میرا پاکستان کیسا ہو ؟

میرا پاکستان کیسا ہو ؟ ہر ایک پاکستانی اپنے ملک کے لیے سوچتا ہے کہ اس کا ملک کیسا ہو ، موجودہ حالات کیسے بہتر ہوں ؟ یہی سوال میرے ذہن میں بھی اکثر گونجا کرتا ہے ۔ اس سوال کا جواب اگر تلاشنے نکلیں تو کچھ مشکل نہیں کہ جواب خود سے مل جائے ۔ میری یہ خواہش ہے کہ میرا پاکستان ایسا ہو جہاں کسی قسم کی دہشت گردی کا سایہ نہ ہو ، جہاں کوئی بچہ بھوک سے جان نہ دے ، جہاں کسی عورت کو معاشی کمزور ی کی وجہ سے قندیل بلوچ نہ بننا پڑے ،جہاں کوئی بھوک کے ہاتھوں تنگ ہو کر خودکشی نہ کرے، جہاں کسی غریب بچے کو کچرے کے ڈھیر سے روٹی کے ٹکڑے نہ چننے پڑیں ، جہاں بھیک دینے والے تو ملیں لیکن بھیک لینے والے نہ ملیں، جہاں تاوان کی غرض سے کسی کو اغواء نہ کیا جائے لیکن آخر یہ سب کچھ کیونکر ممکن ہو ؟یہ سبھی کچھ ممکن ہے اگر معاشرے کا صرف دو فی صد حصہ سدھر جائے اور اس دو فی صد میں سے بھی صرف حکمران ہی کسی حد کے ملکی مفاد کے مطابق فیصلے کرنے لگیں تو معاملات بہت حد تک بدل سکتے ہیں ۔

پاکستان کو اﷲ نے ہر نعمت سے نوازا ہے چاہے وہ زمینی وسائل ہوں یا انسانی۔انسانی وسائل کا استعمال اس وقت احسن انداز سے ہو سکتا ہے جب قدرتی وسائل کا بہتر استعمال کیا جائے ۔ اگر پاکستان میں موجود زمینی وسائل کو استعمال کر لیا جائے تو ملک کے مختلف حصوں میں چھائی ہوئی غربت کے سائے از خود چھٹنے لگیں گے ۔ اس کی مثال ارض وطن کے پس ماندہ ترین صوبے میں موجود وسائل ہیں ۔ اگر بلوچستان کی سرزمین کا جائزہ لیں تو یہ سرزمین قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ۔اس سرزمین میں بیش بہا قدرتی وسائل جن میں قدرتی گیس ، کاپر اور سونے کے ذخائر ، قیمتی پتھر وسیع پیمانے پر پائے جاتے ہیں ۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال حال ہی میں دریافت ہونے والی ریکوڈک تحصیل چاغی کے مقام پر سونے کی کان کی دریافت ہے ۔اس علاقے کی کل آبادی دو لاکھ ہے جس میں افغان مہاجرین بھی شامل ہیں ۔دو لاکھ کی آبادی والے اس علاقے میں اگرزمین سے قدرتی معدنیات نکالنے کا آغا ز ہو جائے تو اس علاقے کے لوگوں کو روزگار کے مواقعے حاصل ہوں گے اور اگر اس کان سے حاصل ہونے والے سونے کو مقامی طور پر زیوارت میں ڈھالنے کا کام کیا جائے تو اس علاقے کے معاشی حالات میں خاطر خواہ بہتری آسکتی ہے اور ان زیورات کی درآمد سے ملک میں غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا ۔یہ تو صر ف ایک کان ہے اس کے علاوہ اس صوبہ میں قدرتی وسائل کی فراوانی کا یہ عالم ہے کہ یہاں سوئی کے مقام سے حاصل ہونے والی قدرتی گیس کے ذخائز کے علاوہ خام تیل کی موجودگی کے شواہد بھی ملے ہیں۔ بلوچستان ہی میں توت کے مقام پر خام تیل کی موجودگی صرف اور صرف اس کے استعمال کی منتظر ہے اس کے علاوہ کوئٹہ کے قرب و جوار میں سلفر کوئلے کوئلہ کی موجودگی اس علاقے کی قدر وقیمت میں اضافے کا سبب ہے بلوچستان ہی میں کنگری کے مقام پر براؤن کوئلہ جس کو lignite بھی کہا جاتا کے ذخائر بھی دریافت ہوئے ہیں جو کہ 44%-79% تک Humic Acid بنانے کے کام آتا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ کیمیائی کھادوں کی تیاری میں بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ گزشتہ برسوں میں بلوچستان میں تیل اور گیس کی دریافت کا کام روک دیا گیا تھا جس کی حال ہی میں پھر سے اجازت دے دی گئی ہے ۔ ہر ایک تیل کے کنویں سے 800-1200 تک افراد کو روزگار کے مواقع فراہم ہوتے ہیں ۔بلوچستان میں موجود انھی وسائل کی وجہ سے عالمی طاقتوں اور بھارت کی نگاہیں اس صوبے پر ہیں ۔المیہ یہ ہے کہ اس سرزمین کے وسائل کو اول تو استعمال نہیں کیا جاتا اگر استعمال کیا بھی جائے تو اس علاقے کے لوگوں کو ان وسائل سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو تا ۔اس صوبے میں سکول نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم کی عدم موجودگی یہاں کے نوجوان نسل کو ملک کے کسی اور حصے میں بھی روزگار نہیں ملتا ۔اس علاقے کے لوگوں میں احساس ِ محرومی ، غربت اور تنگ دستی کی وجہ سے ہے ۔ یہ غربت اور احساسِ محرومی ہی ہے جس کی وجہ سے اس صوبے میں بغاوت نے جنم لیا ۔

