اگر وین کی چھت پر سارے بچوں کی
کتابوں کی بوریاں رکھی ہوں تو خدشہ ہے کہ کہیں وزن سے بیٹھ نہ جائے۔ جب اس
وزن کو اٹھا کر بچہ اسے اپنی پیٹھ پر رکھ کر چلتا ہے تو یہ لگتا ہے کہ
پڑھائی سے پہلے بچوں کو مزدوری کرنے کی مشق کرائی جارہی ہے۔ کچھ ہو یا نہ
ہو-
لیکن یہ تو اعتماد سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر یہی کیفیت رہی تو بچوں کے کبڑا
ہو جانے کا قوی امکان ہے ۔
ہم بھی کوئی ۷۰؍ سال قبل بچے ہی تھے اور اسکول بھی جاتے تھے لیکن روزانہ کی
کتابوں کا ایک ٹائم ٹیبل ہوتا تھا کہ آج کونسے کونسے مضامین پڑھائے جائیں
گے، اسی حساب سے کتابیں اور ایک رف کاپی ہوتی تھی جس میں پڑھا ئی گئی ہر
بات لکھ لی جاتی تھی۔
A اور O لیول کی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں سے جب پوچھا کہ اس تمہاری بوری
میں کتنی کتابیں ہیں تو انہوں نے نیگیٹیوانداز میں سر ہلایا۔ پھر دریافت
کیا کہ آج کتنی کتابیں پڑھا ئی جائیں گی، تو اس سے بھی وہ نابلد تھے۔ معلوم
کرنے پر کسی واقف راز نے بتایا کہ ایک ایک مضمون کی کئی کئی کتابیں ہیں
لہذا سب لیجاتے ہیں نہ جانے کونسی پڑھائی جائے۔معلوم ہوا کہ حقیقتا ہی
انگریزی کی ۴؍ کتابیں ہوتی ہیں، یعنی انگلش، پوئٹری، ناول، وغیرہ۔کیا
اساتذائے کرام اتنے با صلاحیت ہیں کہ ایک ہی گھنٹے میں سب کچھ ڈائجسٹ
کرادیتے ہیں۔
جب ماں باپ کو اسکول بلایا جاتا ہے تو ایک آدھ کو مشورہ دیا گیا کہ بھئی
ذرا اس عنوان سے بھی بات کرنا کہ ان بچوں نے آخر ایسا کیا قصور کیا ہے تو
جواب ملتا ہے کہ یہ معاملہ اوپر اٹھا ئیں ، ہم تو بچے کی کارکردگی کو
جانچتے ہیں اور آپکو بھی اسکی خوبیوں سے آگاہ کرتے ہیں۔ ایک گرگ باراں دید
نے کہا کہ بچوں کا یہ اپنا شوق ہے انہیں منع کیاجاتا ہے مگر جب امی آواز
گاتی ہیں کہ بلو اپنا بیگ سیٹ کرو تو اب کون الگ الگ کرے ، سب ہی بھر لی
جاتی ہیں۔ واﷲ و عالم ۔
حقیر عقل اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ اگر اسکول کی انتظامیہ چاہے کہ یہ
مسلہ حل ہو، تو پھرکیوں نہیں ہوسکتا۔جب انتظامیہ کے سوچتے ہی بچے کی فیس
یکایک کئی گنا بڑھ جاتی ہے تو اس کے مقابلے میں یہ توغیر اہم ہے۔ بہرحال یہ
بات دکھ دیتی ہے کہ اتنا بوجھا ان پر نہ لادا جائے ، لہذا ہماری انتظامیہ
سے درخواست ہے کہ قوم کے نونہالوں کو کبڑا بننے سے بچا ئیں۔ شکریہ |