میرا پاکستان کیسا ہو؟

 میرے ذہن میں یہ سوال بار بار اٹھتا رہا ہے کہ ’’میرا پاکستان کیسا ہو ؟‘‘ اور مجھے جان سے زیادہ عزیز اس پیارے ملک کو ایک بہترین اورترقی یا فتہ ملک کیسے بنا یا جا سکتا ہے ؟ یہ ملک جو مسلمانانِ برِ صغیر کی عظیم جد و جہد اور لاکھوں جانوں کے قربانیوں کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آیا، اسے ایسا تو نہیں ہونا چاہئیے جو آج ہے۔ میری آرزو تو یہ ہے کہ یہ ملک خودمختار ہو،اس میں حقیقی جمہوری نظام قائم ہو، ا س میں معاشی مسا وات ، عدل و انصاف اور حقوقِ انسانی کا تحفظ ہو،قانون کا احترام اور امانت و دیانت کا علمبردار ہو، اس ملک کے حکمران عوم کے سامنے جواب دہ ہوں، بیورو کریسی عوام کی خادم ہو، اس ملک کی پو لیس اور انتظامیہ عوام کی محا فظ ہو۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیونکر ممکن ہے ؟ اور ایساکرنے کے لئے ہمیں کیا کرنا ہو گا؟ یہی وہ سوال ہے جس کا درست جوا ب ہمیں اندھیروں سے روشنی کی طرف لے جا سکتا ہے۔میرے خیال میں پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر نے کے لئے چار ممکنہ راستے ہیں۔ البتہ اس کے لئے ہمیں کچھ جرات مندانہ کام کرنے پڑیں گے اور کچھ احتیاطیں بھی برتنی پڑیں گی، اور سنجیدہ ہو کر اس ملک میں جاری نظام کو تبدیل کرنا ہو گا،کیوں ؟

اس لئے کہ پاکستانی قوم کو بے شعور بنا دیا گیا ہے،انصاف اس وقت مقتدر طبقات کی لو نڈی ہے،جمہوریت ان کی عیاشی ہے، انتخابات ان کا کاروبار ہے۔اس کے لئے سب سے پہلا کام ہمیں بامقصد تعلیم کو عام کرنا ہو گا ، جہالت کو ختم کرنا ہو گا، جس طرح انسان کے لئے ہوا، پانی،لباس اور خواک وغیرہ ضروری ہو تے ہیں ، اچھی خوراک سے انسان توانا اور صحت مند ہو تے ہیں ،اسی طرح تعلیم کے حصول سے انسان دماغی لحاظ سے ترقی کرکے اپنے ملک کو ترقی دینے کے قابل بنتا ہے اس لئے ہر شہری کے لئے تعلیم کا حا صل کرنا لازمی قرار دینا پڑے گا، قریہ قریہ، شہر شہر لاکھوں سکول کھو لنے ہوں گے۔تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لا نی ہوں گی ،تمام مشکلات کے با وجود ہمیں سائنس اور ٹیکنا لوجی کے علوم کو وسیع پیمانے پر حاصل کرنا ہو گا ۔

دوسرا ہم کام انتخابات کے طریقہ کار کو بدلنا ہو گا، موجودہ انتخابی نظام میں صرف ارب پتی لو گ ہی انتخاب میں حصہ لینے کاسوچ سکتے ہیں۔اس لئے پاکستانی عوام انتخابی اصلاحات میں بنیادی تبدیلی کے آرزو مند ہیں۔اس وقت کو ئی بھی محبِ وطن سفید پو ش شہری انتخابات میں حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔عوام کو ہر پانچ سال کے بعد دھوکہ دیا جاتا ہے لوگ پانچ سال تک ااس نظام کے تحت منتخب ہو نے والے اراکینِ اسمبلی کے خلاف اپنی نفرتوں اور غیظ و غضب کو پالتے رہتے ہیں مگر بد قسمتی سے موجودہ انتخابی نطام کی خرابی کی وجہ سے پانچ سال کے بعد پھروہی پرانے لوگ وفادار، ہمدردی اور محبت کا لبادہ اوڑھ کر پھر سامنے آجاتے ہیں اور عوام کو پھر انہی کو ووٹ دینا پڑتا ہے۔ اس لئے لازم ہے کہ وسیع پیمانے پر انتخابی اصلاحات کی جائیں ۔جس کے تحت لکھے پڑھے، اہل، دیانت دار اور مخلص لوگوں کوانتخابات میں آگے آنے کا مو قعہ مل سکے۔

پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کیلئے تیسرا بڑاکام معیشت کے میدان کو سنبھالنا اور درست کرنا ہے۔ کرپشن کے ناسور کو جڑ سے اکھیڑنا ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ سینکڑوں امیرترین اور سرمایہ دار پاکستانیوں کا سر مایہ دنیا کے بیرونی ملکوں میں جمع ہے، ان کا سرمایہ واپس پاکستان لانا ہو گا۔اگر بیرونِ ملک سرمایہ پاکستان واپس لایا جائے تو پاکستان کو فوری طور پر قرضوں سے نجات مل سکتی ہے اور اپنے پاوں پر کھڑا ہو نے میں دیر نہیں لگے گی ۔ساتھ ہی ساتھ ملک میں موجود معدنی وسائل کو ایکسپلور کرکے استعمال میں لاناہو گا۔ پاکستان میں اﷲ کی دی ہو ئی ہر نعمت موجود ہے۔یہ ملک سورہ رحمٰن کی عملی تفسیر ہے،جن نعمتوں کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے سورہ رحمٰن میں کیا ہے وہ تمام نعمتیں اس ملک میں موجود ہیں ،ان کو بروئے کار لانا ہو گا۔

اگلا کام ہمیں اپنے آپ کو بیرونی دباؤ سے آزاد کرنا ہو گا۔دنیا کے کسی ملک کو قطعی طور پر ہمارے اندرونی کاموں میں مداخلت کا اختیار نہیں ہو نا چاہیے۔ہمیں بیرونی دباؤ مسترد کر کے ملکی مفاد میں خود فیصلے کرنا ہونگے۔ہم دنیا کی ایک آزاد قوم ہیں ، ہمیں دنیا کی آزاد قوموں کی مانند اپنے مسائل کوخود حل کرنے چاہیئں۔ ہمیں اپنے اندر اتحاد و اتفاق کا شاندار مظاہرہ کرنا پڑے گا ۔جب ہم سب ایک ہو جائیں گے تو دنیا کی کو ئی طاقت بھی ہمارے اندرونی معا ملات میں مداخلت کی جرات نہیں کر سکے گی۔ پاکستان کی ترقی و خو شحالی نہ صرف میری تمنا ہے بلکہ ہر پاکستانی یہی آرزو رکھتا ہے کہ کا ش میرا پاکستان بدل جائے،مجھے یقین ہے کہ یہ آرزو، یہی تمنا ایک دن حقیقت میں بدل جائے گی، مجھے پاکستان کا مستقبل انتہائی شاندار اور روشن نظر آرہا ہے، نئی سوچ اور نئے جذبے جنم لے رہے ہیں ، اب وہ دن دور نہیں کہ ہمرا یہ پیارا ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو کر پو ری دنیا کے لئے مینارہ نور بنے گا (انشا اﷲ)
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 285065 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More