پاکستان کی نئی شناخت طے کرنے کا وقت

آئین پاکستان کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ریاست اپنے اختیارات ،عوام کے منتخب نمائندوں کے زریعے استعمال کرے گی،بنیادی حقوق کی مکمل ضمانت دی جائے گی جہاں تک کہ قانون اور اخلاق عامہ اس کی اجازت دیں،جمہوریت،آزادی،مساوات،رواداری اور سماجی انصاف کے اصولوں کا جو تصور اسلام نے پیش کیا ہے اس کی مکمل پاسداری کی جائے گی،ریاست علاقائی سطح پر منتخب نمائندوں کے زریعے مقامی حکومت کے(بلدیاتی) اداروں کی حوصلہ افزائی کرے گی اور ان اداروں میں کمزور طبقات ،کسانوں،مزدوروں اور عورتوں کو نمائندگی دینے کا اہتمام کیا جائے گا۔اس کے علاوہ انسانی حقوق کا عالمی منشور کہتا ہے تمام انسان آزاد اور حقوق و عزت کے اعتبار سے برابر پیدا ہوئے ہیں انہیں عقل اور ضمیر ودیعت ہوتی ہے انہیں ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے کا سلوک کرنا چاہئے،ہر انسان کو اپنے ملک میں سرکاری ملازمت حاصل کرنے کا برابر کا حق حاصل ہے،یہ ضروری ہے کہ انسانی حقوق کو قانون کی عمل داری کے زریعے یقینی بنایا جائے ،ورنہ انسان عاجز آکرجبر و استعداد و ظلم کے خلاف خود بغاوت پر مجبور ہو جائے گا،ہم اگر یہاں آئین کی بات کریں جس میں جمہوریت،آزادی،مساوات،رواداری اور سماجی انصاف کی جو بات کی گئی ہے ،سوال یہ ہے کہ آئین کی مقدس کتاب میں لکھے ہوئے الفاظ کے علاوہ جمہوریت کہیں نظر بھی آرہی ہے؟آزادی کس بلا کا نام ہے؟مساوات کیا ہوتی ہے،رواداری اور سماجی انصاف کا کوئی وجود بھی ہے ؟ تو اس کا جواب یقینی طور پر نفی میں آئے گا،اگر آئین میں واضع ضمانت ہونے کے باوجود یہاں عملی طور پر ہمیں وہ جمہوریت نصیب نہیں ہے جو سماجی انصاف،آزادی ،رواداری ،مساوات اور انسانی ترقی سے جڑے بڑے مسائل کے حل کی ضامن ہے تو ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ خرابی کہاں ہے، آئین مخاطب کس سے ہے؟آئین یہ ساری امانتیں کس کے سپرد کر رہا ہے؟آئین نے یقینی طور پریہ ذمہ داری ریاست کے کندھوں پر ڈالی ہے کہ یہ امانتیں(جمہوریت،آزادی،مساوات،رواداری اور سماجی انصاف)پاکستانی شہریوں کے سپرد کرنی ہیں ،ایک شہری اگر آٹو اکنامکس سسٹم کے زریعے تمام ٹیکسز کی بلا چوں و چراں ریاست کو ادائیگی کر رہا ہے تو ریاست کیوں اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کر پا رہی؟امانت میں خیانت کر رہی ہے تو ریاست سے امانت میں خیانت پر باز پرس کرنا ہر شہری کا آئینی فرض ہے، شہری سول نا فرمانی کرتا ہے اور وہ بغاوت تصور ہوتی ہے تو ریاست اگر آئینی زمہ داری پوری نہیں کرتی تو وہ کس زمرے میں تصور کی جائے گی ؟انسانی حقوق کے عالمی منشور میں اس خدشہ کا اظہار کیا گیا ہے اور رکن ممالک کی ریاستوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ انسانی حقوق کو قانون کی عمل داری کے زریعے یقینی بنایا جائے ،ورنہ انسان عاجز آکرجبر و استعداد و ظلم کے خلاف خود بغاوت پر مجبور ہو جائے گا، اب قانون کی عملداری کس کی زمہ داری ہے؟ آئین میں دی گئی ریاست کی زمہ داریوں پر بات کی جائے تو قانون کی عملداری پہلے نمبر پر آتی ہے،آئین کہتا ہے کہ ہر شخص کو زندہ رہنے،آزادی اور جان و مال کے تحفظ کا حق حاصل ہے ،انسانی وقار ،گھر اور چار دیواری کی حرمت کی قانون کے مطابق ،ہر قیمت پر حفاظت کی جائے گی،آئین نے ایک شہری کے جہاں زندہ رہنے کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے اسکی آزادی اور جان و مال کے تحفظ کی زمہ داری ریاست کو سونپی ہے تو زندہ رہنے کے تمام تر لوازمات کی زمہ داری بھی ریاست پر عائد کی ہے،کیا سانس کے سلسلے کا جاری رہنا ہی زندہ رہنا ہے،ایک زندہ انسان کو جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے روزگار، تعلیم، تحفظ، عزت، وقار ، صحت جیسے سماجی اور معاشی حقوق کی ضرورت نہیں رہتی کیا؟اگر یہ سب ضروری ہیں تو یہ پوری کرنا کس کی زمہ داری ہے آئین نے یقینی طور پر ریاست کو یہ زمہ داری سونپی ہے، ان زمہ داریوں پر ریاست کس حد تک پورا اتر رہی ہے آج زندہ رہنے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں،جان و مال کی حفاظت اور آزادی کا جو حق حاصل ہے ،ملک میں امن امان کی جو صورتحال ہے ایسی صورت میں ریاست کا کردار ہے کہاں؟۔دوسرا نقطہ آئین کہتا ہے ریاست سستے اور فوری انصاف کو یقینی بنائے،تمام افراد قانون کے سامنے مساویانہ حیثیت کے مالک ہیں اور مساویانہ قانونی تحفظ کے حقدار ہیں اسی طرح کی باتیں انسانی حقوق کا عالمی منشور بھی بتاتا ہے،اب سستے اور فوری انصاف کی حقیقت وہی اچھی طرح بتا سکتا ہے جس نے کبھی ریاست سے انصاف فراہمی کی جسارت کی ہو ، تھانوں اور ڈسٹرکٹ عدالتوں میں بیٹھے زمہ داروں کو بھی آئین کا یہ سبق پڑھانے کی ضرورت ہے اور اپنے مقدمات کی پیروی کے لیے آنے والے پاکستانی شہریوں سے بہتر سستے اور فوری انصاف کی حقیقت کس کو معلوم ہو سکتی ہے۔تیسرا نقطہ آئین کہتا ہے سماجی اور معاشی حقوق کی فراہمی ریاست کی زمہ داری ہے جس میں تعلیم کو بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، ریاست ،قانون میں متعین شدہ طریقہ کار کے مطابق پانچ سے سولہ برس کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی ۴آئین کہتا ہے کہ ہر شخص کو تعلیم کا حق حاصل ہے،فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے کا عام انتظام کیا جائے گا اور لیاقت کی بنیاد پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا سب کے لیے مساوی طور پر ممکن ہوگا ،آئین پاکستان شق25 A ۔معاشی،معاشرتی اور سماجی حقوق کے بین الاقوامی میثاق کی شق 13بھی تعلیم کو بنیادی انسانی حق تسلیم کرتے ہوئے اس میثاق میں شریک ممالک کی ریاستوں کو اس پر عمل در آمد کی تلقین کرتا ہے ۔سب سے بڑھ کر آئین پاکستان کا آرٹیکل 38 A جب یہ کہتا ہے کہ ریاست ،جنس،ذات،رنگ و نسل سے بالا تر ہو کر معیار زندگی بہتر کرکے ،عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنائے گی تو اس سے شہریوں کی صحت،تعلیم،معیشت یعنی معقول معیار زندگی کی فراہمی کی ریاست سے ضمانت لی جاتی ہے۔جدید ریاست میں حقوق اورفرائض کے ضمن میں ریاست اور شہریوں کے درمیان بنیادی تعلق معاہدہ عمرانی کی بنیاد پر طے پا تا ہے،ملک کا ہر شہری ریاستی قوانین کی پابندی اور محصولات کی ادائیگی کا پابند ہو تا ہوتا ہے اور ریاست آئین میں دئیے گئے حقوق ،مفادات اور آزادیوں کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہے ۔