ممبران کی تعیناتی اور دھاندلی کی پلاننگ
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
پاکستان کی اس وقت آبادی تقریباً 20کروڑ
ہوگی جس میں پرانی لسٹ کے مطابق رجسٹرڈ ووٹ ساڑھے آٹھ کروڑ ہیں۔ مزہ کی بات
یہ ہے کہ جمہوریت کی بات کرنے والے اور اپنے آپ کو عوامی نمائندہ کہنے والے
سیاستدان الیکشن کے دن ووٹر ز کو نکالنے اور سرتوڑ کوشش کے باوجود تین کروڑ
کے قریب لوگ ووٹ کا استعمال کرتے ہیں۔2013میں عمران خان کی بھر پور مہم کے
باوجودساڑھے آٹھ کروڑ ووٹرز میں سے پچاس فی صد کے لگ بھگ لوگوں نے ووٹ ڈالے
جو ہمارے تاریخ میں پہلی دفعہ الیکشن میں ٹرن آوٹ زیادہ رہا یعنی اس کا
مطلب یہ ہوا کہ بیس کروڑ آبادی کے ملک میں ساڑھے آٹھ کروڑ ووٹر ہونے کے
باوجود سواچارکروڑ لوگ ووٹ ڈالنے کیلئے گھروں سے باہر نکلے اور جمہوری نظام
پر اعتبار کرکے ووٹ کاسٹ کیا۔یہاں میں اپناذاتی تجربہ بیان کرتاہوں کہ2013
الیکشن سے پہلے میں اپنے گاؤں میں جاننے والوں سے ملا جن کی عمریں 60 اور
70سال سے زیادہ تھی ان سے سیاسی صورت حال پر بات چیت ہوتی رہی لیکن آٹھ دس
بندوں میں سے سب کی رائے تقریباً یہی تھی کہ الیکشن میں ووٹ ڈالنا وقت کا
ضائع ہے ،یہاں الیکشن نہیں سلیکشن کی جاتی ہے ۔ووٹرز کی کوئی اہمیت نہیں
ہے۔گاؤں کے بڑوں نے سندھ ، بلوچستان اور پنجاب میں وقت گزارنے اور وہاں
الیکشن کا حال سنایا لیکن میں باضد تھا کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا ، اب میڈیا
کا دور ہے ،عوام میں شعور آیاہے، سیاسی جماعتیں بھی چاہتی ہے کہ الیکشن
شفاف ہوں جبکہ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ بھی اس کوشش میں ہے کہ انتخابات
میں کسی قسم کی دھاندلی نہ ہوجائے۔کہتے ہیں کہ تجربے کا کوئی نعم البدل بدل
نہیں ہوتا ،میرے لاکھ دلائل کے باوجودگاؤں کے مشران مجھے سے متفق نہ ہوئے
اور کہا کہ الیکشن کے بعد دیکھناکہ الیکشن ہوئے یا سلیکشن ۔بحر کیف الیکشن
ہوگئے اس کے بعد معلوم ہوا کہ یہ تاریخ کے سب سے زیادہ دھاندلی شدہ الیکشن
تھے لیکن آج تک کسی کو سزا ہوئی نہ پوچھ گچھ کہ دوسرے کئی بے ضابطگیوں کے
باوجود بنیادی چیزیں بھی آج تک ریکارڈ پر نہیں ہے یعنی فارم 15اور16جس میں
یہ تفصیلات درج ہوتی ہے کہ اس پولنگ اسٹیشن میں اتنے لوگوں نے ووٹ ڈالے اور
فلاں فلاں جماعت کے نمائندوں نے اتنے ووٹ لیے ہیں جس پر سیاسی جماعت کے
ممبران سمیت پولنگ اسٹیشن افسروں کے دستخط ہوتے ہیں جو ضلعی الیکشن آفس
پہنچایا جاتا ہے جس کودیکھ کرتمام حلقے کا رزلٹ اناؤ نس کیا جاتا ہے لیکن
پنجاب اور سندھ میں وہ فارم ملے ہی نہیں جبکہ بلوچستان میں پانچ سوووٹوں پر
قومی اسمبلی کے ممبر بن گئے ہیں وہاں تو براہ راست سلیکشن ہوالیکن ان تمام
غلطیوں ، کوتاہیوں ، جعلی ووٹوں کے باوجود جس کو دھاندلی پر بنائی گئی
کمیشن نے نشاندہی کی لیکن کہا یہ کیا کہ سسٹم کو چلنا چاہیے ۔بالکل صحیح
بات ہے کہ سسٹم کو چلنا چاہیے ، جمہوریت بھی قائم ہونی چاہیے ، جمہوری نظام
ہی ملک کیلئے بہتر ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ جمہوری نظام ہے جس میں
الیکشن نہیں سلیکشن کی جاتی ہے جس میں ووٹ خریدے جاتے ہیں جس میں عام آدمی
