پاکستانی مسائل اور انکا حل آپ کی نظر سے
(Muhammad Jawad Khan, Havelian)
ماہ ِ اگست عہد و پیماں کا موسم ۔۔۔ہر طرف
ہریالی و سبزہ زار کا موسم۔۔۔۔ یہ وہ موسم ہے جو اس لمحہ کی یاد کرواتا ہے
جب وقت کے سورج نے اپنی سنہری کرنوں سے اس نیلے آسمان کے نیچے ہماری مقدس
دھرتی پر لفظ "آزادی " لکھا تھا۔اور جسے اس دھرتی کے باسیوں نے اپنے سینوں
میں پروتے ہوئے اپنی سانسوں میں ایسا سمویاکہ ہر طرف ان کے خون کی ہولی
کھیلی گئی، ان کے بے سرو پاہ لاشوں کو بے گور و کفن سڑکوں پر گھسیٹا گیا،
کہیں پر عزت وعصمت کو پامال کیا گیا تو کہیں سر عام انسانیت کو روندا گیا،
کہیں خون سے لت لاشے اور کہیں بے گور و کفن جنازے، کہیں یتیم و بے سہارا
مخلوق ، اور کہیں شفاف فلک کے سائے میں پلتے بچے، کہیں عورتوں کی لٹی
عصمتیں اور کہیں بچوں کا بھوک و پیاس سے تڑپایا گیا، کہیں چوروں کی عیاشیاں
اور کہیں مظلوموں کی سسکیاں ، کہیں اپنوں کی تلاش میں تڑپتے انسان اور کہیں
اپنوں کی زندگی کے متالاشی لوگ ، کہیں زندگی کی امید اور کہیں زندگی اپنی
امیدوں کو توڑتے ہوئے، کہیں جوانوں کا جوش اور کہیں ان کے لاشے، عرضیکہ ہر
طرف موت ہی موت تھی ۔۔۔ مگر سلام پیش کیا جائے ان ہستیوں کوجو خود قربانیوں
کی مثالیں تو بن گئے مگر ہم کو آزادی کا لفظ لگا کر "پاکستان ـ" جیسا عظیم
ملک ِ پاک دے گئے۔
قید میں آیا تو حاصل مجھ کو آزادی ہوئی دل کے لُٹ جانے سے میرے گھر کی
آبادی ہوئی
تاریخ کے تلخ اوراق جوخون کے آنسوؤں سے لکھے گئے ان کو اگر پلٹ کر دیکھا
جائے تو انسا ن انتہائی قرب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ان ہی اوراق میں لفظ ِ
آزادی موجود ہے جس کوپاکستان میں آج صرف محض ایک لفظ سمجھا جارہا ہے
حالانکہ آزدی ۔۔۔ صرف الفاظ تک محدود رہنے والی چیز کانام نہیں اور نہ ہی
ایسا لقمہ کہ جو تیار کرکے ہمارے سامنے رکھ دیاگیا بلکہ اس کی بنیادیں
قربانیوں سے بنائی گئی ہیں ، کہیں اعضاء ِ انسانی سے مصالہ اور کہیں خون و
آنسوؤں سے ان بنیادوں کو تر کیا گیا تو تب جا کر آزادی ملی ۔۔۔ آزادی کی
قدر جاننی ہے تو جا کر کشمیر میں دیکھو کہ کیسے وہ ہر روز اپنوں کے لاشوں
کو اُٹھاتے ہیں۔۔۔ شام میں بچوں کے بے گور و کفن لاشوں کو دیکھو۔۔۔ فلسطین
میں سر کٹی لاشوں کی طرف نظر ڈالو تو آزادی کی قدر و قیمت کا احساس ہو
گا۔اور ادھر ہم آزادی کو مذاق بنا ئے بیٹھے ہیں۔
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
