نیگلیریا خاموش عفریت

دماغ کو کھا جانے والا یہ امیبا1960 کی دھائ میں آسٹریلیا میں دریافت ہوا 1995 سے 2004 تک صرف امریکہ ہی میں 23 افراد اس سے لقمہ اجل بن چکے تھے اس سے ہونے والا۔جان لیوا دماغی انفیکشن محض سات دن کی مختصر مدت مین ایک صیحت مند انسان کو موت سے ہمکنار کردیتا ہے ۔سینٹرل آف ڈیزیز کنٹرول پرونیشن کے مطا بق اس جرثومے کا ٹھکانہ آلودہ پانی ہے خواہ وہ دریا ، جھیل۔ تلاب ،نلکے، کنویں یا سوئمنگ پول کا ہو یا گلی محلوں مین قائم ریسٹورینٹ یا مہنگے ہو ٹلز غرض ہر طرح کا آلودہ پانی جو ہماری ناک مین کسی بھی زریعہ سے جائے اس امیبا کو انسانی دماغ تک پہچانے مین معاون ہے ۔

نگلیریا کے مرض کی دریافت کا عمل سا ٹھ کی دھائی میں ہو چکا تھا جب آسٹریلیا میں اس بیماری سے ہلا کتیں ہوئیں 1980 تک مغربی ممالک مین اس مر ض کی وجوہات جاننے کے بعد احتیاطی تدابیر کے ذریعے خاتمہ کیا گیا اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے آسٹریلیا میں ہلا کتوں کا عمل سوئمنگ پولز میں کلورینیشن کا نہ ہونا تھا عوامی سپلائ شدہ پانی کے ناک کے ذریعے استعمال سے کوئی ہلا کت نہیں ہوئ اس وقت بھی وہ جانتے تھے کہ پانی میں کلورینیشن کی کیا اھمیت ہے. نگلیریا فاؤلری اسوقت دنیا میں ترقی یافتہ اقوام میں تقریبا ختم ہوچکا ہے کہ وہاں پانی کو مکمل طور پر حفظان صحت کے اصولوں پر پرکھنے کے بعد عوام کو فراہم کیا جاتا ہے،اس امیبا کے پھیلنے سے سینکڑوں جانوں کا ضیاع ہوا اور اسکی وجہ سوئمنگ کرتے وقت پانی کا ناک کے ذریعے دماغ میں داخل ہو جانا تھا آج بھی اس امیبا کے خطرناک نتائج بیشتر ممالک میں ہیں اور اسکی وجہ زیادہ تر سوئمنگ پولز میں تیراکی ہے امریکہ بھی اس سے نجات پانے میں کافی حد تک ناکامی سے دوچار ہے دنیا کے ان تمام ممالک میں نگلیریا فاؤلری لوگوں کو شکار کر رہا ہے جہاں عوام کو ان ٹریٹیڈ پانی استعمال کروایا جا رہا ہےبالخصوص کلورین کی مطلوبہ مقدار سے کم مقدار یا بغیر کلورین کا پانی ہے دنیا کے پچیس سے زائد ممالک نگلیریا فاؤلری کا شکار ہو رہے ہیں اور اب تک د ماغ کھانے والے امیبا کا علاج دریافت نہ ہونے کی وجہ سے مستقبل میں خطرات لا حق ہیں سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ یہ دیگر جرثوموں کیطرح عام آنکھ سے دیکھا نہیں جا سکتا کیونکہ اسکا سائز محض آٹھ سے پندرہ مائیکر میٹر ہوتا ہے۔

ہمارے ملک اور بالخصوص کراچی میں پانی میں مقررہ مقدار میں کلورینیشن کا عمل ہی اس سے نجات دلا سکتاہے ورنہ ایسا ممکن نہیں کے آپ مساجد میں جا کر پاکیزگی حاصل کرنے کیلئے علیحدہ پانی کا انتظام کریں یا پانی دیکھ کر سوئمنگ کا شوق بھول جائیں ۔

کراچی میں نگلیریا 2011 مین آغا خان یو نیورسٹی کی تحقیق کے نتیجے مین سامنے آیا مگر کی کھل کر آمد سن دو ہزار بارہ میں ہوئ اس سال ہلا کتوں کی تعداد تین رہی ان تمام ہلا کتوں کا تعلق واٹر بورڈ کی جانب سے فراہم کردہ پانی میں مطلوبہ مقدار سے کم کلورین کا استعمال تھا اسی سال شہر کے مختلف علاقوں کے کئی مقامات سے ہزاروں پانی کے نمونوں کے لیبارٹری ٹیسٹ کے لئے حاصل کیئے گئے جس کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ ستر فیصد نمونے کم مقدار کلورین یا کلورین فری ہیں پندرہ ملین جانوں کو پانی مہیا کرنے والے واٹر بورڈ کی مجرمانہ غفلت کو ہر سطح پر نظر انداز کر دیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر سال نگلیریا سے اموات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ کروڑوں روپے کے فنڈ کلورین کی خریداری کے لئے مختص کئے جاتے ہیں اب تک کراچی میں چار ہلا کتیں ہو چکی ہیں اور عملی اقدامات کا سلسلہ صرف بیانات اور پانی کی عدم فراہمی تک محدود ہے جب پانی مہیا ہی نہیں ہو گا تو کون نگلیریا کی طرف توجہ دیگا؟ خدانخواستہ انتظار تو نہیں کیا جا رہا کہ یہ مرض بھی وبائ صورت اختیار کر جائے پھر دیکھیں گے. نگلیریا ناقابل علاج ہے یہ انسان سے انسان میں منتقل نہین ہو تا اس میں اموات کا تناسب تقریب٪ 98 ہے اگر مرض کی ابتدا مین ما ہر معالج تک رسا ئی ہو جا ئے توممکن ہے کہ اس پر قابو پا لیا جائے ورنہ سات دن کے اندر موت واقع ہو جا تی ہے یہ مرض گرمیوں اور مون سون میں زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے اس کی علامات گردن توڑ بخار (میننجائٹیس) کی طرح ہی ہو تی ہیں تیز بخار،سر درد ،گردن کا اکر جانا، پیٹ میں درد شامل ہیں ناک کے ذریعے داخل ہونے کے بعد مریض شدید سر درد، نزلہ اور بخار کا شکار ہو جاتا ہے تحقیق کے مطابق چار سال سے اننچاس سال کے لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں پانی میں فی لیٹر پانچ ملی گرام کلورینیشن سے نگلیریا سے جان چھڑائی جا سکتی ہے.دنیا بھر مین اسی تناسب سے کلورین کی مقدار پانی مین شامل کی جا تی ہے مگر پاکستان میں ابھی خاص توجہ اس مسئلے پر نہیں دی گئی ۔نہ ہی عوام کی تربیت کے حوالے سے کوئی آگاہی پروگرام مرتب کئے گئے عوام کی صحت و سلامتی ریاست کی زمداری ہے نیگلیریا کی خاموش عفریت ہمارے بہت قریب ہے حکو متی سطح پر شہریوں کے لئے فوری طور پر اگاہی مہم استعمال کے پانی میں کلورین کی مقدار کا صیح تناسب سے شامل کرنا فراہم کردہ کلورین اور فندز پر چیک ایند بیلنس کی کو ششین کی جانی چاہیئے اور شہریوں کی جان بچانے کے لئے سنجیدہ اقدامات کیئے جانے چاہیئے ۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Husan ara
About the Author: Husan ara Read More Articles by Husan ara: 2 Articles with 1980 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.