کبھی آگے نہیں آسکتا جس میں صرف وہ لوگ کامیاب ہوتے ہیں جن کے پاس دولت ،
وسائل ، اثرو رسوخ ہوں جو کرپٹ ہو جواپنے کالے دھن کو سفید کرنے کیلئے
جمہوریت کا علمبردار بنتا ہے ،جواپنی بلیک منی کو ووٹرز کی خریداری سے لے
کر الیکشن کمیشن نمائندوں اور جعلی ووٹوں کے با کس خرید تا ہے۔پھر کہہ جاتا
ہے کہ یہ عوام کے نمائندے ہیں عوام نے تو پہلے سے ووٹ نہ دیکر ان کو ری
جیکٹ کر دیا ہے اور اس نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے کہ درج شدہ
ووٹر لسٹ میں سے آدھے سے زیادہ لوگ ووٹ ہی نہیں ڈالتے ہیں جو کسی بھی
جمہوری ملک میں نہیں ہوتا ہے ، ہم سے تو افغانستان کی حکومت اورسسٹم بھی
بہتر ہے کہ ایک مخصوص ووٹ کا شرح مقرر کردیا ہے جس کولینا ضرور ہے اس کے
بغیر انتخابات دوبارہ ہوں گے۔ یہاں پر سالوں سال سے انتخابات ہونے کے
باوجود آج تک الیکشن کمیشن کو اثرورسوخ سے پاک کرنے اور شفاف انتخابات
کرانے کے لئے کوئی نظام نہیں بنایا گیا ہے،آج بھی الیکشن کمیشن میں ممبران
کی تعیناتی حکومت اور اپوزیشن جماعت کرتی ہے یعنی اب نون لیگ اور پیپلز
پارٹی نے مل کر ممبران کو منتخب کیا جو الیکشن کرائیں گے۔اپنے اپنے شعبوں
سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد اب یہ الیکشن کرائیں گے یعنی چلے ہوئے کارتوس پھر
سے استعمال کیے جائیں گے ۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ تین سال گزرنے کے باوجود وہی
سسٹم موجود ہے جس نے 2013میں الیکشن کرائے تھے جس پرآج تک اعتراضات لگائے
جارہے ہیں جس کی بے اختیاری اور حکومت کے سامنے کوئی اوقات ہی نہیں جس
کمیشن نے سال ڈیڑھ سال پہلے بلدیاتی انتخابات کرائیں تھے جو آج تک مکمل
نہیں ہوئے جس میں آج تک پنجاب اور سندھ میں نمائندوں کو اختیارات نہیں دیے
گئے ، یہی کمیشن آئندہ عام انتخابات کرائے گا۔سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے
کہ ملک میں بائیومیٹرک سسٹم لانے اور جدید نظام کو اپنانے کے وعدے اور
ارادے بھی ختم ہوئے کہ جس سے شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن بنا نا تھا۔
سیاسی جماعتوں اور حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے کہ الیکشن کمیشن کو مضبوط او
ر بااختیار بنانے اور جدید نظام کو لانے کیلئے کام کریں تاکہ آنے والا
الیکشن کم ازکم شفاف ہو جس میں سلیکشن کی بجائے انتخاب ہوجائے اور یہ تب ہی
ممکن ہے جب حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتیں ملک میں الیکشن کمیشن کے نظام کو
بہتر بنانے کیلئے سنجیدہ ہوجس میں عام آدمی بھی منتخب ہونے کی صلاحیت رکھتا
ہو ،جس میں ووٹ ڈالنے کیلئے موبائل ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے
۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اورسیاسی جماعتیں پانچ سال بعد وہی رونا روتے
ہیں یا الیکشن کمیشن کو با اختیار بناتے ہیں جس پر عام آدمی کا اعتبار قائم
ہوجائے جس میں عام آدمی ووٹ ڈالے جس میں عام آدمی کی سوچ یہ ہو کہ میرا ووٹ
درست استعمال ہوااورمیں ہمیشہ ووٹ ڈالوں گا اور دوسروں کو بھی ووٹ ڈالنے پر
قائل کروں گا لیکن یہ تب ممکن ہوگا کہ جب الیکشن کمیشن جدید تقاضوں کے
مطابق ، آزاد اور خودمختار ہوگا۔ |
|