آج ہم سٹیج پر بڑی شان و شوکت کے ساتھ آزادی کو موضوع ِ تقریر بنا کر جوش و
جذبہ دیکھاتے تو ہیں مگر صرف اتنی قربانی دینی پڑ جائے کہ اردو زبان میں
تقریر کر دو تو ہماری بات نہیں نکلتی کیوں کہ ہم آزاد تو ہیں مگر ذہنی طور
پر انگریز کے غلام ۔۔۔مردِ قلند ر علامہ محمد اقبال رحمتہ اﷲ علیہ نے جس
عرض ِ پاک کا خواب دیکھا اور جس مرد مجاد قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اﷲ
علیہ نے اس خواب کو حقیقت کا روپ دیا کیاہمارے پاس کل کو ان کے صرف ایک
سوال کا جواب ہو گا کہ ہم نے ان گزرے 66 سالوں میں پاکستان کو کیا دیا
۔۔۔؟؟؟
اے مرد ِ خدا ! تجھ کو وہ قوت نہیں حاصل جا بیٹھ کسی غار میں اﷲ کو کر یاد
آج ہمارے ملک کی عوام سیاست دانوں کو طنزیہ لہجے میں بولتے ہیں کہ "کہ جی
یہ ہمارے ساتھ سیاست کھیلتے ہیں"خیر بولتے تو وہ بھی ٹھیک ہیں کیا دیا ہم
کو انھوں نے۔۔۔اگر ان 66 سالوں میں اس قوم کو ایک بھی مخلص لیڈر مل جاتا تو
یہ قوم اپنے اندر ایسے جذبات ، حوصلے، ہمت ،لگن ، جستجو، عقل اور شعور
رکھتی ہے کہ دنیا میں انقلابی لہر کو سونامی بنا کر رکھ دیتی اور ہر زبان
پر صرف عرض ِ پاک کے نوجوانوں کا نام ہوتا۔۔۔ ہم کو دیوار کے ساتھ لگانے
والے اپنے ہی نہیں بلکہ ہماری صلاحیتوں اور قابلیتوں کو غیر جانتے تھے تب
ہی ہر لمحہ وہ ہمارے خلاف محاذ سجائے کھڑے رہتے ہیں۔ تاکہ یہ اسلامی ملک
آگے نہ بڑھ سکے اس لیے آج ہماری نوجوان نسل کو چاہیے کہ وہ دو قدم آگے بڑھ
کر ملک و قوم کی بھاگ دوڑ کو اپنے ہاتھوں میں لیں ۔۔۔مگر ہماری نوجوان نسل
کو سوشل میڈیا پر فیس بک اور موبائل سے فرصت ملے گئی تو وہ کچھ کر پائیں
گئے نہ ۔۔۔
جوان ہے عزم تو پھر ظلم کی بربادی باقی ہے اندھیری رات ہے اب تک، ابھی
آزادی باقی ہے
آج ہم نے پاکستان کو ان تمام مسائل سے دوچار کر رکھا ہے جو کہ ایک پسماندہ
معاشرے کے اندر موجود ہوں تو وہ معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے مگر ہمارے ملک کی
سلامتی کا دآرومدارہماری فوج کے سر جاتا ہے کہ انھوں نے شہدائے آزادیِ
پاکستان کے لگائے ہوئے اس پاکستان کے درخت کو ہر لمحہ، ہر قدم پر اپنے خون
سے تر و تازہ رکھ کر ہمیں ٹھنڈ ی چھائیں میسر کر رکھی ہیں تاکہ ہم سکون سے
اپنے گھروں میں رہ سکیں اور خود ہر لمحہ بارود و آگ کے سامنے سینہ تھانے
کھڑے رہتے ہیں۔
جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند کون کر سکتا ہے اس نخل ِ کہن کو
سرنگوں!
