دیر آید درست آید
(Syed Muhammad Ishtiaq, Karachi)
پیپلز پارٹی کے دبئی میں ہونے والے ایک
اعلی سطحی اجلاس میں وزیر اعلی سندھ کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔گو
کہ یہ فیصلہ کافی تاخیر سے کیا گیا ہے لیکن امید کی جاتی ہے کہ اس فیصلے کے
مثبت نتائج برآمد ہونگے۔محترم قائم علی شاہ عمر کے جس حصّے میں ہیں اُس میں
ان سے ۱۰۰ فیصد کی کارکردگی توقع تو یقینانہیں کی جا سکتی تھی۔ اس وجہ سے
صوبہ سندھ بظاہرترقی کی دوڑ میں باقی صوبوں سے پیچھے نظر آتا ہے۔قائم علی
شاہ کی سابقہ کاکردگی بطور وزیر اعلی سب کے سامنے عیاں ہے اور اُس پر تنقید
کے بھی بے شمار پہلو ہیں لیکن اب جب کہ اُن کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا
گیا ہے تو اب اُن کی کارکردگی کو موضوع بحث بنانے کا فائدہ نہیں،ہماری توجہ
نئے وزیر اعلی کی نامزدگی اور کارکردگی پر ہونی چاہئے۔ نئے وزیر اعلی کے
طور پر مراد علی شاہ صاحب کا نام پارٹی کی طرف سے تجویز کیا گیا ہے،امید ہے
کہ وہ جلد ہی اسمبلی سے منتخب ہوکر وزیر اعلی کا عہدہ سنبھا لیں گے۔صوبہ
سندھ میں حالات ہر حوالے سے ہی بگڑے ہوئے ہیں جو ۱۰۰ فیصد مثبت کارکردگی کے
ہی متقاضی ہیں۔ لہٰذا نئے وزیر اعلی سندھ کے اوپر بہت بڑی ذمّہ داری عائد
ہوتی ہے کہ وہ سندھ کے عوام میں پیدا ہونے والی احساس محرومی کا ازالہ کرنے
کی بھرپور کوشش کریں۔صوبہ سندھ ماضی میں سہولیات کے اعتبار سے مُلک کے باقی
صوبوں سے آگے تھا۔باقی صوبے کے لوگ اوائل قیام پاکستان سے روزگار اور تعلیم
کے لئے سندھ خصوصا کراچی آنے کو ترجیح دیتے تھے ۔اسی وجہ سے سندھ اور کراچی
ہمیشہ آبادی کے دباؤ کا شکار رہے ہیں۔جوں جوں مُلک کی ٓبادی بڑھتی رہی ،آبادی
کا دباؤ بھی سندھ پر بڑھتا رہا۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ماضی میں کسی
بھی حکومت نے آبادی کے اس دباؤ کا ادراک نہیں کیا ،یوں سندھ اور کراچی
مسائل کا گڑھ بنتے چلے گئے۔اب نئے وزیر اعلی کے پاس سنہری موقع ہے کہ وہ
تمام سماجی،تعلیمی اور معاشی مسائل کا ادراک کرتے ہوئے ایسی جامع پالیسی
بنائیں کہ مسائل کا انبار جو کھڑا ہوگیا ہے اُس میں پہلے مرحلے میں کمی،پھر
بتدریج خاتمے کی طرٖف بڑھیں۔اس موقعے پر اس تحریر کے ذریعے نئے وزیر اعلی
کی توجہ سندھ اور کراچی کے مسائل پر دلانا چاہیں گے ۔تاکہ صوبے کی بہتری کے
لئے جو بھی پالیسی بنائی جائے ۔اُس میں ان مسائل کو بھی مدّنظر رکھا
جائے۔سندھ میں 4500اسکول کی عمارتیں قائم ہیں لیکن درس دینے کے لئے معلم
نہیں ہیں۔۵۲۵ عمارتیں مویشی کے باڑوں میں تبدیل ہوچکی ہیں،سندھ بھر میں
6721 اسکول غیر فعال ہیں۔اسی طرح 2081اسکول صرف کاغذوں کی سطح پر آباد
ہیں۔کراچی جیسے شہر میں 85 کے قریب اسکول گھوسٹ پائے گئے۔لہٰذا نئے وزیر
اعلی کو چاہئے کہ فوری طور پر تعلیم کے حوالے سے جو مسائل ہیں ان کے حل کی
طرف پہلا قدم اٹھائیں کہ تعلیم ہی کسی مہذب قوم کا سرمایہ ہوتی ہے۔صحت کے
مسائل کے حوالے سے بھی کوئی تسلی بخش اعداد و شمار نہیں ہیں۔خیرپور شہر
جہاں سے قائم علی شاہ صاحب منتخب ہو کر آئے ہیں۔وہاں عرصہ 7سال سے ایک
ہسپتال 65کروڑ کی لاگت سے شروع کیا گیا تھا،لیکن اب تک ہسپتال کی تعمیر
مکمل نہیں ہو پائی ہے ۔جب کہ 1.5ارب روپے تعمیر پر خرچ ہوچکے ہیں۔اسی طرح
