میرا پاکستان کیسا ہو؟ْیقینا ہر کوئی اپنے
وطن کو انچائی پر دیکھنا چاہتا ہے ایسا فکر اور ایسی شان جو ایک خواب ہو کے
رہ گئی ہے۔مجھے اپنے دیس کو دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں سب سے
اوپر دیکھنے کی خواہش ہے۔پاکستان کسی اور کے لئے ایک زمین کا ٹکڑا ہو سکتا
ہے مگر لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کی خوابوں کی یہ زمین جنت کا ایک گوشہ
ہے۔پاکستان بنا تو ۴۷ میں مگر لگتا یوں ہے کہ جس دن برصغیر پر کسی نے پہلی
بار کلمہ ٗ طیبہ پرھا اسی دن اس نے خواب بنا ہو گا کہ اسی کلمے کے ثمرات کو
زندہ دیکھنے کے لئے میں ایک زمین کاٹکڑا حاصل کروں
حوصلے پست تھے فاصلہ دیکھ کر فیصلے مٹ گئے حوصلہ دیکھ کر
یہ اگست کا مہینہ جب بھی آتا ہے ہمیں وہ عشاق یاد آ جاتے ہیں جن کے ہاتھوں
میں سبز ہلالی پرچم تھا اور جسے پرچم نہ ملا مکئی کے ٹانڈے لے کر گلیوں
بازروں میں نعرہ زن ہوئے بٹ کے رہے گا ہندوستان لے کے رہیں گے پاکستان۔اور
پھر ایک دن ریڈیو پاکستان سے مصطفیٰ علی ھمدانی کی آواز آئی یہ ریڈیو
پاکستان ہے۔اس آواز کے پیچھے کتنی لمبی کہانی تھی یہ کہانی مجھے تو علم ہے
مگر میری تیسری نسل کو نہیں بتائی جاتی۔ پھر عرصہ ہی کتنا گزرا تھا ۲۴ سال
کے ارض وطن کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا بات پھر بھی قابل برداشت تھی مگر
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
آزادی کے اس مبارک مہینے میں غموں والی شام کے خاتمے کی یاد منانے
والو!آزادی مبارک آج ہم اﷲ کے کرم سے جشن آزادی منا رہے ہیں۔آج کچھ مایوس
لوگ اس بات کا ذکر کریں گے کہ کون سی آزادی ہم تو اب بھی غلام ہیں۔سچ تو یہ
ہے کہ ہمیں زیادہ آزادی ملی ،دینے والوں نے بڑی مشکلوں سے ہمیں پاکستان لے
کر دیا ہم کچھ زیادہ ہی آزاد ہو گئے اور آدھا ملک اسی نشے میں گنوا بیٹھے۔
میں بار بار اس مائی عالم بی بی کا ذکر کرتا ہوں جو لاہور کے ریلوے اسٹیشن
کے پلیٹ فارم نمبر ۵ پر رکنے والی ٹرین کے ان پانچ زندہ لوگوں میں سے تھی
جو سکھوں کے حملوں سے بچ کر لاہور پہنچی تھی۔اس روز میں نے پاکستان کے بڑے
لیڈر جو اﷲ کے فضل سے ہمارے تیسری بار وزیر اعظم بنے ہیں ان کی ایک ویڈیو
دیکھی وہ ہندوستان میں بیٹھ کر کہہ رہے تھے ہم ایک ہیں ہم بھی آلو گوشت
کھاتے ہیں اور آپ بھی،ہم بھی وہی زبان بولتے ہیں جو آپ بھی اور ہم بھی وہی
لباس پہنتے ہیں جو آپ بھی۔مجھے عالم بی بی یاد آ گئی جو خون رستی گاڑی کی
سواری تھی۔میں نے ماسی سے پوچھا تو کیسے بچ گئی کہنے لگی بیٹا میرے باپ نے
میرے منہ کے اوپر گندگی مل دی تھی اور کہا تھا جب سکھ ڈبے میں آئیں تو پگلی
کا کردار ادا کرنا اور یوں میں بچ گئی۔برادر مظہر گجر اور میں ایک گجر
