جشن آزادی کی اصل روح

 14،اگست جشن آزادی پاکستان کی تاریخ میں سب سے اہمیت کا حامل دن ،جوں جوں جشن آزادی کا دن قریب آرہا ہے پاکستان کے چپے چپے میں خوشی کا سا سماں ہے ہر جانب گہماگہمی ہے ۔ اس حوالے سے لگائے گئے بے شمار خصوصی اسٹالوں پر سے مشہور زمانہ قومی گیتوں کے مد ھر سروں سے لہو کو گرما یا جارہا ہے ،بچے،بوڑھے،جوان، خواتین ہر کوئی ان ہریالے اسٹالوں سے پاکستانی جھنڈے،اسٹیکرز اور بیجز خریدنے میں پہل کرتے نظر آرہے ہیں ہر شخص پاکستان کے خوبصورت جھنڈے نما بیجز کو اپنے دل کیساتھ چسپاں کر کے پاکستان کو من سے تسلیم کرنے کا عہد کرتا ہوا نظر آتا ہے ،رنگساز سبز رنگ کے دوپٹے رنگ رہے ہیں ،درزیوں کی سلائی مشینیں ہرے رنگ کے سوٹ سِل رہی ہیں ،تمام پاکستانی ٹی وی چینلز پر سبز رنگ کے لوگو ز نظر آرہے ہر در ،ہر دیوار، ہر دل پاکستانی نظر آرہا ہے بے انتہا خوشگوار ماحول ہے لیکن میرا دل اس وقت ڈوبتا چلا گیا جب ایک اسٹال پر ایک معصوم بچے نے اپنے والدسے سوال کیا کہ "باباہم جشن آزادی کیوں مناتے ہیں؟ـاس بچے کے والدنے جواب دیا" بیٹاآج پاکستان بنا تھاـ" معصوم بچے نے اپنے باباپر سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ پاکستان کیوں بنا۔کیسے بنا۔کسطرح بنا ۔کس نے بنایا ۔ بچے کے مسلسل سوالات پر اُسکے والد نے چند سوالات کے جواب تو دئیے لیکن بعد میں جھنجلا کر انھوں نے کہاـ"․ بس بیٹا ہم جشن آزادی یوں ہی مناتے ہیں"

معصوم سوالا ت کے اس جواب کے ساتھ ہی ہماری تمام خوشی اور خوشگواری کا احساس کافور ہوگیا ہم کبھی اُس بچے کو دیکھ رہے تھے تو کبھی اس کے والد کو اور اس کے ساتھ ہی ہمارے ذہن کے دریچوں میں تاریخ کے وہ اوراق کھل کر سامنے آگئے جو خون کے آنسوؤں سے لکھے گئے تھے آج مورخہ 14،اگست 1947کو امرتسر میں ہزاروں مہا جرین کے سرسکھ بلوائیوں نے ان کے جسم سے جُداکر دئیے تھے ۔سینکڑوں خواتین کی بیدردی سے عصمت دری کر کے شہید کردیا گیا تھا ۔ بچوں کی لاشوں کو تلواروں اور کرپالوں پہ اچھالا گیا تھا۔بے یارو مدد گار آزادی کے متوالوں کے قافلوں کو بلوائیوں نے تہہ و تیغ کر دیا تھا ۔ کیا ہم نے آزادی کے اُن لاکھوں متوالوں کے لہو کو خاک میں نہیں ملا دیا۔کیا ہم نے آگ کا دریا پار کرنے والوں کی عصمت کی پامالی کو از سر نو پامال نہیں کردیا۔ کیا ہم نے آج کے بچوں کو یہ بتایا کہ جشن آزادی کا دن تم جیسے معصوم بچوں کے لہو سے سینچا گیا ہے ؟کیا اس پرچم کے سائے تلے رہنے والوں کو یہ علم ہے کہ اس پرچم کا خالق کون ہے؟ قومی ترانے کے خالق کا نام کیا ہے ؟ مانا کہ ہم جشن آزادی بڑے جوش وخروش سے مناتے ہیں لیکن اگر ہم اس کی اصل روح سے ہی عاری ہوں تو کیا ایسا نہیں لگتا کہ ہم آزادی کی اصل روح کو مجروح کر رہے ہیں۔