آپ جس وقت یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے اس کے
ٹھیک تین دن بعد ۱۵؍اگست کو وزیراعظم نریندر مودی لال قلعہ کی تاریخی فصیل
سے اپنی تیسری تقریر کریں گے،اس سے قبل جہاں سے انہوں نے ۲۰۱۴ءمیں بحیثیت
وزیراعظم اپنی پہلی تقریر کی تھی ۔یہی وقت ان کے دور حکومت کے آغاز کا تھا،
اس وقت وہ بڑے جوش و خروش میں تھے ۔اس دوران انہوں نے خوش آئند خوابوں
اورکبھی نہ پورے ہونے والے وعدوں کی جھڑی لگادی تھی ۔ سبھی جانتے ہیں کہ
پچاس سالوں سے زائد عرصہ دہلی کے تخت پر حکومت کرنے والی کانگریس کی مسلسل
ناکامیوں اور اس کے نتیجے میں ملک کی تیزی کے ساتھ رو بہ زوال معیشت سے
عوام بے حد پریشان تھے ۔
بالآخر مسلسل بڑھتی مہنگائی نے انہیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اب اس
حکومت سے گلو خلاصی ضروری ہے ۔انہوں نے متبادل کے طورپر بی جے پی کے دبنگ
اور مضبوط لیڈر کے طور پر ابھرے مودی کو ملک کی قیادت سونپنے کا فیصلہ
کرلیا ۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ ان کی لچھے دار اور عزم و یقین سے بھری
تقریروں نے عام لوگوں کے دلوں میں یہ امید جگادی تھی کہ اقتدارکے حصول کے
بعد وہ ضرور ان کے خوابو ںمیں رنگ بھردیں گے جوبرسوں سے کانگریس کی بے عملی
کے نتیجے میں ان کی آنکھوں میں سونے پڑے تھے ۔ان بے رنگ خوابوں کی تکمیل
کیلئے مسلمانوں نے بھی پیش رفت کی یہاں تک کہ انہوں نے گجرات میںہونے والے
اس قتل عام سے بھی صرف نظر کرلیا جب مودی وہاں کے وزیراعلیٰ تھےاور مسلمانو
ں کے ساتھ وحشت و بربریت کا ایسا کھیل کھیلا گیاتھا جس کی دوسری کوئی نظیر
نہیںملتی ۔ ۱۵؍ اگست کی پہلی تقریر میں انہوں نے یہ واضح اشارے دیئے تھے کہ
وہ عوام کو ایک نئے ہندوستان سے متعارف کرائیں گے ۔ملک کی سماجی اور
اقتصادی ناکامیوں پر ان کی نظر ہے جو سابقہ حکومت سے انہیں وراثت کے طور پر
ملی ہے ۔انہوں نے ناکامیو ںکی ایک لمبی فہرست گنواتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارا
اولین ہدف مہنگائی کے بڑھتے عفریت پر قابو پانا ہوگا ،ساتھ ہی انہوں نے
حفظان صحت پر زور دیتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ آج بھی ۶۰فیصد ہندوستانی
عوام کھلے میدانوں میں رفع حاجت کیلئے مجبور ہیں ، اس کے سبب ایسی خطرناک
بیماریاں پھیلتی ہیں جو سب سے زیادہ بچوں پر اثر انداز ہوتی ہیں اور ان کی
نشو نما رک جاتی ہے ۔ مزید یہ کہ ہمارے ملک کی بیٹیوں کا تو اور بھی برا
حال ہے ۔ نتیجتا ً انہوں نے مہنگائی ، سوچھ بھارت ابھیان اور بیٹی بچاؤ
جیسی تحریکوں کا دھواں دھار اعلان کیا ، لیکن ان میں سے کسی بھی نشانے کی
تکمیل تو در کنار انہیں چھوا تک نہیں گیا ۔اسکی وجہ صاف ہے ، کوئی کام اس
وقت تک پایہ ٔ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا ، جب تک کہ خلوص اور نیک نیتی کا اس
میں دخل نہ ہو ۔ محض لفاظی اور دھواں دھار تقریروں سے کچھ نہیں ہوسکتا ۔
وزیراعظم لفظوں کے سوداگر ہیںاور عوام کا پیٹ اس سوداگری سے بھرنے والا
نہیں ۔ بیٹیاں کتنی محفوظ ہیں اس کا اندازہ اخبارات میں شائع ہونے والی
عصمت دری کی لگاتارخبروں سے لگایا جاسکتا ہے ۔ بازاروں میں اشیائے خوردنی
کے دام آسمان پر ہیں اور عوام زمین پر ، واں جو جائیں گرہ میںمال کہاں،
والی کیفیت لوگوں میں بے یقینی اور نراجیت پھیلارہی ہے اور یہیں سے
لاقانونیت اپنا منھ کھولتی ہے ۔فرقہ پرستوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے کوئی
دن ایسا نہیں جاتا جب ان کے دل دوز بیانات سے اخبارات خالی ہوں ۔ قانون
شکنی اوردستور ہند کی صریح خلاف ورزی ان کیلئے ایک دلچسپ مشغلے کی صورت
اختیار کرگئی ہے اور یہ سب کرنے میں انہیں بالکل خوف محسوس نہیں ہوتا ،
انہیں اچھی طرح معلوم ہے ، وہ جو بھی کریں گے ان سے با زپرس ہونے والی نہیں
۔ وزیراعظم کی طویل خاموشی ان کی تخریبی کاروائیوں کو بڑھاوادیتی ہے ۔ابھی
گذشتہ دنوں انہوں نےگئؤکشی معاملے میں چپی توڑی بھی تو اس کی حیثیت بھی
محض ہوائی فائرنگ سے زیادہ کچھ نہیں تھی ۔
اس بار ۱۵؍ اگست کو جب وزیراعظم لال قلعہ سے اہل وطن کو خطاب کریں گے اور
اپنے دور اقتدار کا لیکھا جوکھا پیش کریں گے تواس میں کامیابیوں کے بجائے
ناکامیاں ہی ناکامیاں ہوں گی ۔کہاوت مشہورہے کہ’ بویا پیڑ ببول کے تو آم
کہاں سے کھائے ‘ اگر فرقہ پرستی کے احیاءکے بجائے اس کی بیخ کنی کی گئی
ہوتی اور فرقہ پرستوں کو کھلی چھوٹ دینے کےبجائے ان کی حوصلہ شکنی کرتے
ہوئے ان پر تادیبی کارروائی کی جاتی تو آج ملک کا وہ حال نہ ہوتا جو فی
الوقت ہے ۔ اس کے بجائے اگر وزیر اعظم ان ترجیحات پر زور دیتے ، اور ملک کی
سیکولر روایات کو برقرار رکھنے میں اپنی طاقت جھونک دیتے اور تقریر سے
زیادہ عمل پر دھیان دیتے جس کا انہوں نے بڑے جو ش و خروش سےوعدہ کیا تھا،
اور عوام نے ان کے ساتھ پورا اعتمادبھی جتایا تھا ،جس کے سہارے ہی وہ
اقتدار تک پہنچے تھے، تو آج ملک کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا ۔وہ بھول رہے ہیں
کہ جس عوا م نے کانگریس کو پارلیمنٹ کے الیکشن میں شکست فاش دے کر چالیس کے
ہندسے پر پہنچا دیا تھا وہ تمہیں بھی وہیں پہنچا سکتی ہے ۔
|