پیمرا کی عجیب منطق

پیمرا شکایت کونسل سندھ نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’’لائیو ود ڈاکٹر شاہد مسعود کو 45دن کے لئے بند کرنے کی سفارش کی ہے۔ مذکورہ پروگرام میں چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ پر بہتان تراشی کی گئی تھی۔ پروگرام نشر کرنے پر پابندی کا اطلاق15اگست2016سے ہو گا ۔ یہ کتنی حیران کن بات ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کی بد زبانی، بد تہذیبی اور صحافی اقدار کی پامالی ثابت ہونے کے با وجود پروگرام پر پابندی کا اطلاق چھ دن کے بعد ہو گا۔ گویا پیمرا کی طرف سے ڈاکٹر شاہد مسعود کو چھ دن مزید دئیے گئے ہیں کہ وہ اپنے پروگرام یا کسی دوسرے ٹاک شو میں بد تہذیبی، بد کلامی اور صحافتی اقدار کی پامالی کر سکتے ہیں۔ پیمرا کے یہ رولز اور طریقہ کار سمجھ سے بالا تر ہیں کہ جو کام فوری طور پر کرنے کا ہے اسے چھ دن آگے بڑھا دیا گیا ہے۔ پیمرا کی مجاز اتھارٹی نے کونسل کی سفارشات کی منظوری دے دی ہے ۔ اس سلسلے میں پیمرا شکایات کونسل سندھ کا پروفیسر انعام باری کی زیر صدارت پیمرا ریجنل آفس کراچی میں ہوا۔ کونسل نے اے آر وائی نیوز چینل پر 22جون 2016کو نشر ہونے والے پروگرام لائیو ود شاہد مسعود جس کی میزبان ڈاکٹر شاہد مسعود خود ہیں، نے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے مطابق بہتان تراشی پر مبنی مواد نشر کرنے پر چینل کو 19جولائی 2016کوجاری ہونے والے اظہار وجوہ کے نوٹس پر سماعت کی۔ اے آر وائی نیوز کے مذکورہ پروگرام میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ پر بہتان تراشی کی جو کہ آئین کے آرٹیکل 19اور 204کی روح کے خلاف ہے جس کے مطابق اس بات کی ممانعت ہے کہ خبر یا تبصرے کے دوران کسی لفظ یا لب و لہجے سے عدلیہ اور فوج پر بہتان تراشی یا ان کی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے بارے میں بلواسطہ یا بلا واسطہ تضحیک و توہین کا پہلو نکلتا ہو۔ بغیر کسی تصدیق کے کسی بھی شخص کی ساکھ کے بارے میں یا ان کی پیشہ وارانہ دیانت کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں شکوک وشبہات ابھارنا آئین کے آرٹیکل 19اور204پیمرا آرڈینینس 2002پیمرا (ترمیمی) ایکٹ2007کے سیکشن 20(c) پیمرا قوانین رولز2009کے شق 15(A) پیمرا (ٹیلی ویثرن براڈ کاسٹ اسٹیشن آپریشن) ریگولیشن 2012 کی ریگولیشن 1 18(c) اور الیکٹرانک میڈیا ضابطہ اخلاق 2015کی شق3 (j-1) اور لائیسنس حاصل کرتے وقت جن قوائد ضوابط پر دستخط کئے گئے ان کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے کونسل نے مذکورہ اظہار وجوہ نوٹس اور چینل کی جانب سے جمع کرائے جانے والے جواب اور سماعت کے دوران چینل کا تفصیلی موقف سننے کے بعد مذکورہ پروگرام کی نشریات پر پیمرا آرڈینینس2002 (ترمیمی) ایکٹ 2007 کے سیکشن 27 کے تحت 45دن کی پابندی عائد کر نے کی سفارش کرد ی ہے ۔ پابندی کا اطلاق 15اگست 2016سے 28ستمبر2016تک ہو گا۔ کونسل کی سفارشات کے مطابق دوران پابندی ڈاکٹر شاہد مسعود اے آر وائی پر نہ تو اینکر کے طور پر نہ ہی تجزیہ کار کے طور پر اور نہ ہی مہمان کے طور پر کسی بھی نیوز بلٹن، پروگرام یا معمول کی نشریات کے دوران لائیو یا ریکارڈ شدہ پروگرام میں شامل نہیں ہو سکتے۔