صرف بلوچستان ہی نہیں بلکہ پورا پاکستان انواع و اقسام کے وسائل سے مالا مال ہے ۔ شمالی علاقہ جات اعلی ٰ نسل کے قیمتی پتھروں سے بھرپور ہیں ، پنجاب میں زراعت کا بہترین انتظام موجود ہے ۔سندھ میں بھی کوئلے کے وسیع ذخائر موجود ہیں جو کہ دنیا میں پانچویں بڑے ذخائر ہیں ۔ ان ذخائر کی موجودگی اس امر کے شاہد ہیں کہ پاکستان میں توانائی کے متبادل ذرائع بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔ لیکن ہمارے پاس و ہ جرات مند اور بصیرت قیادت موجود نہیں جو ان ذخائر کی دریافت کے معاملے میں سجیدہ ہو ۔ قدرتی وسائل کی دریافت کے لیے بنائے گئے ادارے بھی ان وسائل کی دریافت کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کر رہے کیونکہ ان اداروں کے اختیارات بھی محدود ہیں ۔ایسا نہیں کہ ہمارے ملک میں وسائل کی کمی ہے بلکہ ہمارے ملک میں وسائل کا استعمال ہی نہیں کیا جا رہا ۔ قدرتی وسائل زمین کے اندر ہی صدیوں سے دفن ہیں ۔ان ذخائر کی دریافت کی جانی چاہیے تاکہ ملک میں جاری توانائی اور بے روزگاری کے بحران پر قابو پایا جا سکے ۔ صرف یہی نہیں ضروری یہ بھی ہے کہ اس صوبے کی زمین سے حاصل ہونے والے آمدنی کو اس صوبے کی ترقی کے لیے بھی استعمال کیا جائے تاکہ اس صوبے کے لوگوں میں موجود احساس ِ محرومی کا خاتمہ ممکن ہو۔اس طرح صوبے اوروفاق کے درمیان موجود خلیج کو بھی کم کیا جاسکتا ہے ۔

اس کے علاوہ سندھ میں گھارو کے مقام پر ہوا کی رفتار اور اس کی سمت اس نوعیت کی ہے جو قدرتی طور پر پون چکی کے لیے نہایت مناسب ہے ۔ صرف ایک بارگھارو کے علاقے میں اگر پون چکیاں لگا دی جائیں تو بجلی کا شارٹ فال ختم ہوجائے گا جس کی وجہ سے کاروبار میں اضافہ ہو گا ۔ نئی سے نئی فیکڑیاں لگائی جا سکیں گی اور وہ سرمایہ کار جو بجلی کی کمی کی وجہ سے ہونے والے نقصان کے سبب پاکستان کو چھوڑ کر جا چکے ہیں وہ پاکستان میں واپس آئیں گے ۔

قدرتی وسائل کا احسن استعمال ملک میں سرمایہ کاری میں اضافہ کا سبب بنے گا اور سرمایہ کاری میں اضافہ روزگار کے مواقع پیدا کریگا ۔ جب زیادہ افراد کو روزگار مہیا ہو گا تو غریب گھرانوں کے بچے مزدور بنیں گے نہ کہ دہشت گرد ۔کیونکہ دہشت گردی کی ٖفضاء تب قائم ہوتی ہے جب روزی روٹی کا کو ئی انتظام نہ ہو،تعلیم میں اس حد تک کمی ہو کہ غریب ماں باپ کی اولاد کو احساس ِ محرومی دہشت گردی کی جانب مائل کر دے ۔یا دوسری صورت میں میرٹ کی عدم موجودگی اور کرپشن پڑھے لکھے نوجوانوں کو اس حد تک غم و غصہ کا شکار کر دیتے ہیں اور وہ اپنے اندر ابلتے ہوئے نفرت کے لاواکو دہشت گردبن کر نکالتے ہیں ۔

یہ امر ایک تلخ حقیقت ہے کہ کوئی بھی شخص برائی کے راستے پر ازخود نہیں چلتا بلکہ اس کے حالات اس کو کوئی بھی راہ چننے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔کچھ لوگ بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر جرائم پیشہ افراد کے ساتھی بن جاتے ہیں جبکہ کچھ لوگوں میں پنپتا احساس ِ محرومی جو کہ گورنمنٹ جاب میرٹ کی غیر موجودگی ، پرائیوٹ جاب کی عدم موجودگی کی بنا پر ہوتا ہے ۔گورنمنٹ ملک کے تمام تعلیم یافتہ طبقہ کو روزگار فراہم کرنے سے قاصر ہے کیونکہ ملک میں حکومتی اداروں میں نوکریاں کم جبکہ پڑھے لکھے افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ روزگار کے مواقع میں اضافہ کے لیے ضروری ہے کہ پرائیوٹ سیکٹر کو ترقی دی جائے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ملک میں موجود قدرتی وسائل کی تلاش اور استعمال کرنے میں سنجیدگی اختیار کی جائے ۔ ارض ِ وطن میں وسائل کی نہیں صرف بصیرت رکھنے والی قیادت کی کمی ہے ۔
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 164168 views i write what i feel .. View More