کیا ایسا نہیں لگتا کہ ہم تصنع اور بناوٹ کو فروغ دے رہے ہیں ؟اگر آزادی کا مطلب سمجھنا ہے تو کشمیر اورفلسطین کی جانب دیکھیں ،اُن سے پوچھیں کہ آزادی کیا ہوتی ہے تو آزادی کا مطلب واضح ہوجائے گا جہاں موت کی حیثیت ثانوی رہ گئی ہے جہاں زندگی ہر روز موت کو گلے لگاتی ہے ۔لیکن افسوس کہ ہم کچھ سیکھنے کے لئے تیار نہیں ہیں ہم ہر چیز کو مصنوعی انداز میں دیکھنے کے عادی ہیں ہم نے آدھا پاکستان کھو دیا لیکن کوئی سبق نہیں سیکھا ۔دو قومی نظرئیے کی بنیاد پربننے والا پاکستان اب IMFکے نظرئیے کے تحت مصنوعی سانس پر زندہ ہے اغیار کی غلامی نے ہمیں تاریکیوں کے سوا کچھ نہیں دیا ہے۔دُنیا کے تمام ممالک اپنے آزادی کے کارکنان کی محنت اور شہد اؤں کے خون کو اس طرح رائیگاں نہیں ہونے دیتے اپنی آنے والی نسلوں کو سیمیناروں اورمیڈیاکی مدد سے اُن آزادی کے متوالو ں کو بھرپور انداز سے خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔کیا ہم نے جشن آزادی کے موقع پر کبھی اُن راہ حق کے شہیدوں کو یاد کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج معصوم بچے ہم سے سوال کر رہے ہیں کہ ہم جشن آزادی کیوں مناتے ہیں؟مسلمانان برصغیر کی عظیم جدوجہدلاکھوں جانوں کی قربانیوں کا ثمر پاکستان آج ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اگر ہمیں اس کا وجود برقرار رکھنا ہے اور اپنے آنے والوں کوایک روشن پاکستان دے کرجانا ہے تو عدل وانصاف،مساوات،معاشی استحکام،اور پاکستان کی خودمختاری کو فروغ دینا ہوگا،لسانیت،فرقہ واریت ،بیروزگاری اور طبقاتی نظام کا خاتمہ کرنا ہوگا ، ہر سال جشن آزادی کے موقع پر شہداؤں کو، آزادی کے حصول کی جدو جہد میں شامل ہونے والوں رہنماؤں کو ،ہر اُس شخص کو جس نے اس تحریک میں حصہ لیا اُنہیں زبردست خراج تحسین پیش کرنا ہوگا تاکہ آنے والی نسلوں کو یہ احساس ہو سکے کہ ہم نے یہ آزادی آگ اور خون کے دریا کو عبور کر کے حاصل کی ہے بچوں میں ویساہی ولولہ اور شعور بیدار کرنا ہوگا جو آزادی کی تحریک میں شامل ہونے والے اور جانثاروں میں تھا تاکہ وہ بھی انھی اوصاف کے مالک بن سکیں ، اُن کے دل میں بھی اپنے وطن کی محبت اجاگر ہواوران کی نظر میں وطن عزیز کی قدرو قیمت میں اضافہ ہو ۔آزادی کے جشن کو اس کی اصل حقیقت کے مطابق منایا جائے بس یوں ہی کا جشن بے سود اور بے معنی ہے۔
Sheikh Muhammad Hashim
About the Author: Sheikh Muhammad Hashim Read More Articles by Sheikh Muhammad Hashim: 77 Articles with 97468 views Ex Deputy Manager Of Pakistan Steel Mill & social activist
.. View More