ابھی تک پائوں سے چمٹی ہے زنجیریں غلامی کی 

ہمیں وہ آزادی چاہئے جس کے لئے مالٹا آباد کیاگیا تھا۔ ہمیں وہ گنگ و جمن والا ماحول چاہئے جس کے لئے ہندو مسلم متحدہ قوم بن کر انگریزوں سے سینہ سپر ہوئے تھے۔ ہمیں وہ آزادی چاہئے جس کے کیلئے مولانا آزاد نے جامع مسجد دہلی کے منبر سے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا "تمہیں یاد ہے جب میں نے تمھیں پکارا تو تم نے میری زبان کاٹ دی، میں نے قلم اٹھایا تو تم نے  ہاتھ کاٹ ڈالے،میں نے چلنا چاہا تو تم نے میرے پاؤں کاٹ دیئے اور میں نے کروٹ لینی چاہی اور تم نے میری کمر توڑ دی " اتنا سننا تھا کہ میرے پاؤں جم گئے اور پھر ہم پر مصائب و شدائد کی مشق ستم ایجاد کی سنتیں تازہ کی جانے لگیں؛ لیکن پھر بھی اسی ہندوستان کو" نگار جہاں خویش " قرار دیا، ہمیں وہی ہندوستان اور وہی آزادی چاہیے جس کے لئے مولانا آزاد نے ہمیں ہجرت سے روکاتھا؛ کیوں کہ ہم اس عظیم دھرتی کے برابر کے حصہ دار ہیں، ہمارا بھی خون چمن زار گلستاں کو شاد رکھے ہوا ہے،ہمیں وہ آزادی چاہئے جس کا نعرہ کنہیا کمار نے جے این یو میں لگایا تھا۔ کہ ہم لے کر رہیں گے آزادی۔ہمیں منوواد سے چاہیے آزادی، ہمیں افلاس سے چاہیے آزادی، ہمیں بھوک سے چاہیے آزادی، ہمیں منافرت سے چاہیے آزادی، اور ہمیں تشدد سے چاہیے آزادی ، ہمیں وہ بھارت چاہیے جس کا خواب گاندھی سے لیکر سرحدی گاندھی نے دیکھا تھا، ہمیں جنت نشان بھارت چاہیے کہ جس کی فضاؤں میں نفرت، تشدد اور اشتعال نہ ہوں ؛ بلکہ بوئے ختن فضا کو بدمست کر رہی ہو ۔
اگر قومیں اپنی بلندی و پستی کے فیصلے اپنی بقاء کی جنگ لڑ کر کرنا چاہیں تو یقیناً نتائج کچھ تو مثبت نظر آئیں گے لیکن اگر قومیں اپنے اقتصادی و دفاعی معاملات کیلئے کسی کے قدموں پر ہی گِر پڑے تو پھر ڈسنے کا لفظ کیسا ؟ بس امریکہ کے منصوبے کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا کہ جو مالی و اقتصادی ضروریات کیلئے امداد و قرضوں سے ہی زیر ہو گیا اُس پر مزید زور کیا لیکن جس ملک نے تمام فوائد بھی حاصل کر لیئے یا اِن بڑے ممالک کے منصوبے میں رُکاوٹ بننے کی کوشش کی تو اُسکے خلاف کسی قسم کی فوجی کاروائی کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے۔ یہاں سب سے دِلچسپ بات یہ تھی کی پہلے امریکہ براہِ راست فوجی کاروائی کے تحت ایکشن کرتا اور پھر مزید کروائی بڑھانے کیلئے نیٹودفاعی تنظیم کو آگے کر دیتا تا کہ کامیابی کی صورت میں تاج امریکہ کے سر پر ہی سجے۔ بعض دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ کسی اور ملک کو جارحیت کو روکنے کیلئے آگے کر دیتا اور اگر یہ محسوس کرتا کہ معاملہ بے قابو ہونے کے در پر ہے تو صلح و امن کو اہمیت دیتے ہوئے اُس ملک کو مزید کاروائی کرنے سے روک دیتا۔ اس سارے کھیل میں اسرائیل کو اولین اہمیت حاصل ہوتی۔عرب ممالک کے حکمران اس دوران مسلمانوں کے اتحاد کیلئے کیا کر رہے تھے یہ ایک اور دلچسپ معاملہ رہا۔