69 سالوں میں پاکستانی ریاست نہ صرف اپنے مقاصد میں نا کام رہی ہے بلکہ عوام کی حاکمیت سے تعلق رکھنے والے بنیادی بحران سے بھی پہلو بچا کر ایک کشمکش مسلسل میں مبتلاء ہو کر بچاؤ کے راستے تلاش کر رہی ہے یہ بحران جسے جمہوریت کا بحران بھی کہا جا سکتا ہے ، اس بحران کی ایک سے زیادہ پرتیں ہیں۔پاکستان کے بارے میں یہ مفروضہ قائم کیا گیا ہے کہ یہ ایک نظریاتی ریاست ہے، اب نظریاتی ریاست میں جمہوریت کا قیام کیسے ممکن ہے؟جب پاکستانی ریاست آئین میں دی گئی جمہوری اور فلاحی ریاست کے تصور کو چھوڑ کر جغرافیائی توسیع کے جنون میں کسی دوسری طرف نکل گئی تو اس حقیقت کو بھول بیٹھی کہ موجودہ جغرافیائی، عالمی معاشی اور سیاسی حقیقتوں کی موجودگی میں کیا ایسا ممکن بھی ہے،ریاست کے مسلسل جنگی جنون کے نتیجے میں جغرافیائی وسعت تو نہ مل سکی بلکہ اس جنون نے جہاں ایک طرف غیر ملکی مداخلت کا باب کھول دیا تو دوسری طرف پاکستان میں سیاسی مکالمے اور جمہوری عمل پر فوجی بالا دستی کا جواز پیدا کر دیا۔سادہ زبان میں جب ہماری ریاست نے اپنے آلوؤں کو چھوڑ کر بیگانے مٹروں کی گوڈی شروع کر دی تو نتیجے کے طور پر ریاست کے حصے میں آلو آئے اور نہ مٹر،دراصل جان فاسٹر ڈلس کے اشتراکی اثر نفوذ کے آگے بند باندھنے کے نظریئے کی حفاظت کی خاطر نو آزاد ریاستوں کے ذمہ جو بیگار لگائی گئی ،پرائی بیگاریں کرنے کا یہ نتیجہ نکلا کہ ان ریاستوں میں عوام کی معاشی اور سماجی ترقی بنیادی ترجیح نہ رہی جس سے ایشیاء اور افریقہ کے درجنوں نو آزاد ممالک میں عوام معاشی اور سیاسی اعتبار سے پسماندہ رہ گئے،سلامتی کو سماجی اور معاشی ترقی پر ترجیح دینے کا نا گزیر نتیجہ یہ نکلا کہ نو آزاد ریاستوں میں جمہوریت کا امکان ختم ہو کر رہ گیا۔معاشرتی ترقی کا خواب پورا نہ ہو سکا اورسماجی و علمی پسماندگی کے سائے لمبے ہونے لگے۔اس وقت سوال یہ ہے کہ ہماری ریاست کیا فیصلہ کرتی ہے۔ہم نے 69 برس ایک رستے پر چل کر دیکھ لیا،ہماری پسماندگی دور نہیں ہوئی،ہمیں مسلسل انحطاط کا سامنا ہے،ہم معاشی دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑے ہیں،ہماری معاشرت کے بخیے ادھڑ رہے ہیں،ہمارے عوام کو علاج میسر نہیں،پولیو سرٹیفیکیٹ کے بغیر ہم کسی ملک کی سرحدیں کراس نہیں کر سکتے،ہمارے بچے تعلیم سے محروم ہیں، ہماری بچیوں کو بنیادی انسانی وقار سے محروم رکھا گیا ہے ،ہماری مائیں آٹا خریدنے کے لیے کڑی دھوپ میں لمبی قطاروں میں کھڑی ہیں ،جدید علوم میں ہم تہی دست ہیں ،اس گلوبل ویلج کے ہم کنزیومر تو ہیں مگر جدید دنیا میں ہماری کوئی کنٹری بیوشن نہیں ہے،ہم نے دنیا سے قرضوں پر کمر باندھ رکھی ہے ہماری ریاست اور قیادت نے گزشتہ ادوار میں ایسا رویہ اپنایا کہ دنیا ہمیں ایک شرارتی بچے کی طرح دنگا نہ کرنے کا تاوان ادا کرے،اب یہ رویہ ہمارے کام ا نہیں آ سکتا بلکہ مسائل پیدا کر رہا ہے،اگر ہماری ریاست سلامتی ،تجارت،علم،پیداوار اورجمہوری رستہ اپنائے تو دنیا کو دینے کے لیے ہمارے پاس بھی بہت کچھ ہے اس ضمن میں اہم ترین سوال ریاست کا جو آئینی کردار متعین ہے اس میں رہتے ہوئے پاکستان کی نئی اجتماعی شناخت طے کرنے کا ہے۔
sherafzal gujjar
About the Author: sherafzal gujjar Read More Articles by sherafzal gujjar: 6 Articles with 9101 views my name is sherafzal gujjar i am a journalist i write articles on diffirennt issues... View More