باقی ماندہ اندرون سندھ میں بھی صحت کا محکمہ ابتری کا شکار ہے۔کراچی جہاں،
کراچی کے شہریوں کے علاوہ اندرون سندھ سے بھی لوگ سرکاری ہسپتالوں میں علاج
و معالجے کے لئے آتے ہیں، ابتری کا شکار ہیں،سرکاری ہسپتال سہولیات میں
مزید بہتری کے منتظر ہیں۔تعلیم اور صحت دو ایسے شعبے ہیں جن کو بہتر بنا کر
ہم بھی ترقی یافتہ قوم میں شمار ہوسکتے ہیں۔تھر کی صورتحال پر بھی فوری
توجہ دینے کی ضرورت ہے۔تھر صوبے کا سب سے پسماندہ علاقہ ہے۔آبادی کی اکثریت
غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔تھر کی 30% آبادی غذائی قلّت
کا شکار ہے۔2016 کے ابتدائی 6ماہ میں360تک اموات کی تصدیق ہوچکی ہے۔گزشتہ
2سال میں اموات کی تعداد 1000ہے۔لہٰذا تھر کے مسائل بھی فوری توجہ کے مستحق
ہیں ۔تعلیم ،صحت اور غذائی قلت کے مسائل فوری حل کئے جائیں تاکہ تھر کے
عوام بھی سہولیات کے اعتبار سے صوبے کے باقی شہریوں کی سطح پر آسکیں۔شہروں
میں آگ لگنے کے بھی واقعات ہوتے رہتے ہیں۔تیسرے درجے کی آگ کو بجھانے کے
لئے فوم نامی کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے،جو کراچی جیسے شہر میں بھی عدم
دستیاب رہتا ہے اگر دستیابی ہو بھی جائے تو فائر بریگیڈ کا عملہ جدید تربیت
اور حفاظتی لباس سے محروم ہے۔کراچی میں22اسٹیشن ہیں لیکن تیسرے درجے کی آگ
کو بجھانے کے لئے بہت قلیل مقدار میں مذکورہ فوم دستیاب ہوتا ہے ۔ہر فائر
اسٹیشن پر 20لٹر فوم ہونا چاہئے جو کہ دستیاب نہیں ہے ۔آخری دفعہ 2013میں
فوم کی خریداری ہوئی تھی۔لہٰذا فوم اور ضرورت پڑنے پر پانی کی دستیابی کو
یقینی بنایا جائے تاکہ جانی نقصان کے ساتھ مالی نقصان سے بھی بچا
جاسکے۔سندھ اور کراچی جیسے شہر میں صفائی کے بھی مناسب انتظامات نہیں
ہیں۔ایک عالمی ادارے کے مطابق کراچی کا شمار دنیا کے 5 آلودہ ترین شہروں
میں ہوتا ہے۔اسی طرح ہر جگہ کچرے کے انبار نظر آتے ہیں۔فضائی آلودگی کے
خاتمے کے لئے اقدامات کے ساتھ ،کچرے کو ٹھکانے لگانے کا بھی فوری انتظام
یقینی بنانے کی ضرورت ہے ۔صرف کراچی میں جمع ہونے والے کچرے سے300میگا واٹ
کے قریب بجلی پیدا کی جاسکتی ہے اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔صوبے
میں منشیات بھی دھڑلّے سے دستیاب ہے تقریبا17لاکھ افراد اس لعنت کا شکار
ہیں۔منشیات کے استعمال کی وجہ سے HIVور خون میں پیدا ہونے والی بیماریوں
میں تشویشناک حد تک اضافہ ہواہے۔منشیات فروخت کرنے والے افراد کو پکڑنے کے
ساتھ اس پر بھی توجہ دی جائے کہ یہ منشیات کہاں سے آرہی ہے ۔اس کا بھی
سدّباب کیا جائے ،تاکہ نوجوان نسل اور عام افراد اس لعنت سے آئندہ محفوظ رہ
سکیں۔خواتین کے ساتھ ہونے والے جرائم بھی بہت سنگین ہیں ۔مختلف وجوہات کی
وجہ سے روزانہ5سے6خواتین روزانہ قتل ہورہی ہیں۔خواتین کے ساتھ ہونے والے
امتیازی سلوک اور جرائم کے خاتمے کے لئے بھی فوری قدم اُٹھانے کی ضرورت
ہے۔امن و امان کی مجموعی صورتحال میں یقینا بہتری آئی ہے۔ اس کو قائم اور
مزید موئثر بناے کی ضرورت ہے ۔اگر مذکورہ مسائل پر نئے وزیراعلی صاحب فوری
اور موئثر اقدامات اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بناتے ہیں،تو کوئی وجہ
نہیں کہ صوبہ سندھ اور کراچی اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے میں
کامیاب ہو جائیں گے تو یہی کہا جائے گا،دیر آید درست آید۔ |
|