جموں وکشمیر کے معاملے میں ہم سے قومی سطح
پر کچھ بھول ہو ئی ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ اور دانش ور طبقہ بڑی حد تک یہ
تاثر دینے میں کامیاب رہا تھا کہ اب کشمیر کی تحریک کے دوبارہ اٹھانے کا
زمانہ گزر چکا ۔ ان کے نزدیک حکمرانوں نے اپنی مرضی سے جو فیصلے کیے وہ
کشمیریوں نے ’’ قبول ‘‘ کر لیے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تجارت اور دو طرفہ
مذاکرات پر گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں بہت زور دیا گیا ۔ دو طرفہ مذاکرات کے لیے
ہمارے حکمران بہت بے چین و مضطرب رہے لیکن فریق ثانی کی بے زاری ہر مرحلے
پر سامنے آتی رہی ۔ جہاں تک تجارت کا معاملہ ہے وہ بھی ہو چکی ، برسوں کی
مشقت کے بعد ہمارے تاجروں کا انڈکس اوپر گیا نہ اس نے دو نمبر اشیا سرینگر
بھجوانے سے توبہ کی اور نہ ہی سرینگر کے تاجروں کے افلاس میں کچھ فرق پڑا۔
ایک سیدھا راستہ جو اہل کشمیر نے اختیار کر رکھا ہے وقت نے ثابت کیا کہ وہ
اس سے کسی طور بھی ہٹنا نہیں چاہتے ۔ چاہے اس کے لیے انہیں مزید کتنی ہی
قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں ۔
سوال یہ ہے اگر پاکستان اور بھارت کا اصل مسئلہ تجارت اور باہمی تعلقات کی
استواری تک محدود تھا ‘تو پھر جھگڑا کس بات کا تھا ؟دونوں ممالک میں چار
جنگیں کیوں ہوئیں؟ ہزاروں لوگوں کا خون کیوں بہا؟ اور دنیاآج بھی اس خطے
میں ایٹمی جنگ چھڑ جانے کا خطرہ کیوں دیکھ رہی ہے؟اگر کشمیراصل اور بنیادی
مسئلہ (Core Issue)نہیں ہے‘تو پھر گزشتہ ۲۶ برس میں ایک لاکھ سے زیادہ
کشمیری کیوں قتل کر دیے گئے ؟ہزاروں خواتین کی عصمتیں کیسے پامال
ہوئیں؟اربوں کی جائیدادیں کیوں جلائی اور لوٹی گئیں ؟اس وقت بھی کہ جب
پاکستان اور بھارت میں دوستی کی پینگیں بڑھ رہی تھیں تب بھی کشمیر مسلسل
خون تھوک رہا تھا اور آج بھی ہر آن کشمیری قتل کیے جا رہے ہیں …… سوال یہ
ہے قائد اعظم ؒ نے جس خطہ ارضی کو پاکستان کی رگ حیات کہا تھا ‘کیا ہم پر
اتنا برا وقت آیا کہ شہ رگ کی بازیابی کو چینی اور دال کی تجارت سے بھی کم
اہم سمجھا جائے ؟
تنازعہ کشمیر کو طاق نسیاں سے اتارنے ‘ بلکہ عدم سے وجود میں لانے کا سہرا
ان سرفروش مجاہدوں کے سربندھتا ہے ‘جنہوں نے اپنے سروں کی فصل کٹا کر
کشمیری ملت کو ایک زبردست تحریک برپا کرنے کی راہ دکھائی۔ہم نے بھارت کی
فرمائش پر ان باصفا مجاہدوں کو بھلانے اور انہیں دہشت گرد کہنے کا آغاز کیا
۔ پہلے ان کی راہوں میں روڑے اٹکائے گئے ‘ پھر تحریک آزادی کے سیاسی پلیٹ
فارم یعنی آل پارٹیز حریت کانفرنس کی صفوں میں انتشار پیدا کیا ۔وہ تحریک
جس نے پوری قوت سے ہندوستان کے غاصب حکمرانوں اور ظالم بھارتی افواج کو
للکارا تھا اور زبردست دباؤ کے باوجود مکمل یک جہتی اور وحد ت فکر و عمل کا
مظاہرہ کیا تھا ‘ہماری غفلت شعاری سے اس اتحاد میں رخنہ اندازی شروع ہوئی
اور حریت کانفرنس بکھر گئی ۔پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا شور
برپا ہوتے ہی ایک طرف مجاہدین کی نقل و حرکت رک گئی‘ تو دوسری طرف حریت کی
صفوں میں ایسے عناصر کو آگے بڑھایا گیا جن کی نظریاتی یکسوئی مشکوک تھی ۔
بھارت نے مسئلہ کشمیر کو ’’ڈی ٹریک‘‘کرنے کے لیے ’’ٹریک ٹو ‘‘کا راستہ بہت
پہلے اختیار کیا تھا ‘جس میں بھارتی اور مغربی لابی کے علاوہ بعض بھارت
نواز پاکستانی پیش پیش تھے ۔لیکن تب ’’ٹریک ٹو ‘‘کو پذیرائی نہ مل سکی تھی