برادری کے صفحے پر ہیں وہاں جب میں نے لکھا کہ میں پہلے مسلمان پھر
پاکستانی اور بعد میں گجر ہوں تو وہ ہندو گجر ہم پر پل پڑے۔مجھے احساس ہوا
کہ اﷲ کا کرم ہے یہ پاکستان اور جس کسی نے سوچا کیا خوب سوچا ،چاہے وہ
علامہ اقبال ہوں یا چودھری رحمت علی حسرت موہانی ہو یا کوئی اور بلکہ آج
مجھے قائد اعظم کا وہ شہرہ ء آفاق جملہ یاد آیا کہ پاکستان تو اس وقت بن
گیا تھا جب برصغیر میں کسی نے پہلی بار کلمہ پڑھا تھا۔عالم بی بی بچ گئی
اپنے منہ پر گندگی مل کے۔میاں صاحب آپ کے آلو گوشت نے اس کی آبرو نہیں
بچائی تھی۔اگر ایسا ہوتا تو کرپانیں اس کا پیچھا نہ کرتیں۔گویا اس نے
پاکستان کو کنول کی صورت میں پایا۔حیف ہے ان لوگوں پر جو آج پاکستان کی
بدنامی کرتے ہیں۔یہ لوگ جب کبھی اپنے بچے کی سالگرہ مناتے ہیں اس دن یہ
نہیں کہتے کہ یہ بڑا شرارتی ہے اس نے فلاں فلاں دن برتن توڑ ے تھے،اس نے یہ
برا کام کیا تھا اپنے نٹ کھٹ کی تعریفیں سچی جھوٹی کرتے رہتے ہیں مگر آج جب
قوم آزادی کا جشن منا رہی ہے تو یہ کالی زبان لے کر بسورا ہوا منہ بنا کر آ
جاتے ہیں کہ ہمیں پاکستان نے کیا دیا ہے مجھے پی ٓئی کے ملک ایوب کی وہ بات
نہیں بھولتی جو انہوں نے جدہ میں اپنے اعزاز میں تقریب میں خطاب کرتے ہوئے
کی تھی کہ آئیں اس آزادی کے جشن کے موقع پر اپنے آپ سے پوچھیں کہ ہم نے
پاکستان کو کیا دیا۔(کدھر گئے یہ آسمان لوگ جو اپنی ہستی مٹا کر پاکستان کو
زندہ کر گئے۔ انجینئر عبدالرفیع مرحوم جناب ڈاکٹر غلام اکبر نیازی،سلیم
معینی یہی وہ لوگ تھے جن کے درمیان زندگی گزار کر ہم نے بھی قد کاٹھ
نکالا۔اﷲ ملک ایوب صاحب کو صحت دے آمین)
عالم بی بی کی طرح ۲۵ ہزار بیٹیاں اپنی جان نہ بچا سکیں اتنی ہی سکھوں نے
اپنے قبضے میں لے لیں۔ایک ہندو گجر کہہ رہا تھا کہ لوگوں نے بزدل بن کر
اسلام قبول کیا اور مغلوں نے ہندو گجروں کو زبردستی مسلمان بنایا۔میں نے
اسے کہا کہ ہر پیدا ہونے والا اسلام پر پیدا ہوتا ہے بعد میں اسے ہندو سکھ
عیسائی بنایا جاتا ہے۔ سلام اس ہندو پر جو مسلمان ہوا اورہم لوگ آج اﷲ اور
اس کے رسولﷺ کے راستے پر ہیں ہماری قسمت کھل گئی جب ہم اﷲ کے دین میں داخل
ہوئے۔گویا وہ ہندو اپنے تئیں کہہ رہا تھا کہ مغلوں نے اسلام پھیلایا میں اس
ہندو کی مانوں جو مغلوں کو اور غزنویوں کو اسلام کا پرچارک قرار دیتا ہے یا
اس ہندو کی جو کہتا ہے کہ افغانیوں نے سونے کی تلاش میں ہندوستان پر بار
بار حملے کئے۔
عالم بی بی بچ گئی مگر افسوس کہ وہ بیبیاں جو پاک دامن تھیں ان کو ان ہی کی
زبان بولنے والے سکھوں نے جبری حرم میں لے لیا۔۲۰۰۴ میں ٹویوٹا مجھے
ملائیشیا لے گئی وہاں مسقط سے آئیہوئے سکھ سے ملاقات ہوئی کہنے لگا آپاں وی