کیا وجہ ہے کہ شمالی کوریا جو کل آزاد ہوا ہم سے کئی گنا ترقی کر کے کہاں
جا کھڑے ہوا ، وہ جاپان جس پر ایٹم بم کی بارش تو کی گئی مگر آج وہ بھی ہم
سے آگے ہے۔ وہ چین جو کل تک نشے میں مست رہتے تھے آج دنیا کو معا شی و
اقتصادی بنیادوں پر اس قدر دھچکا دے دیا کہ ہر ملک میں استعمال ہونے والی
ہر چیز چین بنا رہا ہے اور تو اور وہ ملک بنگلہ دیش جو کل تک ہمارے جسم کا
ایک حصہ تھا آج جسم تو خشک ہو رہا ہے مگر وہ حصہ ترقی کر کہ کہاں کھڑا
ہوگیا۔۔۔
تیری دعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی مگر ہے اس سے یہ ممکن کہ تو بدل جائے
ملک ِ پاکستان کو ترقی کی راہوں پر چلانے کے لیے عملی اقدامات کرنے کی اشد
ضرورت ہے جو ہنگامی بنیادوں پر کریں گئے تو کامیابی ہمارے دامن میں خود چل
کر آئے گی۔
نہیں تیرا نشیمن قصر ِ سلطانی کے گنبد پر تو شاہین ہے بسیر اکر پہاڑوں کی
چٹانوں پر
اسلام : مسلمان ہونے کے ناطے آج تک ہم کبھی رسوا نہیں ہوئے جتنے آج ہو رہے
ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری مرکز اوردینِ اسلام سے دوری ہے ، آج ہم صبح
بہت جلد اُٹھیں بھی تو 7 بجے سے قبل نہیں اُٹھتے اور جاگتے ہی موبائل کو
پہلے چیک کرتے ہیں ، نہ کوئی نماز اور نہ کوئی عبادت ۔۔۔۔جب کہ اس بات کو
بخوبی جانتے ہیں کہ جس دن صبح کی نماز میں مسلمانوں کی تعداد جمعہ کے
نمازیوں جتنی ہو گی تو مسلمان دنیا پر چھا جائیں گئے مگرہم ہیں کہ ۔۔۔۔نہ
پوچھو۔۔۔
یہ فقر مرد مسلمان نے کھو دیا جب سے رہی نہ دولت سلمانی و سلیمانی
چونکہ اس ملک ِ پاکستا ن کی بنیاد لا الہ الا اﷲ پر رکھی گئی تھی اور مذہب
ِ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس لیے ہمیں اپنی زندگی کو اسلام کے قوانین
و ضوابط کے مطابق گزارنی ہو گی اور ملک پاکستان کے اندر اسلام کو نافذ
العمل کرنا ہو گا ۔ تمام قوانین کو اسلام کی بنیادوں پر مرتب کرنے ہونگے،
عرضیکہ تمام مسائل و حالات میں ہمیں اول ترجیحات اسلام کو دینی ہو گی۔
سیاست: ملک کی ترقی کا دآرومدار ملک کی سیاسی حالات پر بھی ہوتا ہے مگر
اسکا مطلب یہ تو نہیں کہ سیاست کو بچانے کے لیے انسانی اقدار کو پاؤں تلے
روندا جائے ، آج اگر ہمارے سیاستدانوں کی صف ٹھیک ہو جائے ، آج یہ لوگ اپنا
سرمایا پاکستان کے لیے وقف کر دیں، ساری دولت باہر کے بینکوں سے نکال کر
پاکستان لے آئیں، اپنے حصے کے کمیشن کو ختم کر دیں، تو ملک کی آدھے سے
زیادہ پریشانیوں کا خاتمہ یہاں پر ہی ممکن ہو جاتا ہے۔
گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے
ایسا نظام متعارف ہو کہ ہر سیاست دان کا بچہ پاکستان میں تعلیم حاصل کرے
،سب کا روپیہ پیسہ پاکستان کے بینکوں میں ہو ،پڑھے لکھے نواجون قوم کے
ہاتھوں میں اقتدار کی سیڑھی آئے جو بغیر کسی دھاندلی، کرپشن ، رشوت و سفارش
کے بغیر کامیاب ہو کر سامنے آجائیں۔وی آپی کلچر ، اور سیاسی اخراجات کو کم