‘پھر وہ نام نہاد دانشور دلیرہو گئے اور بلاخوف تردید سیمی ناروں میں کہنے
لگے ‘کشمیری عوام کی خاطر ہم کیوں تباہی سے دوچار ہوں ۔بھارت کبھی ہماری
صفوں میں نظریاتی خلفشار لانے میں کامیاب نہ ہوتا ‘اگر ہمارے ارباب بست
کشاد اس کی حوصلہ افزائی نہ کرتے ۔بد قسمتی سے پاکستانی اور کشمیری قیادت
یاتو ہندوستانی لیڈروں کی چالوں سے بے خبر رہی یاتجاہل عارفانہ کا مظاہرہ
کرتی رہی ۔چناب فارمولا‘آئر لینڈ طرز پر ’’گڈ فرائی ڈے منصوبے ‘‘کے نعرے
پھر سے بلند ہونے لگے ۔یہ سب کچھ استصواب رائے کے جائز اور قانونی موقف کو
غیر اہم اور متروک ٹھہرانے کی کوشش تھی ۔ کشمیر کے لیے یہ کچھ کم مصیبت
نہیں کہ کشمیر کو پاکستان اور اہل کشمیرکے بجائے صدر امریکا کی صوابدید پر
چھوڑ دیا گیا ۔ جنرل مشرف نے امریکہ سے درخواست کی کہ وہ فلسطین اور
اسرائیل کی طرز پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھی اپنا روڈ میپ دے ۔کشمیر سے
ماضی میں امریکہ نے جو سلوک کیا ہے ‘ اس کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ یہی
کہا جا سکتا ہے ……ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟
گیارہ ستمبر کے امریکی سانحے نے ایک سیلاب کی طرح ہماری حکومتوں کے ایمان
‘ارادے اور افغان پالیسی کو ملیا میٹ کر دیا تھا ‘ پھر کشمیر پالیسی اس
طوفان بلاخیز کی زد میں آ گئی ۔ لیکن آج اس ملک کے حقیقی محافظ اور سچے بہی
خواہ اتنے بے بس نہیں رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ حالات پر کنٹرول نہ رہتااور
آزادی کی تحریک فرد واحد کی خواہش پر قربان ہو جاتی ‘ریاست کی جہاندیدہ
قیادت بروئے کار آئی اور اس نے مشرف کے عہد کم ظرف کے فیصلوں کو ماننے سے
انکار کر دیا جس کے نتیجے میں بظاہر آزادی کی چنگاری سلگتی رہی اور ایک
وقفے کے بعد آج شعلہ جوالا بن چکی ہے ۔ سید علی گیلانی اور ان کی ٹیم ایک
طویل آزمائش سے سرخرو ہو کر پھر محو پرواز ہیں ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس بات
کو اچھی طرح از بر کر لیا جائے کشمیری سات دہائیوں سے برسرپیکار ہیں اس کے
پیچھے کوئی وقتی یا جذباتی خواہش کا فرما نہیں ، یہ چند سیاسی کارکنوں کی
سیاست کاری نہیں ۔ اس کے پیچھے ایک نظریاتی اور ہمہ گیر تحریک ہے ۔ بھارت
اگر اس خام خیالی کا شکار ہے کہ وہ اسے چند دنوں یا چند برسوں میں کنٹرول
کر لے گا تو اس تحریک کا تسلسل دیکھ کر یہ غلط فہمی ہمیشہ کے لیے ختم ہو
جانی چاہیے۔ تین نسلیں دیکھتے دیکھتے اس تحریک کے راستے میں قربان ہو چکی
ہیں ۔ ۱۹۴۷ء سے اب تک چھ لاکھ انسان محض اس لیے قربان نہیں ہوئے کہ وہ
بھارتی وعدے پاکستانی دعوے کی لاج رکھیں گے۔ یہ خالصتاً سوچی سمجھی اور دل
کی گہرائیوں سے اٹھنے والی تحریک ہے ۔ بھارت توپ و تفنگ استعمال کر چکا ۔اتنی
جانوں سے زائد اور کتنی جانیں لے سکتا ہے ؟ جن دلوں میں بھارت کے لیے نفرت
بیٹھ چکی ہو وہ دل کسی وقتی Remadyسے کیسے گھائل ہو سکتے ہیں ۔ بھارت کے
لیے سیکھنے کا سبق ہے۔
پاکستان کے ارباب بست و کشاد کو بھی اب کی بار یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ
ماضی کی طرح اب کی بار اہل کشمیر کی مرضی کے بغیر کوئی نیا ’’ فارمولہ ‘‘
یا ’’ حل ‘‘ ٹھونسنے کی کوشش کی گئی تو جموں وکشمیر سے محبت و عقیدت کے
پھولوں کے ساتھ گل دان بھی مل سکتے ہیں ۔ پاکستانی پرچموں کے سائے میں
بندوقوں کے ساتھ ان کے نعرے توجہ سے سننے کا وقت ہے ۔ ’’ ہم پاکستانی ہیں
پاکستان ہمارا ہے۔‘‘ |