مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام نے جس طرح اپنے
خون کی ندیاں بہا کر لگا کر بھارت اور اس کے قبضے کو بے بس کر کے دکھایا ہے،
اس کی مثال شاید تاریخ میں کم ہی دیکھنے کو ملے۔ بھارت کی ہر طرح کے کیل
کانٹے سے لیس 10لاکھ فورسز نے نہتے، بے بس، بھوکے، پیاسے، زخموں سے چور چور
اور کئی دہائیوں سے ہر طرح کے ظلم کے ستائے کشمیری جس طرح ٹکرا رہے ہیں اس
نے ایک عالم کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ایک ماہ سے زائد عرصہ ہو چکا،
ساری مقبوضہ وادی کا مکمل محاصرہ ہے اور یہاں ہر طرف گولیوں، ڈنڈوں کی
برسات، زہریلی گیسوں کے بادل، شہداء کی لاشیں، زخمیوں کا خون اور قیدیوں کے
تکبیر و آزادی کے نعرے ہی سنائی دے رہے ہیں۔ بھارت کا خیال ہے کہ وہ ہمیشہ
کی طرح ظلم و ستم ڈھا کر کشمیریوں کو بے بس کر دے گا اور پھر…… خاموشی چھا
جائے گی۔ بھارت بخوبی جانتا ہے کہ سارا عالم کفر صرف اسلام دشمنی کی بنیاد
پر اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ اقوام متحدہ خاموش ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں کو
معمولی بیان داغنے کے علاوہ کوئی زیادہ متحرک ہونے کی ضرورت محسوس نہیں
ہوتی، لہٰذا وہ جو چاہے کریں، ڈر کاہے کا۔ یہی تو وجہ ہے کہ اسلام آباد میں
منعقدہ سارک وزرائے داخلہ کانفرنس کیلئے بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ
کی جب پاکستان آمد ہوئی تو اسے بھارت سے باقاعدہ یہ منصوبہ دیا گیا تھا کہ
وہ پاکستان جا کر اور ان کے گھر بیٹھ کر، ان کے خلاف خوب زبان درازی کرے۔
پاکستان میں جماعۃ الدعوۃ کے امیر حافظ محمد سعید اور کشمیری حریت تنظیموں
نے اس بات کا اعلان کیا کہ وہ بھارتی وزیر داخلہ کی آمد پر اپنا احتجاج
ریکارڈ کرائیں گے کہ یہ وہی شخص ہے کہ جس کے کہنے پر کشمیریوں کا دن رات
خون بہایا جا رہا ہے۔ اسی شخص کی تحریک پر بابری مسجد شہید ہوئی تھی جس کے
بعد خوفناک مسلم کش فسادات بپا ہوئے تھے۔ ان فسادات میں جہاں ہزاروں مسلمان
شہید ہوئے تھے وہیں مزید سینکڑوں مساجد کو مسمار کر دیا گیا تھا۔ یہ وہی
شخص ہے، جس کی تحریک پر آج کل بھارت میں گائے کے ذبیحہ کا الزام عائد کر کے
ہر جگہ مسلمانوں پر قافیہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ جگہ جگہ انہیں مارا، قتل
کیا جا رہا ہے بلکہ اب تو گائے کے گوشت کے نام اور الزام پر مسلمان خواتین
کی بھی شامت آ رہی ہے۔
راج ناتھ سنگھ پاکستان آمد سے چند دن پہلے مقبوضہ کشمیر بھی پہنچا تھا جہاں
اس نے کشمیریوں کو طفل تسلیوں سے بہلانے کی کوشش کی تھی لیکن کشمیریوں نے
متفقہ طور پر راج ناتھ کے ساتھ ملاقات ہی سے انکار کر دیا تھا۔ اسلام آباد
میں منعقدہ سارک وزرائے داخلہ کانفرنس میں پاکستانی وزیر داخلہ چودھری نثار
