یقیناً بڑی خدمت کی ہے ہم نے افغان مہاجرین
کی۔ لگ بھگ چار دہائیوں تک ہم نے ان کی میزبانی کی۔ جن کا افغانوں کو احساس
بھی ہے اور وہ ہمارے احسان مند بھی ہے لیکن کیا ہم اس وقت ان کے ساتھ جو
کچھ کررہے ہیں اور جو رویہ حکومت نے اپنا رکھا ہے وہ مبنی بر انصاف بھی ہے
اور کیا وطن عزیز کو اس سے کوئی فائدہ بھی حاصل ہوسکتا ہے؟ میں سمجھتا ہوں
کہ ہرگز نہیں۔ بلکہ اس وقت ہماری حکومت نے افغان مہاجرین کے حوالے سے جو
رویہ اپنا رکھا ہے وہ وطن عزیز پاکستان کے لیے سوائے گھاٹے کی سودے کے اور
کچھ نہیں ۔ اگر حکومت نے صورت حال کا بروقت ادراک نا کیا تو پھر ہمیں تا
دیر اس کا خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے کئی بڑے واقعات کے
تانے بانے افغانستان جاکے ملتے ہیں۔ جس پر ہماری حکومت اور ملکی دفاع کے
ضامن ادارے افغانستان سے بارہا احتجاج بھی کرچکے ہیں لیکن تاحال افغانستان
نے ایسا کوئی قد م نہیں اٹھایا کہ جس سے پاکستان مطمئن ہوسکے۔ سچ یہ بھی ہے
کہ پاکستان میں مقیم بعض افغان مہاجرین غیر قانونی، غیر اخلاقی اور تخریبی
کارروائیوں میں بھی ملوث ہیں۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا افغانستان کی
موجودہ حکومت یا اس سے پہلے کرزائی حکومت کو ہم افغان عام کا نمائندہ حکومت
کہے سکتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ بالکل بھی نہیں بلکہ سچ یہ ہے اشرف غنی ہو
یا اس سے پہلے حامد کرزائی دونوں کی حیثیت امریکی کارندوں سے بڑھ کر نہیں
ہے۔
اب افغانوں کی نظر میں امریکہ اور اس کے حواریوں کی حیثیت کیا ہے؟ اس کا
اندازہ ہم ایک عام افغان باشندے کی دل میں امریکہ کے خلاف مزاحمت کرنے والی
قوت یعنی طالبان سے محبت دیکھ کر لگا سکتے ہیں۔ یہ عام افغانوں کی امریکہ
اور اس کے زیر انتظام چلنے والی حکومت سے نفرت و عداوت ہی تو ہے کہ آج کابل
جیسے ہائی سیکیورٹی زون بھی مزاحمتی قوتوں کے حملوں سے محفوظ نہیں۔ اسی لیے
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آج اگر افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف منصوبے
بنانے والوں کو وہاں کی حکومت کا آشیرباد حاصل ہے تو اس میں ایک عام افغانی
کا کوئی عمل دخل یا کردار نہیں۔ یہ اس گریٹ گیم کا حصہ ہے کہ جس کے رو سے
پاکستان کو دیوار سے لگا کر خطے میں بھارتی بالادستی کو یقینی بنایا گیا۔ــ’’
اس بات کو بہتر اندازمیں سمجھنے کے لیے امریکی سرپرستی میں بننے والا انڈیا،
افغانستان اور ایران کا غیر اعلانیہ اتحادکا مطالعہ قارئین کو ضرور کرنا
چاہیے‘‘ لہٰذا جب بھی افغانستان میں حقیقی عوامی نمائندہ حکومت بنے گی تو
پھر ہم دیکھیں گے کہ نہ تو افغان سر زمین پر پاکستان کے خلاف کوئی منصوبہ
تیار ہوگا اور نا ہی وہاں سے کوئی پاکستان پر حملہ آور ہوگا۔
جہاں تک سوال ہے افغان مہاجرین کی تخریبی سرگرمیوں کا تو تقریباً چار
دہائیوں سے پاکستان میں رہائش پذیر لاکھوں افغان مہاجرین میں سے بعض کیوں
غیر قانونی سرگرمیوں کی جانب مائل ہوئے؟ کیا ہم نے کبھی اس پر غور بھی کیا
ہے۔ اگر غور کیا بھی ہے تو کیا افغان مہاجرین کو بے دخل کردینے کے سوا اس
مسئلے کا کوئی اور حل سامنے نہیں آیا؟ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا پچیس ،
تیس لاکھ مہاجرین سب کے سب دہشت گردوں کے پشتیبان بنے رہے؟ اگر جواب ہاں
میں ہے تو ایک اور سوال یہاں یہ بھی اٹھتا ہے کہ ہماری حکومت اور ہمارے
ادارے کیا کررہے تھے اور اگر جواب نا میں ہے تو پھر یہ کونسا انصاف ہے کہ
آپ ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکتے جائیں۔ کیا اس بات کا کوئی جواز ہے کہ جرم