توڈے کج لگدے آں۔میں پریشان ہو گیا اور پوچھا کیسے کہنے لگا آپاں دی دادی
مسلمان سی۔یہ تھا پاکستان، جسٹس شریف کمیشن کی رپورٹ اٹھا کر دیکھ
لیجئے۔دوستو! قومیں اگر زبان کی بنیاد پر بنتیں تو سکھ کبھی ہمارے اوپر
کرپان نہ اٹھاتے اور نہ ہی ہندو ہمیں زندہ جلاتے۔سید مودودی کی کتاب مسئلہ
قومیت ضرور دیکھئے۔
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
میں نے کالم کے شروع میں لکھا تھا کہ جب لوگ واہگہ پار سے آئے تو پاکستان
کی زمین پر سجدہ ریز ہوگئے۔آزادی کا معنی پوچھنے ہیں تو مشرقی پنجاب سے آنے
والوں کے خاندانوں سے پوچھو یا پھر ان سے جو اپنوں کی قبریں چھوڑ کراچی اور
پاکستان کے دیگر علاقوں میں پھیل گئے۔میں پاکستان بننے آٹھ سال بعد پیدا
ہوا میں نے بازو کٹے زخموں سے چور لوگ بھی دیکھے۔کاش یہ نسل جان سکے کہ ہم
دشمنوں سے احترام محبت اور پیار سے رہیں مگر یہ یاد رہے کہ ہم کبھی بھی ایک
نہ تھے گیا تو میرے سامنے وہی برتن لائے گئے جو چند سال پہلے والے تھے میں
نے استفسار کیا تو صاحب خانہ نے بتایا کہ آپ کے کھانے کے بعد یہ آپ ہی کے
لئے رہ گئے تھے مراد ہمارے لئے ناپاک۔عاصمہ جہانگیر ھود بھائی فرزانہ باری
ماروی سرمد اردو آتی ہے؟۔ہم جب ان کے باورچی خانوں میں غلطی سے گزر جاتے تو
وہ ناپاک ہو جاتا تھا۔قدرت اﷲ شہاب انڈین سول سروس میں اعلی عہدے پر تھے
انہوں نے لکھا کہ میں برسوں بعد ایک بڑے ہندو کے گھر۔چودھری رحمت علی جسے
ہم بھلا چکے ہیں اس نے جوانی کی عمر میں کہہ دی اور یا تھا کہ ان سے الگ ہو
جاؤ اپنے دریاؤں کے سوتے مانگو کشمیر پورا لو ورنہ مارے جاؤ گے اسی مرد حر
نے کہا تھا کہ اگر مسلمانں کو ایک بڑی ہجرت بھی کرنی پڑے تو کر جائیں ورنہ
ان کے معبد بھی محفوظ نہ ہوں گے۔کتنی جوان بیٹیاں کتنے گبھرو اس دھرتی پر
فدا ہوئے ان کا کوئی شمار نہیں پنجابی شاعر استاد دامن نے کیا خوب کہا
سر ہوئے قلم قلمان کٹیاں عزت دی ٹہنی نالوں عذرا بانو سلمی کٹیاں
فیر اے جا کے موقع بنیا پاکستان کوئی سوکھا بنیاَ
اس پاکستان کو مشکلات میں گھرا دیکھ کر گبھرانا نہیں آپ سوچ بھی نہیں سکتے
کہ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس سے اس کے باسی بے انتہا پیار کرتے ہیں۔ہم جب
سعودی عرب میں تھے تو پاکستان کی آزادی کی تقریبات کو بڑے تزک و احتشام سے
منایا کرتے تھے۔میرا گھر ایک ایسا گھر تھا کہ اس کے اوپر چراغاں ہوا کرتا
تھا۔لوگ اس دن کو عید سے زیادہ خوش ہو کر منایا کرتے تھے۔اب بھی ایسا ہی ہو
رہا ہو گا۔پوری دنیا میں جشن آزادی ء پاکستان منایا جا رہا ہے۔ہم جب اس بار
جشن منائیں تو ان شہداء کو ضرور یاد کریں جنہوں نے ہمارے لئے یہ وطن حاصل
کیا۔خاص طور پر فجر کی نماز کے بعد قائد اعظم ان کے رفقاء اور شہداء کے لئے
