پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی
انتخابات کے ملتوی ہونے کے بعد عرصہ دراز سے پارٹی کے ڈھانچے کو نئے سرے سے
تشکیل کئے جانے کا سلسلہ جاری ہے جس میں بڑے پیمانے پر اونچ نیچ بھی آتی
رہتی ہے۔تاہم پاکستان تحریک انصاف کو نئی تنظیم سازی سے نا صرف موجودہ
حکومت کے خلاف جاری کی گئی احتجاجی تحریک میں بڑے پیمانے پر مدد درکار ہوگی
بلکہ اس کے ساتھ ساتھ 2018کے انتخابات میں بھی آج تیار کئے گئے گھوڑوں کو
ہی استعمال کرنا پڑیگا۔ کشمیر میں انتخابات کے دورارن ناکامی کے بعد تحریک
انصاف کے کارکنان کے اندر پیسے اور ترک کر کے حقیقی کارکنوں کو ٹکٹ دینے کے
مطالبات اور خاص طور پر ایسے چہروں کو سامنے لانے کے مطالبات کئے گئے کہ جو
کرپشن بددیانتی اور انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق شخصیات کے حامل ہوں تاکہ
عوام عمران خان کے تبدیلی کے نعرہ کو حقیقت کا رنگ سمجھنے کی کوشش کریں
کیونکہ اگر پرانے چہروں کو ٹکٹ دینے کی غلطیاں کی گئیں اور خاص طور پر
تنظیم سازی میں نوجوان طبقات کو سامنے نہ لایا گیا تو تحریک انصاف کے
مستقبل کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے یہ بات بالکل درست سمجھی جانی
چاہیے کہ سیاست میں سیاسی تجربات کا ہونا انتہائی ضروری ہے لیکن تحریک
انصاف کے وہ کارکنان کہ جنہوں نے گزشتہ چار سال سے بھرپور انداز سے اپنی
سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیاوہ آج کافی تجربات حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے
ہیں اگر ضلع منڈی بہاوالدین کے اندر تحریک انصاف کی کھینچا تانی کو دیکھا
جائے تو فیصل مختار گروپ اور مخالف گروپ آج ضلعی صدارت کی دوڑ میں شامل ہیں۔
فیصل مختار ضلع منڈی بہاوالدین کے وہ واحد فرد ہیں کہ جو پی ٹی آئی کے واحد
انٹرا پارٹی انتخابات میں کارکنان کی بھاری اکثریت حاصل کرنے کے بعد صدر
منتخب ہوئے ۔ لیکن ان کی صدارت کے فوراََ بعد مخالف گروپس کی جانب سے ایک
منفرد قسم کا شور شروع ہوا اور انہوں نے ان کی کامیابی کو ٹھکرا دیا اور
منڈی بہاوالدین میں پاکستان تحریک انصاف کے دور صدور دیکھنے کو ملتے رہے۔
تاہم یہ سلسلہ کافی عرصہ چلا پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اسلام آباد
میں منعقد کئے جانے والے دھرنے جو کہ بیسیوں روز تک جاری رہا میں منڈی
بہاوالدین سے سب سے زیادہ افراد کو اسلام آباد منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ اس
وقت کے پنجاب کے صدر اعجاز چوہدری سے بڑی تعداد میں کارکنوں کو عمران خان
کے کندھے سے کندھا ملانے پر آمادہ کیا۔ نہ صرف یہ بلکہ اپنی صدارت کے دور
میں پاکستان تحریک انصاف کی جماعت میں بڑی بڑی قد آور شخصیات کو شامل
کروایا اور چند افراد پر مشتمل تحریک انصاف کو سینکڑوں گاڑیوں کے مجمے میں
تبدیل کرکے منڈی بہاوالدین ضلع کی دوسری بڑی جماعت کی شکل اختیار کروا دی
اس بات کے بالکل مختلف کے 2008کے انتخابات میں ضلع منڈی بہاوالدین پاکستان
پیپلزپارٹی کے مکمل کنڑول میں تھا اور یہاں کی تمام سیٹوں پر اس کی حکومت
تھی لیکن 2013کے انتخابات سے قبل صدارت کا منصف سنبھالتے ہی انہوں نے
پیپلزپارٹی کی انتہائی بڑی قدآورشخصیات کو اپنی جماعت میں شامل کروایا اور
مسلم لیگ ن کی کئی اہم بڑی شخصیات بھی تحریک انصاف کا حصہ بنی اور یہ سلسلہ
ان کی صدارت ختم ہونے تک جاری رہا تاہم اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی
جماعت نے آرگنائزنگ کمیٹی کا قیام عمل میں لایا ۔آرگنائزنگ کمیٹی مکمل طور
پر ناکام رہی۔اور کسی ایک بھی فرد کو تحریک انصاف میں شامل نہ کروا سکے
بلکہ اعلیٰ قیادت کے سامنے بلدیاتی انتخابات میں پورا ضلع کامیاب کروانے کا
نعرہ لگانے والے صرف تین سیٹوں میں کامیابی حاصل کرسکے اور تحریک انصاف کی
باقی 3سیٹیں بھی فیصل مختار گوندل گروپ کے حصہ میں آئیں جس کے بعد پاکستان
تحریک انصاف کے ضلع میں کشمیر انتخابات کے حوالہ سے نامزد کردہ امیدوار کو
بھی آرگنائزنگ کمیٹی کے صدر گروپ کی طرف سے شدید مایوسی کا سامنا ہوا اور
محمد طارق تارڑ کی سپورٹ کے بعد موصوف ضلع منڈی بہاوالدین کے صرف ایک پولنگ
اسٹیشن واسو سے کامیاب ہوئے جب کہ گڑھ قائم سے محمد خان بھٹی بھرپور حمایت
کے بعد کامیابی حاصل ہوسکی۔ یہ بات مکمل طور پر عیاں ہے کہ فیصل مختار گروپ
نے آرگنائزنگ باڈی کے تمام معاملات کو قبول کرتے ہوئے کسی بھی مقام پر نہ
روڑے اٹکائے اور نہ ہی خود کو صدر تسلیم کرنے لکھنے یا کسی کو بتانے کی
جرات کی بلکہ اعلیٰ قیادت کی جانب سے کئے گئے تمام فیصلوں کو کھلے دل سے
تسلیم کیا۔جبکہ آج بھی اگر اس بات کا موازنہ کیا جائے تو تحریک انصاف کے
مجموعی کارکنان اور خاص طور پر تحریک انصاف کے نوجوانوں میں سے کچھ افراد
تو ایک اپنا مختلف نظریہ رکھتے ہیں لیکن بڑی تعداد فیصل مختار گوندل کو
قبول کرتی ہے اور مجموعی طور پرتحریک انصاف کے حوالہ سے ان کی جانب سے
فراہم کی جانے والی خدمات جذبہ اور نیت نیتی کو بہتر سمجھتی ہے- |