نفرت کی دیواریں

 دنیا بہت سی دیواریں دیکھی ہیں ،ایک تو دیوار چین ہے جو عجوبات میں شامل ہے ،دوسرا دیوار گریا جو جسے چوم کر یہودی روتے ہیں وہ ان کی مقصد دیوار ہے ۔تیسری دیوار عرب اسرائیل کی ہے جو غالباً1925میں بنائی گئی تھی ،ہر دیوار کا مقصد ایک ہے لیکن رتبہ تھوڑا الگ ہے ،اسی طرح کی ایک دیوار وادی کشمیر میں بننے جا رہی ہے جسے حروف عام میں نفرت کی دیوار کہی جا رہی ہے ۔لیکن اس کے مقاصد بھی وہی ہیں امن و امان قائم کرنا لیکن اس کا انجام کیا ہوگا وہ سب جانتے ہیں ۔کشمیر میں حکام نے علیحدگی پسند رہنماؤں کو گھروں میں نظربند کر دیا ہے تاکہ وہ کشمیری ہندوؤں کو خصوصی کالونیوں میں دوبارہ آباد کرنے کے فیصلے کے خلاف ’خاموش مارچ‘ نہ کر سکیں۔ بی بی سی کی گیتا پانڈے نے اسی تنازعے پر سرینگر سے رپورٹ بھیجی ہے۔1980 کی دہائی کے اواخر میں مسلم اکثریتی وادیِ کشمیر میں انڈیا سے آزادی کی مسلح بغاوت کا آغاز ہوا تھا۔ عسکریت پسند اکثر ہندو اقلیت کو نشانہ بناتے تھے۔ ان حملوں اور دھمکیوں سے تقریباً ساڑھے تین لاکھ پنڈت جموں اور انڈیا کے دیگر علاقوں میں منتقل ہو گئے۔آج کشمیر میں صرف 2764 ہندو آباد ہیں۔بھارتیہ جنتا پارٹی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے اتحاد پر مشتمل ریاستی حکومت نے پنڈتوں کو واپس لانے کا اظہار کیا ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ وہ واپس آنے والے مہاجرین کے لیے محفوظ علاقے قائم کریں گے جہاں وہ بحفاظت رہ سکیں گے، لیکن اس منصوبے کے خلاف احتجاج کیا گیا اور بہت سارے افراد نے الزام عائد کیا کہ حکومت ’فلسطین میں اسرائیل جیسی آبادکاریاں‘ بنانے کی کوشش کر رہی ہیتنقید کے بعد حکومت نے اپنا فیصلے تبدیل کیا۔ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے زور دیا کہ وہ پنڈتوں کو صرف اس وقت تک عارضی رہائش فراہم کرنے کی بات کر رہی ہیں جب تک وہ اپنے مکان خود نہیں بنا لیتے۔ لیکن وادی میں زیادہ افراد کو ان کی بات پر یقین نہیں ہے۔اور دوسری جانب حکام کے لیے سب سے بڑا دردِسر یہ ہے کہ حریف علیحدگی پسند رہنماؤں میرواعظ عمر فاروق، یاسین ملک اور سید علی گیلانی نے اس منصوبے کے خلاف اتحاد کا حقیقی مظاہرہ کیا ہے۔میرواعظ عمر فاروق نے بی بی سی کو بتایا: ’ہم چاہتے ہیں کہ پنڈت واپس آئیں، ہر کشمیری اس سے متفق ہے۔ میرے خیال میں یہ انسانیت کا معاملہ ہے۔ پنڈتوں کی واپسی ان کا حق ہے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ انھیں آباد ہونے کے لیے مناسب معاوضہ ادا کرے۔‘تاہم انھوں نے کہا: ’لیکن ہم مخصوص آبادکاریوں کے خلاف ہیں کیونکہ اس سے کشمیری معاشرے میں ایک گہرا گڑھا پیدا ہو جائے گا۔ پنڈتوں کا سکیورٹی حصار میں الگ تھلک علاقوں میں رکھنے سے نفرت کی دیواریں پیدا ہوں گی، یہ ایک اچھا طرزعمل نہیں ہے۔