دعا کریں کہ ان کے درجات بلند ہوں۔پاکستان ہے تو ہم ہیں اور ہم ہیں تو اﷲ
کے دین کی سر بلندی کے لئے بیس کروڑ سر ہیں۔یہ چھوٹی موٹی مشکلات زندگی کا
حصہ ہیں ایسے موقع پر یہ عہد ضرور کریں کہ ہمارا آلو گوشت ہلال آلو گوشت ہے
یہ لکیر نہیں بنیان مرصوص ہے اس دیوار کے اس پار وہ ہیں جنہیں اپنے خداؤں
کی گنتی یاد نہیں اور لکیر کے اس پار وہ جن کا ایک رب ہے جسے کسی نے جنا
نہیں نہ اس نے کسی کو جنا ہے۔گائے ہماری خدمت پر معمور ہے اس کا دودھ گوشت
گوبر سب ہماری خدمت کے لئے یہ گائے اس پار ماں ہیں۔ہم جس عہد میں زندہ ہیں
اس عہد کے سلطان سے جو بھول ہوئی ہے اس
سے وہ معافی مانگے۔ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ آلو گوشت اپنی جگہ ہمارا تو
پانی بھی مسلم پانی ہندو پانی میں تقسیم ہے۔گجر صاحب!سچ کہا تھا نہ کہ پہلے
مسلمان پھر پاکستانی اور پھر گجر۔یہی دو قومی نظریہ ہے جس کا تحفظ میں نے
اور ہماری نسلوں نے کرنا ہے اسی کا درس علامہ اقبال چودھری رحمت علی اور
دیگر اکابرین نے دیا تھا۔یہ اگست کا مہینہ جب بھی آتا ہے ہمیں وہ عشاق یاد
آ جاتے ہیں جن کے ہاتھوں میں سبز ہلالی پرچم تھا اور جسے پرچم نہ ملا مکئی
کے ٹانڈے لے کر گلیوں بازروں میں نعرہ زن ہوئے بٹ کے رہے گا ہندوستان لے کے
رہیں گے پاکستان۔اور پھر ایک دن ریڈیو پاکستان سے مصطفی علی ھمدانی کی آواز
آئی یہ ریڈیو پاکستان ہے۔اس آواز کے پیچھے کتنی لمبی کہانی تھی یہ کہانی
مجھے تو علم ہے مگر میری تیسری نسل کو نہیں بتائی جاتی۔ پھر عرصہ ہی کتنا
گزرا تھا ۲۴ سال کے ارض وطن کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا بات پھر بھی قابل
برداشت تھی مگر حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
غموں والی شام لمبی ہے میں چاہتا ہوں کہ عالم بی بی کو اس کے خوابوں کی
تعبیر ملے ۔میرا پاکستان کیسا ہو؟ْیقینا ہر کوئی اپنے وطن کو انچائی پر
دیکھنا چاہتا ہے ایسا فکر اور ایسی شان جو ایک خواب ہو کے رہ گئی ہے۔مجھے
اپنے دیس کو دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں سب سے اوپر دیکھنے کی
خواہش ہے۔پاکستان کسی اور کے لئے ایک زمین کا ٹکڑا ہو سکتا ہے مگر لاکھوں
اور کروڑوں لوگوں کی خوابوں کی یہ زمین جنت کا ایک گوشہ ہے۔پاکستان بنا تو
۴۷ میں مگر لگتا یوں ہے کہ جس دن برصغیر پر کسی نے پہلی بار کلمہ ٗ طیبہ
پرھا اسی دن اس نے خواب بنا ہو گا کہ اسی کلمے کے ثمرات کو زندہ دیکھنے کے
لئے میں ایک زمین کاٹکڑا حاصل کروں۔قائد اعظم کا پاکستان جو عالم بی بی اور
پنجاب کے اندھے کنو ٗ وں میں کود جانے والیوں کے خوابوں کی تعبیر پاکستان
ہو۔آزادی مبارک پاکستان زندہ باد |