کوئی ایک فرد یا گروہ کریں اور اس کا نزلہ سب پر گرادیا جائے۔ بات یہ ہے جو
بھی افغان مہاجر کسی جرم میں ملوث ہے تو اسے الٹا لٹکایا جائے لیکن جو بے
قصور ہیں ان کو اس وقت تک عزت و احترام سے یہاں رہنے دیا جائے جب تک ان کے
ملک سے غیر ملکی افواج نکل نہ جائے۔
نہ جانے حکومت وقت چار دہائیوں پر محیط اپنی محنت اور قربانیوں کو یک د م
سمندر برد کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔ــ’’ حالانکہ اب افغانوں کو ان کی
قربانیوں کا صلہ ملنے والا ہے اور ہمیں چند سال ہی اور ان کے میزبانی کرنی
پڑے گی،، یاد رکھیں !یہ وقت پاکستان کے لیے نہایت نازک بھی ہے اور اہمیت کا
حامل بھی۔ اس وقت وطن عزیز ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں ایک درست فیصلہ
ہمیں ایشیا کا ٹائیگر بناسکتا ہے لیکن دوسری جانب ایک چھوٹی سی غلطی ہمیں
نہ صرف خطے میں تنہا کرسکتی ہے بلکہ مسائل کے ایسے دلدل میں پھنسا بھی سکتی
ہے کہ جس سے نکلنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا۔ اب ہوش اور دانش
مندی کا فیصلہ یہی ہے کہ ہم افغان مہاجرین کے ساتھ روارکھے جانے والے حالیہ
سلوک سے باز آجائیں۔ ان کو بھرپور عزت دی جائے۔ انہیں یہ باور کرایا جائے
کہ پاکستان ہی افغانستان کا حقیقی خیر خواہ ہے جبکہ ہندوستان کی مثال ایک
اجنبی جیسی ہے جن کا مقصد صرف اور صرف اپنا مفاد دیکھنا اور پاکستان کو غیر
مستحکم کرنا ہے۔ افغان مہاجرین کی ذہن سازی کرکے انہیں یہ بھی بتایا جائے
کہ اگر بھارت افغانستان کو استعمال کرکے پاکستان میں مداخلت کرتا رہا تو
پھر امن افغانستان کے لیے بھی ایک خواب بن جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ
پاکستان کو افغانستان میں ایک ایسی حکومت کے قیام کے لیے بھر پور کوشش کرنی
چاہیے جو افغان عوام کی حقیقی نمائندہ ہو۔ لیکن اگر پاکستان نے اپنا
کوموجودہ روش برقرار رکھا اور پچیس لاکھ افغان مہاجرین کو زبردستی بے دخل
کردیا تو پھر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ انڈیا ایسے ہی موقع کے تاک میں بیٹھا
ہوا ہے۔ وہ جب دیکھے گا کہ لاکھوں مہاجرین کو ایک دم سے سنبھالنا افغان
حکومت کے بس سے باہر ہے۔ تو وہ افغانستان کو اپنا ہرممکن تعاون کا یقین
دلائے گا۔ وہ ایک طرف واپس جانے والے افغانوں سے ہمدردی جتا کر انہیں یہ
باور کرائے گا کہ پاکستان نے مشکل وقت میں آپ کو دربدر کرکے دشمنی کا ثبوت
دیا ہے جبکہ ہم آپ کے حقیقی دوست اور ہمدرد ہے۔
دوسری جانب انڈیا افغانستان میں موجود اپنے تربیت یافتہ اہلکاروں کے ذریعے
افغانوں کے ذہنوں کو پاکستان سے متنفر کرنے کی پوری کوشش کرے گا اور
پھرافغان سرزمین پر بیٹھ کر ہمارے خلاف منصوبے بنائے گا۔ جس کے بعد ہم
اندازہ کرسکتے ہیں کہ امریکہ، انڈیا، افغانستان اور ایران کے گٹھ جوڑ کا
ہمارے اوپر کیا تباہ کن اثرات پڑ سکتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب پاکستان
کا معاشی نقشہ بدل دینے والے منصوبے پاک چائنہ اقتصادی راہداری پر ابتدائی
کام شروع ہوچکا ہے اور ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ اور ہندوستان اس
منصوبے کی مخالفت میں پیش پیش ہے۔ ایسے میں خطے میں امریکی اور بالخصوص
بھارتی اثرات کم کرنے کے لیے پاکستان کو دوستوں کی تعداد بڑھانی ہوگی
کیونکہ جب دوست بڑھیں گے تو دشمنوں کا حوصلہ خود ہی ٹوٹے گا۔ لیکن اگر ہم
نے اپنے پچیس لاکھ دوستوں کودشمن تصور کرکے سرحد کے اس پار دھکیل دیاتو پھر
یاد رکھیں کہ انڈیا انہیں دوست بنانے کے لیے تیار بیٹھا ہے اور جب دوست
دشمن بن جائے تو پھر اس کے کیا اثرات نکل سکتے ہیں اس کے تصور ہی سے روح
کانپ اٹھتی ہے۔
|