سرینگر کی جامع مسجد میں جمعے کے نماز کے دوران انھوں نے اپنے حامیوں کو حکومت کے منصوبے کے بارے میں بتایا اور وضاحت کی کہ اس کی مخالفت کی کیوں ضرورت ہے۔ ان کے حامیوں نے ان سے سر ہلا کر اتفاق کیا۔حیران کن طور پر وہ پنڈت جو گذشتہ 25 سالہ سے عسکریت پسندی کے دنوں میں وادی میں قیام پذیر رہے یا حالیہ برسوں میں واپس آئے ہیں وہ بھی میرواعظ فاروق سے اتفاق کرتے ہیں۔للتا دھر 65 سالہ ریٹائرڈ سکول ٹیچر ہیں اور سنہ 1989 میں مسلمان عسکریت پسندوں کی دھمکیوں کے بعد وہ جموں منتقل ہوگئی تھیں۔ وہ گذشتہ آٹھ ماہ سے حکومت کی جانب سے واپس آنے والے ہندوؤں کے لیے قائم شیخ پورہ کیمپ میں رہ رہی ہیں۔یہ دو کمروں پر مشتمل ایک اپارٹمنٹ ہے جہاں وہ اور ان کی بیٹی ایک اور خاندان کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ تاہم للتا دھر کا کہنا ہے کہ انھیں ایسا لگتا ہے جیسے انھیں ’پنجرے میں بند‘ کر دیا گیا ہو۔‘وہ کہتی ہیں: ’جانے سے پہلے ہم سرینگر میں رہتے تھے اور ہمارے مسلمان ہمسائیوں کے ساتھ بہترین تعلقات تھے۔ وہ ہماری مدد کرتے اور عسکریت پسندوں سے بچاتے تھے۔ میں وہاں دوبارہ جانا چاہتی ہوں اور وہاں رہنا چاہتی ہوں لیکن ہمیں اپنا خاندانی گھر فروخت کرنا پڑا۔ مجھے اس کیمپ میں رہنا پسند نہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے میں پنجرے میں قید پرندہ ہوں۔‘کشمیری پنڈت سنگھرش سمیتی کے صدر سنجے ٹکو نے بھی کشمیر ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ شورش زدہ وادی میں عسکریت پسندوں کی دھمکیوں کی باوجود وہ وہیں رہے اور شادی کی اور ان کے دو بچے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ 95 فیصد نقل مکانی کرنے والے ہندوؤں نے اپنے گھر اور زمین فروخت کر دی ہے چنانچہ وہ واپس انھیں گھروں میں نہیں آ سکتے۔لیکن انصاف کا تقاضا ہے کہ انہیں وہی گھر مہیا کرایا جائے چاہے اس کے لئے فروخت کی گئی زمین اور مکان واپس لیا جائے ۔اس سے ان کے بچھڑے پڑوسی مل جائیں گے اور وہ اپنے آپ کو اجنبی محسوس نہیں کریں گے ۔الگ کالونی بنانے سے اسرایئل جیسا محسوس ہوگا اور مزید نفرت کی دیواریں کھڑی ہو جائیں گی ۔جس امن کے مقصد کے لئے یہ سب کیا جا رہا ہے وہ بدامنی کا باعث بن جائیں گی ۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ وادی میں پہلے ماحول سازگار بنایا جائے اور انہیں ان کے آبائی گھر کی واپسی کے لئے جدوجہد کی جائے اور ان کے دلوں کو ملنے کے مواقع فراہم کئے جائیں ،یہی ایک راستہ ہے نہیں تو وادی میں الگ کالونی سے نفرت کی خلیج اور بڑھے گی ،معلوم ہوا کہ امن اور بسانے کے مقصد کو پورا ہونے کے بجائے نفرت اور بغاوت کا بول بالا ہوجائے اور یہ طریقہ فیل ہو جائے ،اس لئے بہت سوچ سمجھ کر ماحول کو سازگار بنانے کی ضرورت ہے ۔
 
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 101726 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.