سے کم کرنا ہو گا۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو خیال جس کو اپنی حالت کے
بدلنے کا
تعلیم و تربیت: ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسلۂ جہالت ہے ، بے تعلیمی و جہالت
نے ملک کو بیشتر مسائل سے دو چار کر رکھا ہے، ہر ایک کا اپنا تعلیمی نظام
ہے، اور جن لوگوں کے پاس تعلیم ہو بھی تو اس کو بہترین روزگار کے مواقع
فراہم نہیں کیے جاتے ،فنی ہنر والوں کے پاس سرمایہ نہیں کہ وہ صرف کر سکیں۔
روزگا ر کے مواقع:بامقصد تعلیم کو عام کرکے جہالت کا خاتمہ کرنا ہوگا، جس
طرح انسان کے لیے ہوا ، پانی ، لباس اور خوراک سے انسان توانا اور صحت مند
ہوتے ہیں اس طرح تعلیم کے حصول سے انسانی دماغی لحاظ سے ترقی کر کے اپنے
ملک کو ترقی دینے کے قابل بناتا ہے، اس لیے ہر شہر ی کے لئے تعلیم حاصل
کرنا لازمی قراد دینا ہوگا۔ تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانی ہونگی،
سائنس و ٹیکنالوجی کے علوم کو وسیع پیمانے پر حاصل کرنا ہو گا۔
وسائل و ہنر: کسی بھی ملک کے وسائل اور اس قوم کا ہنر ہی اُس ملک کا اصل
زرِ مبادلہ ہوتے ہیں ،ہمارا ملک قدرتی وسائل سے بھی مالا مال ہے اور باہنر
لوگوں کی قوم ہے مگر ہم ان سے استفادہ حاصل کرنے سے ابھی تک قاصر اس لیے
ہیں کہ ہم میرٹ کو موقع ہی نہیں دے رہے، جہاں جتنے زیادہ وسائل ہوں وہاں
اسقدر سستی کی جاتی ہے، جس کے پاس جتنا زیادہ ہنر ہو اس کو اتنا زیادہ نظر
انداز کیا جاتا ہے۔
ملک کی ترقی کے لیے ہمیں میرٹ کو ترجیحات دینی ہو گی، وہاں اثر و رسوخ یا
رشوت و سفارش کا منتظر رہنے کے بجائے میرٹ کو دیکھنا ہوگا۔
صوبوں کا قیام: قیام پاکستان کے وقت بنائے گئے صوبے اس وقت کی آبادی و
وسائل اور ضرورتوں کے حساب سے ٹھیک تھے مگر اب رفتہ رفتہ بڑھتی آبادی ،
مسائل اور لا قانونیت کی سب سے بڑی وجہ آبادی و علاقہ کا زیادہ ہونا اور
وسائل کا کم ہونا ہے۔
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ انتظامی بنیادوں پر پورے ملک کے اندر جہاں
جہاں ممکن ہو وہاں صوبوں کا قیام کرتے ہوئے وسائل کی یکساں سہولیات میسر کی
جائیں تاکہ زیادہ آبادی کے ہوتے ہوئے بھی مسائل کا حل باآسانی نکل سکے۔
جذبہ ِ اخوت: سارے مسائل کی وجہ ہمارے سیاست دان یا اعلیٰ حکام ہی نہیں
ہوتے، ہم (عوام) کون سے دودھ کے دھلے ہوتے ہیں بہت سے مسائل توہم خود پیدا
کر دیتے ہیں اور بعد میں ذمہ داری حکام پر ڈال کر خود سفیدپوش اور حب
الوطنی کا لبادہ اُوڑھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔
بہت سے ایسے مسائل ہوتے ہیں جن کو ہم (عوام) خود آپس میں جذبہ محبت اور عجز
و انکساری کے ساتھ بیٹھ کر با آسانی حل کر سکتے ہیں مگر ہم ہیں کہ ایک
دوسرے کو نیچا دیکھانے میں مصروف ِ عمل۔۔۔
قومیں ایسے نہیں بنتی ،قومیں قربانیاں مانگتی ہیں
قومیں بدلے نہیں ، احساستا ت مانگتی ہیں
ہم ہیں دینِ اسلام والے ، ہم ہیں شہیدوں کے جیالے
قربانیاں ہم بھی دیں گئے ، قومیں قربانیاں مانگتی ہیں |
|