عرب لیگ:
20ویں صدی کے آغاز میں عرب خطے میں بھی ایک انقلاب برپا ہو تا ہوا نظر آیا ۔ہر اسلامی ملک نے اپنی حیثیت کے مطابق آزادی کے پراونے حاصل کیئے ۔جو ملک تاریخی طور پر اپنی ایک بہترین ساخت قائم رکھے ہوئے تھے لیکن گزشتہ چند دہائیوں سے سازشی عناصر کا شکار تھے وہ اپنی اہمیت و حیثیت کو منوانے کیلئے کچھ آئینی و قانونی تبدیلیاں کر کے بیرونی طاقتوں کے سائے میں پروان چڑھنے کیلئے تیار نظر آنے لگے۔اس دوران چند مسلم رہنماؤں نے یہ دیکھتے ہوئے کہ امریکہ اور اُس کے اتحادی یہودیوں کواپنے مختلف معاہدوں کی ذریعے مدد فراہم کر رہے ہیں تو اُنھیں بھی خطے میں اپنی اہمیت قائم رکھنے کیلئے ایک اتحادی تنظیم کی ضرورت پیش آئی جسکا قیام مارچ1945ء میں"عرب لیگ"کے نام سے سامنے آیا۔ اولین مقصد اتحاد بین العرب کا فروغ اور عرب ممالک کے تنازعوں کو افہام و تفہیم کے ذریعے کرناتھا۔
لہذا جیسے کہ پہلے ذکر آچکا ہے کہ 1948ء میں اسرائیل کی ریاست کے قیام سے فلسطین کا مسئلہ مسلمانوں و عرب ممالک کیلئے لمحہِ فکریہ بن گیااور دوسرا کچھ ممالک میں امریکہ و یورپ کے سرمایہ دارانہ رویئے کے خلاف اشتراکی نظریا ت کے اثرات نظر آنا شروع ہوئے تو مسلمانوں کو اپنی دفاعی صلاحیت کیلئے آگے قدم بڑھانا پڑا۔ عرب اسرائیل جنگ1956ء جسکی اہم وجہ مصر کی حکومت کا نہرِ سویز کو قومی تحویل میں لیکر اسرائیل پر معاشی حملہ کرنا تھااُسے صلاحیت کا اہم ثبوت تھا ۔بہرحال ایک طرف سے یورپ اسرائیل کی مدد کیلئے آگیا اور دوسری طرف سے سویت یونین ۔ معاملہ اقوام متحدہ پہنچا اور جنگ بندی لائن پر اقوامِ متحدہ کی پولیس فورس تعینات کر دی گئی۔

1967ء اور1973ء کی عرب اسرائیل جنگیں بھی ماضی کے پیچیدہ معاملات پر تصفیہ نہ ہونے کی وجہ سے لڑی گئیں۔دوسری طرف ہر دفعہ بڑی طاقتوں کا ڈرامائی کردار اور اقوامِ متحدہ کی مداخلت جنگ بندی کا باعث بنی لیکن مسلمانوں و عرب ممالک کے حق میں کوئی مُثبت فیصلہ ہونے کی بجائے جون 1975ء نہرِ سویز کھلوا دی گئی ۔ستمبر1975ء میں اسرائیل اور مصر کے درمیان طاقت استعمال نہ کرنے کا معاہدہ ہو گیا۔جس پر 3سال بعد دونوں ممالک نے امریکہ میں کیمپ ڈیویڈ سمجھوتے کے مطابق باقاعدہ طور پر مستقبل کے اَمن تعلقات کیلئے معاہدے پر مہر ثبت کر دی ۔ اِن جنگوں میں اُردن و شام کا کردار بھی سب سے اہم اور قابلِ تعریف رہا۔کیونکہ اسرائیل کی جبری قیام کی مخالفت کسی اسلامی ملک کو بھی ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی۔
او۔آئی۔سی (آرگنائزیشن آف دی اسلامک کانفرنس) کا قیام :
امریکہ، روس اور اسرائیل اپنے مقاصد میں کامیاب ہو رہے تھے اور دوسری طرف معلوم نہیں اُس وقت تک عرب لیگ سے اگلی کڑی کیلئے تمام مسلم ممالک آپسی گٹھ جوڑ کیلے ایک بڑی اتحادی تنظیم کے قیام کے کونسے اصول واضح کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ لیکن پھر اچانک ستمبر 1969 ء میں پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کا مراکش کے شہر رباط میں انعقاد ہوا جس میں مسلم ممالک نے حصہ لیتے ہوئے او۔آئی۔سی (آرگنائزیشن آف دی اسلامک کانفرنس) کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اگلا مرحلہ ایک ایسے جوڑ کا تھا جس کا کوئی توڑ نہ ہو سکے اور ہو بھی مسلم ممالک کا جنکی قومیت چاہے کوئی بھی ہو لیکن اُمتِ مسلم کی اصطلاح پر ا یک ہو جائیں اور غیر مسلموں کیلئے یہ کسی خوف سے کم نہ ہو۔ لیکن کیا یہ او۔آئی ۔ سی تنظیم غیر مسلم قوموں کے لیئے انگریزی کے حرفِ عام جملے او آئی سی کے برابر ہی تو نہیں سمجھی جائے گی ؟ کیا یہ اُن کا مقابلہ کر پائے گی؟
NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 77682 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.