بھارتی آبی جارحیت اور عالمی ثالثی عدالت

بھارتی آبی جارحیت کے خلاف پاکستان کی طرف سے عالمی ثالثی عدالت میں جانے کا عندیہ بار بار دیا جاتا ہے تاہم عملاً تاخیر در تاخیر دیکھنے میں آ رہی ہے جو کہ دشمن کے عزائم اور مقاصد کو تقویت پہنچانے کے مترادف ہے۔ ماضی میں بھی بھارتی غیر قانونی ڈیموں کے خلاف پاکستان نے عالمی ثالثی عدالت میں بروقت اور بھرپور تیاری سے جانے میں مجرمانہ تاخیر کی۔ ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر میں کشن گنگا ڈیم ریٹل ہائیڈرو پاور پراجیکٹس پر پاکستانی اعتراضات کو بھارت کی طرف سے مسلسل نظرانداز کرنے کے بعد پاکستان نے عالمی بنک سے مداخلت اور عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
 
کیونکہ اخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا بھارت نے کشن گنگا اور پانی و بجلی کے دیگر منصوبوں پر پاکستانی اعتراضات دور کرنے کی بجائے اڑھائی سال تک وقت کا ضیاع کیا اور یوں مذاکرات عملاً مذاق رات بن گئے۔کشن گنگا اور ریٹل پن بجلی منصوبوں پر پاک بھارت بات چیت ناکام ہونے کے بعد پاکستان نے عالمی ثالثی عدالت جانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ۔وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف کے مطابق بھارت کے ساتھ کشن گنگا اور ریٹل بجلی منصوبوں پر اڑھائی سال مذاکرات کیے مگر معاملے پر سمجھوتہ نہ ہوسکا جس کی وجہ سے عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کے تحت کشن گنگا اور ریٹل منصوبوں پر مذاکرات کی پیش کش کی تھی جس کے بعد سیکرٹری پانی و بجلی یونس ڈھاگہ کی سربراہی میں 8رکنی وفد بھارت میں مذاکرات کے لیے گیا مگر مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے اور بھارت نئی دہلی مذاکرات میں پاکستان کے تحفظات دور نہ کرسکا۔ واضح رہے کہ پاکستان نے متنازع کشن گنگا ڈیم کی تعمیر پر اعتراض کیا تھا کہ بھارت کا اس ڈیم پر 323 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ ہے جس سے پاکستان میں زیر تعمیر 969 میگاواٹ کا نیلم جہلم پن بجلی کا منصوبہ بُری طرح متاثر ہوگا۔