علی نے کشمیر مقبوضہ میں بھارتی ظلم و ستم اور تحریک آزادی کے حوالے سے جو
موقف اپنایا اور راج ناتھ کو جو نتھ ڈالی، وہ اس کے نتیجے میں پہلے تو بار
بار رفع حاجت کیلئے بیت الخلاء کے چکر لگاتا رہا۔ پھر آخری سیشن سے پہلے ہی
وہاں سے رفوچکر ہو گیا۔ بھاگتے چور کی طرح جان بچاتے نکلتے راج ناتھ کا
کہنا تھا کہ وہ بھارت پہنچ کر ہی اپنا موقف بیان کریں گے کہ پاکستان میں رہ
کر تو ان میں جواب دینے کی ہمت نہیں رہی تھی۔ یوں اپنے گھر بھارت پہنچ کر
شیر بننے والے راج ناتھ سنگھ نے برہان وانی شہید اور دیگر کشمیری مجاہدین
کے حوالے سے کہا کہ کسی ملک کا دہشت گرد دوسرے کیلئے ہیرو نہیں ہو سکتا۔
بھارت کے تمام حکمرانوں نے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوشش
کی لیکن یہ ہمسایہ سدھرنے کا نام نہیں لیتا۔ میں پاکستان کھانا کھانے نہیں
گیا تھا۔ اور پھر …… وہی طوطے کی رٹ کہ پاکستان دہشت گردوں میں فرق ختم کرے۔
سرحد پار اپنے ہاں دہشت گردوں کے اڈے بند کرے۔ وغیرہ وغیرہ۔ بھارتی وزیر
داخلہ کی آمد کے موقع پر لاہور میں خطاب کرتے ہوئے امیر جماعۃ الدعوۃ
پاکستان حافظ محمد سعید نے کہا تھا کہ اگر راج ناتھ اسلام آباد سے روتا ہوا
واپس گیا تو یہ چودھری نثار کی کامیابی ہو گی اور پھر سارے عالم نے دیکھا
کہ راج ناتھ ہوتا ہی نہیں، دھوتی جوتی سنبھالتا ہوا واپس گیا۔
پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کے بیان داغنے والے بھارتی وزیر
داخلہ سے کوئی پوچھے کہ تقسیم ہند سے لے کر آج کے دن تک وہ کون سا لمحہ یا
گھڑی ہے جب بھارت نے پاکستان کو چرکے نہ لگائے ہوں۔ تقسیم ہند کے وقت
انگریز کے ساتھ ہندوؤں کی گہری سازباز اور گٹھ جوڑ سے پاکستان کے پانی کے
اور کئی علاقے بھارت کو دے دیئے گے، کشمیر بھی اس سلسلے کی ایک مثال ہے،
بعد میں بھارت کی جانب مہم کے ذریعے پاکستان کو توڑ تک دیا گیا۔ یہ زخم آج
تک تازہ ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کے اندر دہشت گردی، باہر سے حملے
بلکہ اندر آ کر پاکستانی جہازوں کو تباہ کرنا کون بھول سکتا ہے، اور پھر
دعوے کہ ’’ہم تعلقات اچھے بنانا چاہتے ہیں‘‘۔ اگر اچھے تعلقات کی خواہش ہے
تو کشمیر کے مسئلہ پر اقوام متحدہ کے اندر منظور کردہ قراردادوں پر عمل کر
کے دکھا دو۔ کشمیری قوم سر کٹا کر پاکستان سے وفاداری کا اظہار کر رہی ہے
لیکن انہیں دہشت گرد کہہ کر ان کی توہین اورقتل کیا جا رہا ہے اور کہہ دیا
جاتا ہے کہ صرف خاموش رہو۔ پاکستانی وزیراعظم جناب میاں نوازشریف نے دورۂ
مظفر آباد میں کشمیر کے حوالے سے بہترین جذبات کا اظہار کیا۔ ملکی سفراء کی
کانفرنس میں کشمیر کو اپنی پالیسی کی بنیاد قرار دیتے ہوئے سفراء کو دنیا
