صرف کشمیر ہی نہیں....
(Muhammad Abdullah, Lahore)
بھارت میں جاری آزادی کی تحریکوں کا ایک جائزہ |
|
بھارت میں جاری آزادی کی تحریکیں اور ان کے
عروج کی داستان
مہذب دنیامیں عامۃ الناس کی بالادستی ،فیصلے اور اختیارکی قوت عوام کے پاس
ہونااور عوام کاسیاسی اورسماجی طورپر آزادا ورباشعور ہوناجمہوریت کہلاتاہے۔
جمہوریت کے دعویدار ہمیشہ سے یہ دعوے کرتے آئے ہیں کہ عوام کی سوچ ،فکر،
سیاسی اورسماجی سرگرمیوں کی آزادی جمہوریت سے بہترکوئی نہیں دے سکتا۔
اسی طرح دنیامیں ایک ایساملک بھی ہے جو اپنے آپ کو دنیاکی سب سے بڑی
جمہوریت گردانتاہے اوردن رات یہ راگ الاپتا ہے کہ دنیامیں اگر کسی جگہ پر
عوام کو شخصی آزادی اورفیصلے کی قوت حاصل ہے تو وہ اس ملک میں ہے۔ یہ ملک
دنیامیں بھارت کے نام سے جاناجاتا ہے۔اس دعوے کی روشنی میں جب ہم بھارت کی
درون خانہ سیاست و معاشرت اور شخصی وسماجی آزادی کابغورجائزہ لیتے ہیں
توحالت اس دعوے کے بالکل برعکس نظرآتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت دنیا میں
خود کو سیکولرسٹیٹ کادرجہ دلوانے کے لیے بھی مصروف کاوش رہتاہے کہیہاں
ہربندہ اپنی جگہ پرآزاد ہے ۔ کوئی دوسرا اس کی آزادی(مذہبی،پسندوناپسند،
سماج وغیرہ) پراثرانداز نہیں ہوسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت وہ ملک ہے جہاں پر ذات پات،نسل وبرادری ،مذہب اوررسم
ورواج کے نام پر انسانی حقوق کی جی بھرکرتذلیل کی جاتی ہے۔ حقوق انسانی کے
چارٹرز کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ ملک کے اندر مذہب، وعقیدہ اور ذات پات کی
بنیاد پر دوسرے مذاہب اورکمترذات کے لوگوں کو ہراساں کرنا،ان کاقتل عام
کرنا،ان کے کاروبار اورجائیداد کونذرآتش کرنا،بھارت کی تاریخ میں معمول کی
بات ہے اور ستم کی بات یہ ہے کہ یہ سارے کام اس حکومت کی محفوظ چھتری تلے
سرانجام دیے جاتے ہیں جو دنیا میں توجمہوریت اورسیکولرازم کی بات کرتی ہے
مگراپنے ملک کے اندر انہی ناموں کی ناموس کو تارتارکیاجاتاہے۔ نتیجتاً خوف
وہراس اورتشدد و غارت گری کی ایک فضاتشکیل پاتی ہے جس کے اندر مجبور ومقہور
قومیں بعض اوقات اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے جمہوری انداز اپنائے ہوئے اٹھ
کھڑے ہوتے ہیں۔ مظاہروں، ہڑتالوں اوراحتجاج کاسلسلہ شروع ہوتاہے۔ مگر
جمہوری حکومت پر جمہوری انداز گراں گزرتاہے اور وہ ان مظاہروں اوراحتجاجوں
کو بزورقوت دبانے اور جڑ سے ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے اس کے لیے بے بس اور
لاچار لوگوں کاملک کے اندرناحق خون بہایاجاتاہے۔ جس کے نتیجے میں لوگ بعض
اوقات تشدد اور غارت گری کو برداشت نہ کرتے ہوئے ریاستی اداروں کے خلاف
انہی کے رستے پرچلتے ہوئے بندوق اٹھانے پرمجبور ہوجاتے ہیں اور پھر علیحدگی