بھارتی آبی جارحیت کے خلاف اعتراضات اٹھانے ہوں یا قانونی اقدامات کرنے پاکستان کی طرف سے ہمیشہ دیر کردیتا ہوں کا رویہ سامنے آتا ہے جو کہ بذات خود ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ تاہم بھارتی آبی جارحیت کے خلاف بعد از خرابی بسیار پاکستان نے عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اگرچہ وزارت پانی و بجلی اور اٹارنی جنرل پاکستان کی زیر سربراہی قانونی ماہرین کے درمیان اندرونی بحث مباحثہ کے باعث تاخیر ہو چکی ہے، اس بحث میں ماہرین قانون کا موقف ہے کہ یک رکنی غیر جانبدار ماہر کا تقرر بڑا خطرہ ہے۔ ان کی دلیل ہے کہ گلہیار ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے تنازع میں سوئس انجینئر پروفیسر ریمنڈ لیفیٹ کو عالمی بنک نے غیر جانبدار ماہر مقرر کیا تھا جنہوں نے بیشتر فیصلہ بھارت کے حق میں دیا اور سندھ طاس معاہدے کی شقیں لاتعلق کردی تھیں۔ یک رکنی غیر جانبدار ماہر کو دباؤ میں لایاجاسکتا ہے۔ ماہرین قانون کا موقف ہے کہ ثالثی عدالت عام طور پر سات ججوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ تنازع کا کوئی بھی فریق ان پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ پاکستان کے لئے بھارت کے خلاف ثالثی عدالت جانا بہتر ہوگا ۔ وزارت پانی و بجلی کے اعلیٰ حکام کا موقف ہے کہ غیر جانبدار ماہر سے رجوع کرنا زیادہ مناسب ہوگا کیونکہ پاکستان سندھ طاس معاہدے (انڈس واٹر ٹریٹی) کے پرویژن کا بندوبست کرچکا ہے چنانچہ غیر جانبدار ماہر فیصلہ دیتے ہوئے معاہدے سے باہر نہیں جاسکتا تاہم افسران کے مطابق غیر جانبدار ماہر یا ثالثی عدالت جانے کا فیصلہ بہت جلد کرلیا جائے گا کیونکہ پاکستان مزید تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ سندھ طاس معاہدے کے پاکستانی کمشنر مرزا آصف بیگ کے مطابق پاکستان ثالثی عدالت یا غیر جانبدار ماہر سے رجوع کرنے کے حوالے سے ابھی ذہنی تیاری کے عمل میں ہے۔ پاکستان نے دریائے چناب اور دریائے جہلم پر کشن گنگا اور ریٹل ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کی جاری تعمیر سے اپنے پانی کے مفادات کو بچانے کے حوالے سے بھارت کو متفقہ غیر جانبدار ماہر مقرر کرنے کی پیشکش کی تھی مگر نئی دہلی نے طے شدہ مدت میں اس کا جواب نہیں دیا جس کے باعث اسلام آباد نے بھارت کے خلاف بین الاقوامی پلیٹ فارم پر قانونی جنگ شروع کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔ نواز حکومت اس قانونی لڑائی کو جیتنے کا پختہ عزم کرچکی ہے جس کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ اس نے اپنا مقدمہ شاندار طور پر لڑنے کے لئے دو امریکی لاء فرمز کے کنسوریشم کی خدمات حاصل کی ہیں جس میں تھری کراونز اور ولیمز کونلے شامل ہیں۔ دونوں فرمز امریکا کی معروف لابست ہیں۔ کمشنر انڈس واٹر مرزا آصف بیگ کے مطابق ہم بھارت کے ساتھ کشن گنگا اور ریٹل ہائیڈرو پراجیکٹس کے ناقص ڈیزائن کے مسئلے کو بھارت کے ساتھ حل کرنے کی ناکام کوششوں سے تھک چکے ہیں اب اگلا مرحلہ غیر جانبدار ماہر یا ثالثی عدالت جانے کا ہی رہ گیا ہے۔ اگر بھارت دریائے چناب پر اعتراض کردہ ڈیزائن کے مطابق ریٹل ہائیڈرو پاور پراجیکٹ تعمیر کرلیا ہے تو ہیڈ مرالہ پر دریائے چناب کے بہاؤ میں 40فیصد تک کمی ہو جائے گی جو پاکستان کے وسطی پنجاب کی آب پاشی کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگا۔ ان منصوبوں سے بجلی تیار کرکے انڈیا کے نیشنل گرڈ میں شامل کی جائے گی پھر پاکستان کو فروخت کی جائے گی۔

دوسری طرف ماہر ماحولیات ڈاکٹر پرویز امیر کے مطابق پاکستان کو اس بات پر بھی تحفظات ہیں کہ بھارت نے وسیع پیمانے پر زیرزمین کا سروے مکمل کرلیا ہے اور اس کے لیے وہ جرمن جیو ہیلی بورن(ہیلی کاپٹر)ٹیکنالوجی استعمال کررہا ہے، جو بہت زیادہ گہرائی تقریبا 1000 نیچے زیرزمین موجود پانی کا بھی سراغ لگا دیتی ہے۔

پاکستان اس حوالے سے انتہائی خدشات کا شکار ہے۔ سرحدپار تعلقات بہتر رکھنے اور شکوک و شبہات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ بھارت ہمارے ساتھ مکمل ڈیٹا اور تمام اعدادوشمار کا تبادلہ کرے تاکہ صورت حال واضح ہو اور بداعتمادی کی فضا ختم ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ مشورہ بھی دیا کہ دونوں جانب کے سائنس داں ایک دوسرے ممالک کا دورہ کریں اور صورت حال کا جائزہ لیں۔پاکستانی وفد کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ چوں کہ ہمارے صحرا پہلے ہی بہت زیادہ ماحولیاتی شکستگی کا شکار ہیں۔ اس لیے اس حوالے سے ضروری ہیں کہ زیرزمین پانی کے استعمال کے لیے کوئی قانون یا قواعد وضح کیے جاسکیں یا پھر دونوں ممالک کے مابین پہلے سے موجود سندھ طاس معاہدہ(Indus Water Treary- IWT) کے تحت اس کا احاطہ کیا جائے۔
Shumaila Javed Bhatti
About the Author: Shumaila Javed Bhatti Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.