کالا قانون

10؍ اگست1950 کا وہ سرکاری حکم نامہ، جسے صدارتی حکم نامہ 1950کہا جاتا ہے، کوــ’’ کالے قانون‘‘ کا لقب دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ اس ایک حکم نامہ نے سارے ملک کی سیاست کو ایسے غلط راستے پر لے جانے کا کام کیا کہ جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ حالانکہ بات تو اس وقت بہت معمولی سی تھی کہ اس حکم نامہ کے ذریعہ دفعہ341کے ذریعہ دیئے جانے والی شیڈول کاسٹ ریزرویشن پر جبراً مذہبی قید لگایا گیا۔ حالانکہ نہروجی کے کابینہ اس میں آرڈر کو لانے کی مجبوری کا پتہ اب تک ظاہر نہیں ہو سکا ہے لیکن اس کے منفی اثرات تو 50سال بعد ہی پورے ملک میں ہر سطح پر نظر آنے لگا تھا۔ مہنگائی، بے روزگاری، بد عنوانی کنٹرول سے باہر ہے۔ آزادی کے69ویں سال میں بھی کسان وزراعت کی حالات میں وہ سدھار نہیں دیکھی جا سکی جس کی امید تھی کیونکہ گاندھی جی نے اس کی اہمیت یہ کہہ کر صاف کر دیا تھا کہ ہندوستان گاؤ ں کا دیش ہے۔ اس کے برعکس یہاں تو ساری سیاست شہر اور شہر میں رہنے والوں کے لئے ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے جو جمہوریت نہیں بلکہ جوسرمایہ دارانہ نظام کی پوری طر ح عکاسی کرتا ہے۔ بنیادی مسائل کے حل کا جہاں تک سوال ہے، اس پر ا گر دھیان دیا گیا ہوتا تو ملک میں نکسلزم کیوں پنپتا اور دن بدن اپنی طاقت کیسے بڑھاتا چلا جاتا کہ پولس محکمہ بھی اسے ملک کے لئے چیلنج ہی سمجھ رہا ہے ۔جہاں تک مسلم سماج کا سوال ہے اس کا ملک میں بڑا ووٹ بینک ہی تو ان ساری منفی اثرات کا محور بن گیا۔جمہوریت میں ووٹ کی سیاست ہی تو سب کچھ ہے ۔ چناوی ڈبو ں یا EVMمشین میں عام ووٹرو ں کی پسند کا اظہار ہی سیاسی آقاؤں کی قسمت کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس کھیل میں مسلم ووٹ بینک ایک ووٹ بھری ٹوکری کی طرح صرف استعمال ہی سماج کو کبھی بھی ملک کے مین اسٹریم میں لانے کی سمت میں پہل ہی نہیں کیا گیا بلکہ صرف فرقہ پرست طاقتو ں کا خوف دکھا کر ووٹ کو یکمشت ایک طرف سمیٹنے کا کام کیا گیا ۔ مسلم قوم بھی ان کی سیاسی چال بازی سمجھ نہیں سکی کیوں کہ غربت اور جہالت کی حالت میں صرف مذہبی جذبات ہی ایسا فیکٹر ہے جو ایسا جو ش دلاتا ہے کہ ہوش ختم ہو جائے، بنیادی مسائل پر وہ جوکہاں ملے گا۔ پھر بنیادی مسائل کو سب سے اہم مسئلہ یہ قوم سمجھتی تو کیسے کیونکہ مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے سیاسی حضرات نے بھی اپنی سیاسی پارٹیو ں کے سُر میں سُر ملانے کا ہی کام کیا جس سے مسلمان گمرا ہی کے شکار ہی رہے ، آج بھی ہیں اور تب تک ر ہنگے جب تک ان کی اقتصادی و تعلیمی حالات میں و ہ سدھار نہ ہو جو آج دلت طبقات میں پایا جارہا ہے۔ پہلے دلت طبقات بھی برہمنوادی چالوں میں آسانی سے پھنس جایا کرتے تھے لیکن شیڈول کاسٹ ریزرویشن ملنے کی وجہ کر ان میں جو اقتصادی ، تعلیمی، سماجی ابھار آیا ہے اس نے ان میں سیاسی بیداری بھی کافی پیدا کر دی ہے۔ وہ سمجھنے لگے ہیں کہ اپنے قیمتی ووٹ کا استعمال کن ایشوز پر کس حکمت کے ساتھ کریں تاکہ صحیح ہو اور اس سے ملک و ملت کو فائدہ ہو۔ اس کے بر عکس صدارتی حکم نامہ1950کے ذریعہ مسلمانوں کی بڑی آبادی کو دفعہ341کے ریزرویشن( شیڈول کاسٹ) سے خارج کر دیئے جانے کی وجہ کر اسے تعلیمی، اقتصادی ترقی کے لئے وہ سرکاری مدد نہ مل سکی، دلتو ں کی طر ح جس کے حقدار وہ بھی تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بڑی آبادی ملک کے میں اسٹریم سے کٹ کر روایتی مذہبی و سیاسی سربراہو ں کے پنجوں میں ہی رہ گئی جنہو ں نے اپنے سیاسی آقاؤوں کے لئے اس کے ووٹ کا استعمال کیا اور بدلے میں سودے بازی کر صرف اپنا کام نکالنے کا کام کیا ۔ انہیں کبھی یہ خیال نہیں آیا ہے کہ جس قوم کی نمائندگی وہ کر رہے ہیں اور پوری قوم ملت کے نام پر ان کے پیچھے لبیک کرتی رہی ہے اس کے مسائل بھی دلتو ں کی ہی طر ح تحفظ ، تجارت(روزی روٹی) اور تعلیم ہے۔ لیکن 60-70برس تو کامنل اور سیکولر جیسے سیاسی الفاظ سنتے سنتے گذر گئے اور ایک ہی سیاسی سبق سیکھا کہ بھاجپا آئے گی تو کھاجائے گی: جو بھاجپا کو ہرا دے اسے ووٹ دو۔ ان کی موجودگی میں بھی قومی سطح پرہمیشہ ہندوستان ۔ پاکستان، پرسنل لاء اور مندر۔مسجد کا مدہ ہی چھایا رہا، بنیادی ایشوز کا کوئی اتا پتہ تک نہیں تھا جو سوچ کی رُخ کوبدلے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بابری مسجد شرعی قانون جیسے مددوں پر ہمیشہ کی طر ح لبیک کہنے کو مسلمان آج بھی تیار ہیں لیکن قومی سربراہاں یہ نہ سمجھے سکے کہ رام مندر کے مدے یا ایک شادی ونس بندی جیسے مدے ان سنگھ پریوار کیلئے محض ایک سیاسیاسٹنٹ ہے جس کے آڑ میں وہ اقتدار پر قابض کا راستہ نکال رہے ہیں۔ ایسی سیاست کے ر خ کو حکمت عملی سے بد لنے کی ضرورت تھی لیکن ہمارے علماوؤ ں و سربراہوں نے سیاست کے ر خ کو بدلنے کے بجائے صرف ردعمل سے کام لیا۔ جس نے نہ صرف انہیں بچانے کا کام کیا بلکہ وہ اور مضبوط ہوتے چلے گئے اور مسلمان شکست کھاتے چلے گئے چاہے وہ بابری مسجد کا مسئلہ ہو، یا شاہ بانو کا۔ اب تویہ وقت آگیا ہے کہ آج سیاسی طور پر بھی مسلم قوم حا شئے پرہے ۔ اسی طر ح سے گؤ کشی کے مسئلے پر ملک میں جو ماحول بنایاجارہا ہے کہیں مسلمانو ں کے خلاف سنگھ پریوار کا یہ فائنل اسٹروک ثابت نہ ہو جائے کیونکہ اس کی مشن ایودھیا تحریک سے کم نہیں ہے ۔ ان ساری صورتحال کے باوجود آج بھی ہمارے نمائندگان اپنی سیاسی قائدین کی خوشنودی کے لئے اب بھی صرف سنگھ پریوار کی سیدھے طور پر مخالفت کرنے میں ہی لگے ہوئے ہیں اور مسلم قوم کے ذہن میں جو سیاسی فارمولہ پہلے سے بھر دی ہے اسی پر آج بھی لبیک کرنے کو مجبور رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ ہمارے سربراہان کو بھی سنگھ پریوار کے متنازعہ ایشوز کو سیاسی اسٹنٹ کے طور پر لیتے ہوئے اس کی حکمت سے کاٹ کرتے ہوئے عام مسلمانوں کی تحفظ، تجارت اور تعلیم جیسے مددو ں پر زور دینا چاہئے تھا تاکہ دلتو ں کی طر ح یہ سماج بھی آج ملک کے مین اسٹریم میں آچکا ہوتا ۔ اس میں بھی دلتو ں کی طرح سیاسی بیداری پیدا ہوتی اور وہ سمجھتی کہ ہمیں اپنا قیمتی ووٹ کسے دینا چاہئے اور کن ایشوز پر دینا چاہئے۔ فی الوقت تو سیاسی پارٹیوں کے لیڈران صرف اتنا ہی جانتے ہیں کہ افطار پارٹی میں مسلمانوں کو اچھا کھلادو، عید گاہوں میں حاضری دے دو، خانقاہوں کا چکر لگادو، حج کے پروگرام میں حاضری دے دو،بس اسی سے جب مسلمان خوش رہے گا اور پھر اسے سنگھ پریوار کا خوف دکھاتے جانا ہے تاکہ چناؤ کے وقت ان کی پارٹی کے لئے جان دے دے۔ جب سماج کے نمائندو ں کو ہی تحفظ تجارت اور تعلیم کا راستہ نکالنے کی فکر نہیں تو پھر سیاسی پارٹیو ں کو تو محض آپ کے ووٹ سے پیار ہے ،آپ کی بد حالی سے انہیں کیا مطلب۔ ایسا لگتا ہے کہ مذہبی، سیاسی رہنما وؤں کے ذہن میں بھی یہی بسا ہوا ہے کہ مسلمان جتنا کم پڑھا لکھا اور غریب ہوگا اتنا ہی اسے مذہبی ایشوز پر گمراہ کرکے ایک جٹ کیا جا سکتا ہے تاکہ سیاسی سودے بازی میں ناکامی حاصل نہ ہو ۔ کاش کہ رب نے انہیں یہ توفیق دی ہوتی کہ دلتو ں کی طرح مسلمانوں کی بڑی آبادی کی بنیادی ضروریات کے حل کے لئے بھی یہ راستہ نکالے ہوتے۔ کیا انہیں پتہ نہیں تھاکہ دفعہ341پر صدارتی حکم نامہ کے ذریعہ جو جبراً مذہبی قید لگایا جارہا ہے اس کا نتیجہ 50برسوں کے بعد کیا آئے گا۔ جب یہ اندازہ ہی نہیں لگ سکا کہ یہ حکم نامہ ایک ایسا کالا قانون ہے جو کامنل سیاست کو تقویت دے گا جس ملت کے ساتھ ملک کو بھی زبردست نقصان ہوگا تو پھر قائدانہ صلاحیت تو فضول ثابت ہوئی۔ اب بھی وقت ہے کہ پہلے اس کالے قانون کو ختم کرانے کا راستہ نکالیں۔ انہیں بھی سمجھنا چاہئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پورے آئین میں دفعہ341ہی وا حدآرٹیکل ہے جس کو سنگھ پریوار نے نشانہ بنایا اور جبراً اس پر ایسا مذہبی قید لگوایا کہ جسے ختم کرانے کے لئے ساری قوت لگانے کے بعد بھی مشکل لگ رہا ہے۔فی الوقت تویہ معاملہ سپریم کورٹ میں12سالو ں سے التوا میں پڑا ہوا ہے۔ ملک و ملت کی خاطر تو کم سے کم اس کالے قانون کو ختم کیا جائے۔ ہمارا قومی پیمانے کا احتجاج شاید کورٹ کو ر حم کرنے پر مجبور کر دے۔
ڈاکٹر اعجاز علی
(سابق ا یم پی)
Yousra
About the Author: Yousra Read More Articles by Yousra: 5 Articles with 3886 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.