بھر میں کشمیر کا مسئلہ اجاگر کرنے کی ہدایت کی جو انتہائی خوش آئند اقدام
تھا۔ اس کے بعد انہوں نے بھارتی فورسز کے ہاتھوں زخمی ہونے والے کشمیریوں
کے علاج معالجے کی پیشکش کی اور بھارتی درندگی کو بھی ہدف بنایا۔ بھارت ان
کے بیانات اور اقدامات سے سخت پریشان ہے لیکن ہمیں اب ان بیانات کو اب عملی
شکل دینی ہے۔ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ امریکہ اپنے اغراض و مقاصد کے لئے تو ہم
پر دن رات دباؤ ڈالتا ہے کہ ہم حقانی نیٹ ورک کے خلاف اس کی مرضی و منشا کے
مطابق قدم اٹھائیں لیکن وہ ہمارے ملک کے کسی مسئلے کی پروا کرنے کو تیار
نہیں۔ ہمیں امریکہ سے دو ٹوک بات کرنا ہو گی کہ اگر اسے اپنے مخالفین کی اس
قدر پریشانی ہے تو ہمیں بھی کشمیر کی آزادی اور بھارت کی طرف سے دہشت گردی
کی فکر لاحق ہے۔ گزشتہ حکومتوں نے اپنی خارجہ پالیسیوں میں ایک بڑی خامی یہ
رکھی کہ وہ امریکہ کے ساتھ دوستی و تعاون تو نبھاتے رہے لیکن اس سے اپنے
اہم ترین مسائل خصوصاً بھارت کے خلاف اور کشمیر کی آزادی کے حوالے سے کبھی
دو ٹوک اور ٹھوس موقف منوا نہیں سکے، بلکہ پیش ہی نہیں کر سکے۔ ساری دنیا
ہم سے تعاون چاہتی ہے تو ہم ان کے اس تعاون کے مطالبے کے بدلے میں کشمیر کی
آزادی کا مطالبہ ان کے سامنے رکھنے سے کیوں قاصر ہیں؟ اس مسئلے پر پوری
سنجیدگی اور گہرائی کے ساتھ غور کرنا ہو گا اور اس کا فوری عملی حل نکالنا
ہو گا۔ کشمیریوں نے خون کی بازی لگا کر مسئلہ کشمیر کو پھر سے دنیا بھر میں
اجاگر کر دیا ہے۔ ان کی قربانیوں سے ہمارے لئے راہیں آسان بنا دی ہیں۔ یوں
اب امتحان تو ہمارا ہے کہ ہم ان کی ان قربانیوں سے کتنا اور کیسے فائدہ
اٹھا کر کشمیر کی آزادی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ پاکستان کو یہ ضرور سمجھنا
ہو گا کہ اس کے دریاؤں کے پانیوں کا مسئلہ کشمیر کی آزادی کے بغیر کبھی حل
نہیں ہو سکتا۔ بھارت صرف دریائے چناب پر درجنوں ڈیم بنا رہا ہے اور اب تو
اسے اقوام متحدہ نے بھی یہ غیرقانونی ڈیم بنانے کے لئے قانونی سند جاری کر
دی ہے۔ اگر بھارت دریائے چناب کو مکمل بند کرنے میں کامیاب ہو گیا تو ہمارے
ملک اور ہماری زراعت کا کیا بنے گا؟ ہمارے ملک کی بقا اور دفاع کی بنیاد
کشمیر ہے۔ 69 ویں یوم آزادی کے موقع پر ہمیں صرف جشن منانے سے آگے بڑھ کر
اپنے ملک کی تکمیل کی فکر کو اجاگر کرنا ہو گا۔ بھارت سے اپنے حقوق لینے کے
لئے آگے بڑھنا ہو گا۔ کشمیریوں نے تو ہماری محبت میں خون کے دریا بہا دیئے،
لاکھوں جسموں کے ٹکڑے کروا دیئے، عزتیں لٹوا دیں، گھر بار جلوا دیئے، اب ہم
ان کی خاطر نہ سہی اپنی خاطر ہی سہی، بھارت کے خلاف کیسی پالیسی اپناتے اور
کشمیر کے مسئلہ کو کیسے حل کروانے کی کوشش اور سعی کرتے ہیں، اب یہ ہمارا
کڑا امتحان بھی ہے- |