کی مضبوط تحریک پرمنتج ہوتے ہیں۔ بھارت کی تاریخ میں علیحدگی کی کتنی ہی
ایسی تحریکیں ہیں جن کے پیچھے ان پرہونے والاتشدد اورظلم وستم کابازار ہے
جو ان پر سرگرم کیاجاتاہے۔ جب وہ لوگ اپنے پیاروں کے تڑپتے لاشے دیکھتے
ہیں۔اپنے کاروبار اورجائیداد کو نذرآتش ہوتادیکھتے ہیں توان کی برداشت جواب
دے جاتی ہے اور وہ پھر ہتھیار اٹھاکر اپنے حقوق کے لیے مسلح تحریک کاآغاز
کردیتے ہیں۔
اس کی سب سے بڑی مثال تحریک آزادی جموں وکشمیر ہے جو 70سال سے اپنی آزادی
کی جنگ لڑرہے ہیں۔ کشمیریوں کی آزادی کی تحریک بہت پرامن اور جلسے جلوسوں
تک محدود تھی مگر جب بھارتی افواج نے ان پر مظالم ڈھائے اورنہتے کشمیریوں
پرآتش وآہن کی بارش برساکراجتماعی قبروں کو بھراتوکشمیریوں نے بھی اس کے
جواب میں مسلح تحریک کو ترجیح دی۔ آج کیفیت یہ ہے کہ کشمیری نوجوان ہتھیار
اٹھاکر بھارتی افواج کے مقابلے میں ڈٹاہواہے اوراس کی پشت پرپوری کشمیری
قوم سڑکوں پر موجودہے۔ تحریک آزادی جموں وکشمیر میں یہ عروج تاریخ میں اس
سے قبل نہیں دیکھاگیا۔
عام طورپر دنیا میں یہ سمجھاجاتاہے کہ بھارت کے زیرانتظام علاقوں میں فقط
کشمیر میں ہی انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے اور اس کے نتیجے میں فقط
کشمیرسے ہی آزادی اور علیحدگی کی صدائیں بلند ہورہی ہیں مگر یاتاثر درست
نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پورا بھارت آتش فشاں بنا بیٹھا ہے جوکسی
وقت بھی پھٹ سکتاہے۔ کشمیر کے علاوہ مشرقی پنجاب(خالصتان) تامل ناڈو، آسام،
ناگا لینڈ، تری پورہ، منی پور اور شمال مشرقی بھارت سمیت کئی ریاستوں میں
بڑی مضبوط آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔
ان سب تحریکوں میں کشمیر کی تحریک،خالصتان اور ماؤنواز کی تحریکیں سب سے
مضبوط تحریکیں ہیں۔اگر چہ بھارت نے افسپاجیسے کالے قوانین بناکران تحریکوں
کو بزور قوت دبانے کی اپنی سی بھرپورکوشش کی ہے مگر
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
لہو پھر لہو ہے بہتا ہے تو جم جاتا ہے
اس کے مصداق یہ تحریکیں بھارت کے ظلم وستم کے باوجود پہلے سے زیادہ تیزی کے
ساتھ ابھر رہی ہیں۔ حالیہ دنوں میں جہاں کشمیرکی تحریک میں تیزی آئی ، وہیں
پورے بھارت میں دیگرآزادی کی تحریکوں میں تیزی دیکھنے کوآئی ہے۔ پچھلے دنوں
ناگالینڈ کے معاملے میں تو بھارت ان کو پاسپورٹ اورجھنڈاتک علیحدہ دینے کو
تیار بیٹھا تھا۔ اب یہ تحریکیں نوجوانوں کے سرپرہیں جو تعلیمی اداروں میں
ان تحریکوں کے حق میں جلسے جلوس کرتے ہیں۔
اسی طرح جواہرلال نہرویونیورسٹی اوراس کے بعد ملک کی دیگر بڑی یونیورسٹیز
میں ان تحریکوں کے حق میں ہونے والے احتجاج کی بازگشت پوری دنیامیں سنی گئی