یہاں اہم سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود پر پابندی کا اطلاق15اگست سے کیوں کیا جا رہا ہے؟ اگر کسی پروگرام میں آئین پاکستان یا پیمرا رولز کی خلاف ورزی کی گئی ہے تو اس پروگرام اور پروگرام کے اینکر پر فوری طور پر پابندی کیوں عائد نہیں کی گئی؟ کیا یہ معقول بات ہے کہ اگر کسی اینکر پر رولز کی پامالی ثابت ہو جاتی ہے تو اس کے با وجود اسے چار پانچ دن چینل پر پروگرام کرنے کا موقع کی اجازت دے کر رولز اور قوانین کی مزید دھجیاں اڑانے کاموقع دیا جائے۔ یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ اگر کوئی کسی ملزم پر چوری کا الزام ثابت ہو جائے تو اسے اس وقت چھوڑ دیا جائے اور اس کے لئے مقرر کی جانے والی سزا کا اطلاق ایک ہفتے بعد کیا جائے۔کیاپیمرا کا یہ عمل عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے ؟ اگر مذکورہ اینکر نے پیمرا کی طرف سے ملنے والی خصوصی مہلت کے دوران اپنے کسی پروگرام یا کسی دوسرے ٹاک شو میں کوئی بد کلامی کی اور کسی جج یا کسی بھی دوسرے ذمہ دار شخص کی بغیر ثبوت کے پگڑی اچالی تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ دوسری ہم بات یہ کہ پیمرا کو اپنے رولزاور ایکٹ میں مزید ترمیم کر کے رولز کی خلاف ورزی کرنے والے چینلز کے مالکان کے خلاف بھی سخت کارروائی کرنی چاہیے کہ جو بار بار اس قسم کے نام نہاد اینکرز کو اپنا اسکرین استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اگر یہ سب کچھ کسی ایجنڈے کے تحت کیا جاتا ہے تو اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے اور چینل کے مالکان کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔ڈاکٹر شاہد مسعود اور مبشر لقمان جیسے لوگوں کو جو بد قسمتی سے اپنے آپ کو اب صحافی بھی کہنے لگے ہیں، اپنا قبلہ درست کرنا ہی پڑے گا۔ کسی بھی ٹی وی چینل یا اس کے اینکر کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بغیر کسی ثبوت کے محض خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے فراہم کردہ ایجنڈے کی تکمیل کے لئے کسی بھی باعزت شخض یا ادارے کی پگڑی اچھالے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود اور مبشر لقمان جیسے لوگ ایک خاص ایجنڈے پر کام کر رہے ہوتے ہیں ۔ ان کا مقصد محض ایجنڈے کی تکمیل کر کے اپنا آقاؤں کا خوش کرنا اور زیادہ سے زیادہ ریٹنگ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ جب یہ اینکر کی حیثیت سے پروگرام کر رہے ہوتے ہیں یا کسی ٹاک شو یا نیوز بلیٹن میں تجزیہ کار کے طور پر بیٹھے ہوتے ہیں تو نہ تو ان کا لب و لہجہ صحافتی ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی زبان کا صحافت کی مخصوص زبان سے کوئی دور دور کا بھی تعلق ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات ان کی زبان اخلاق اور تہذیب سے بھی گری ہوئی ہوتی ہے۔ ۔ یہ نام نہاد صحافی اور اینکر اکثر اوقات مداریوں جیسی حرکتیں بھی کر رہے ہوتے ہیں ۔ پیمرا کو قوانین اور رولز میں ترمیم کر کے ایسے بد تہذیب ، بدکلام اور بے لگام اینکرز پر تاحیات پابندی عائد کرنی چاہیے۔
Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 95 Articles with 61421 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.