ماہرین نے اپی رپورٹ میں کہاہے کہ آئندہ چند سالوں میں کم سے کم 25مقامات سے سڑک دھنس جائے گی۔ حکومت نے موجودہ بٹوت کشتواڑ شاہراہ کی بھی مرمت کرنے کو کہا تاکہ اس کو محفوظ رکھاجاسکے۔ اس کی یہ تجویز ہے کہ آئندہ چار برسوں میں اس کو مکمل کیاجانا ہے لیکن کیا ایسا ہوپائے گا اس با رے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا البتہ ماضی کے تجربات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر یہی رفتار رہی تو کم سے کم سات سے آٹھ برس تک لوگوں کو نئی شاہراہ کا انتظار کرنا پڑئے گا، شاہد تب تلک بہت سارے گاؤں اور علاقے مٹ چکے ہونگے۔ ان اضلاع کی ترقی کا راز بہتر رابطہ سڑک ہی مضمر ہے، یہاں کے سیاسی رہنماؤں کو چاہئے کہ کم سے کم وہ اس معاملہ کو سیاست کا شکار نہ بنائیں اور اس کی تعمیر کے لئے مشترکہ پلیٹ فارم پر آخر اپنی کوششوں میں تیزی لائیں ، اگر اسی طرح منقسم سیاست جاری رہی تو پھر و ہ دن دور نہیں جب یہاں کی لاکھوں کی آبادی دنیا سے مکمل طور کٹ کر رہ جائے گی۔یہ ہر ایک کا مسئلہ ہے چاہئے وہ سیاسی رہنما ہے یا بیروکریٹ یا کچھ اور، اس کے لئے اجتماعی مخلصانہ کوششیں وقت کی اہم ضرورت ہے۔
Altaf HUssain Janjua
About the Author: Altaf HUssain Janjua Read More Articles by Altaf HUssain Janjua: 35 Articles with 53125 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.