اور اس پرپوری دنیامیں تبصرے ہونے لگے کہ بھارت انسانی حقوق کی مسلسل خلاف
ورزیاں کررہاہے۔
سوشل میڈیا اوراپنی تعلیم کے مؤثر استعمال کے ساتھ ان نوجوانوں نے آزادی کی
تحریکوں کو اس سطح پر پہنچا دیا ہے کہ بھارتی افواج اپنے تمام تر مظالم اور
قوت کے ساتھ بھی ان تحریکوں کے سامنے بے بس نظرآتی ہے۔
کشمیرکی تحریک آزادی میں آنے والی موجوہ تبدیلی اورلاکھوں شہداء کی قربانی
کے ثمرآور ہونے کے اس عظیم موقع پر ہم آپ کے سامنے بھارت میں چلنے والی
دیگرآزادی کی مضبوط تحریکوں اوران کے پس منظر کو رکھتے ہیں۔
ماؤنواز تحریک اورنکسل باڑی:
بھارت کے160سے زائد اضلاع پر ماؤنواز باغیوں اورنکسل باڑیوں کاقبضہ
ہے۔آندھراپردیش، جھاڑ کھنڈ ،اڑیسہ،مغربی بنگال،چھتیس گڑھ، مہاراشٹر اور بوج
مرہ وغیرہ کے92ہزار مربع کلومیٹر پران باغیوں کی حکومت ہے۔ان کی اپنی
عدالتیں اور اپناپولیس کانظام ہے۔ حکومت کاکوئی کارندہ وہاں پرنہیں
مارسکتا۔وہ پوری پوری انتظامیہ کوقتل کر دیتے ہیں۔بھارت کے سرکاری ذرائع کے
مطابق ان ماؤنواز باغیوں کی تعداد60ہزار سے تجاوز کرچکی ہے اور ان کے پاس
جدید سے جدید اسلحہ ہے اور اب تک یہ ہزاروں بھارتی فوجیوں کو موت کے گھاٹ
اتارچکے ہیں۔بھارت کی انتظامی اورفوجی مشینری ان کے سامنے مکمل طورپربے بس
ہوچکی ہے۔
گزشتہ ماہ مہاراشٹر کے ضلع میں ایک حادثے میں بھارت کے سترہ فوجی ہلاک
ہوگئے۔ اسی طرح بہار میں نکسلوں نے گھات لگاکر بھارت کے بیس کوبرا کمانڈوز
کوقتل کردیااور دس کو شدید زخمی کیا۔باغیوں کی طرف سے بھارتی فوج
اورانتظامی مشینری پریہ ایسی کاری ضرب ہے جو بھارت کوابھی تک ہضم نہیں
ہورہی ہے۔
خالصتان تحریک:
کشمیرکے بعد دوسری لمبے عرصے تک چلنے والی خالصتان کی تحریک ہے جوبھار ت
میں بسنے والے سکھوں نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خاتمے کے لیے شروع کی
اور بالآخر یہ خالصتان کے مطالبے پرمنتج ہوئی۔ سکھوں کے بے شمار تنظیمیں
ہیں جواس تحریک میں شعلہ جوالاکاکام کررہی ہیں۔ ان میں اکالی دل،ببرخالصہ
وغیرہ قابل ذکر ہیں۔سکھ بھی اب یونیورسٹیوں اوراسی طرح دیگر کئی ممالک میں
اپنی تحریک کوزندہ رکھے ہوئے ہیں۔چنددن قبل برطانیہ میں ہونے والے مظاہرے
میں خالصتان تحریک کے لیے احتجاج کرنے والوں نے اس طرح کے نعرے لگائے:
پنجاب خالصتان کا
کشمیرپاکستان کا
ان دو تحریکوں کے علاوہ آسام میں مسلم یونائٹیڈ لبریشن ٹائیگرز آف آسام،تری
پورہ،منی پورہ وغیرہ میں لوگ مسلسل آزادی کے لیے کاوشوں میں مصروف ہیں۔
اس وقت کشمیرکی حالیہ تحریک میں آنے والی شدت کااثردوسری تحریکوں پربھی
پڑاہے اورلوگ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ بھارت سے علیحدگی کامطالبہ دہرانے
لگے ہیں۔نتیجتاً بھارت گیس کے اس غبارے کی مانند بنتاجارہاہے جو پریشرسے
کسی بھی لمحے پھٹ سکتا ہے. |
|