میرا پاکستان کیسا ہو۔۔۔۔۔۔۔؟
(Kashif Khattak, Peshawar)
میرے وطن پر اترے ہو ئے فصل گل اور ان کو
اندیشہ زوال۔۔۔
تاریخ کے اوراق پلٹنے سے ما ضی کے جھروکوں سے ہمیں ایک بھیانک حصہ بھی ملتا
ہے جب انگریزوں کی چال اور ہندوؤں کے متعصبانہ رویئے سے تنگ آکر پاک لو گوں
نے ایک پاک وطن کا سو چا اور آزادی کے لیئے اکھٹے ہو کر اپنے لیئے ایک الگ
وطن کا مطالبہ کر دیا۔ کئی دہا ئیوں کی کوششوں سے ، اور لا تعداد قیمتی
جانوں کے نذرانوں سے ایک پاک وطن کی بنیاد رکھی گئی اور خشکی کے ایک چھو ٹے
ٹکڑے پر دو الگ الگ قومیت کا وجود ظہور میں آیا۔
چودہ اگست، ستائیس رمضان المبارک کی وہ با برکت رات جس میں اﷲ تعالیٰ کی
مہربانیاں کھل کر سامنے آگئیں اور پاکستان کا انعام دیا۔ مگر ہندوؤں کو
کیسے گوارا ہو تا کہ مسلمان سکھ کا سانس لیکر جینا شروع کر دیں۔ یہاں
پرتاریخ نے ایک سیاہ باب رقم کر کے ہندووں کا بھیانک چہرہ بھی محفوظ کر
لیئا۔ جب آزاد وطن ، پاک وطن کے طرف ہجرت کر نے والوں پر ہندووں نے مظالم
کی انتہا کر دیئے۔۔۔۔ لٹے پٹے قافلے پاکستان میں داخل ہو تے گئے اور اپنے
آنکھوں میں مستقبل کے نجانے کتنے خواب، کتنے آرمان سجائے داخل ہو ئے۔ اور
سب سے پہلے جو احساس ہو ا ہو گا وہ یقینا تحفظ ، سکون اور امن کا احساس ہو
گا کیونکہ وطن کی مٹی ماں کی گو د جیسی ہو تی ہے، خطرہ چاہے جتنا بھی بڑا
ہو ماں کی گود میں آکر تحفظ ہی محسوس کرتا ہے۔ یقینا میرے بزرگوں نے بہت
بڑی قربانیاں دی ہیں، انہوں نے بھی پاکستان کا ایک خواب دیکھا ہو گا، یہ
لٹے پٹے قافلے، شہیدوں کے قافلے، قربانیوں کے قافلے، پاکستان کا تصور لیئے
سو چا ہو گا کہ ہمارا پاکستان کیسا ہونا چاہیئے۔ان میں بہت سے اکا برین بھی
تھے ، جنہوں نے اپنے نئی نسل کے پود کو اپنی تحریروں، نظموں، شاعری سے بیش
بہا معلومات دی، ان کی تربیت کے لیئے بہت کچھ لکھااور آنے والے خطروں سے با
خبر بھی رکھا۔۔۔۔ اور انہیں ایک آئیڈیل پاکستان کی پہچان بھی دی جسکا تصور
آج بھی ایک پاکستانی شہری چاہتا ہے ، میں بھی پاکستان کا شہری ہو میں بھی
اپنے ملک کو دنیا کی ممالک میں آگے ہی دیکھنا چا ہتا ہو۔میں اپنے ملک کو
کیسا دیکھنا چاہتا ہوں، موجودہ حالات کے تنا ظر میں یہ بحث نہایت ہی مشکل
ہے مگر میرے ملک کی کیا خوبیاں ہیں جس سے ہم بے خبر ہیں آئیں ان سے با خبر
ہو جانے کی کوشش کریں کہ ہم کیسے ترقی کر سکتے ہیں۔
میرا ملک انہتر سال کا ہو چکا ہے، اسکی تر ییسٹھ فی صد آبادی پچیس سال تک
کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ہمارے اکابرین نے اپنی، شاعری میں نو جوانوں کو
ہی مخاطب کیا تھا، کیونکہ نوجوان امنگوں ، جوش و جذبے سے بھر پور ہو تے ہیں
اور ان سے ملک کا مستقبل وابسطہ ہو تا ہے۔ نوجوان ہی ملک کا سرمایہ ہو تے
ہیں۔
میرے نو جوانوں کی طا قت سے بھر پور فا ئدہ اٹھا یا جا ئے، انہیں تعلیم کے
مواقع فراہم کرکے اعلیٰ تعلیم کے لیئے راہیں آسان بنا دی جائیں ، پاکستان
کی سالانہ تقریبا ساڑھے چار لاکھ طلبا ء یو نیو رسٹییوں سے گریجیوٹ ہو تے
ہیں۔ یہ تعداد بہت کم ہے۔ اسکو کئی گنا بڑھا سکتے ہیں اگر ان کے مسائل حل
کیئے جایئں جیسے کہ معاشی مسائل وغیرہ ۔ خواتین کی اعلیٰ تعلیم آسان بنا نے
کے لیئے الگ یو نیو رسٹیوں پر تو جہ دینی ہو گی ۔ملک میں ٹیکنکل تعلیم کو
عام کیا جائے تو تعلیم کے ساتھ ساتھ روزگار کے چا نسز بھی کافی حد تک بڑھ
جا تے ہیں۔ ان تریسٹھ فی صد شاہینوں کو بھر پور مواقع فراہم کئے جا یئں،
انہیں اقبال کا محبوب و پسندیدہ بنا کر ستاروں پے کمنڈ ڈالنے کا مو قع
فراہم کیا جائے، دنیا کے ما ڈرن علوم حا صل کر کے دنیاسے مقابلہ کیا جا ئے،
نالج پارک ،اور آئی ٹی پارک جیسے منصوبے پاکستانی کے نوجوانوں کو ایک
بہترین راہ پر ڈال سکتے ہیں، ان کی استعداد سے فائدہ اٹھایاجا سکتا ہے۔
میرا پاکستان کسی بھی لحا ظ سے با ہر کی دنیا سے کمزور نہیں ، ہاں البتہ ہم
اندر سے جا نے انجانے میں اسکو کمزور کر رہے ہیں، میرے پاکستان کے خو بصورت
شہر جو کبھی پھولوں کے شہر ہو ا کرتے تھے، آج دنیا کے آلو دہ ترین شہر (
پشاور) بنا دئے گئے، کس نے بنائے؟؟؟؟ہماری ہی غفلت کی وجہ سے بن گئے۔ صفائی
جو کہ اسلام ہی کا شعار ہے آج آغیار نے شیوہ بنا لیا ہے اوردنیا کا صاف
ترین شہر کے ایوارڈ کینیڈا جیسے ممالک لے رہے ہیں۔ ہم کم ازکم گندگی کو نہ
پھیلا نے میں مدد تو کر سکتے ہیں نہ۔۔۔۔۔ کو ڑا کرکٹ ٹھکا نے لگا کر ماحول
کو آلودہ ہو نے سے بچا تو سکتے ہیں نہ۔۔۔۔میرا پاکستا ن خو بصورت بنا سکتے
ہیں۔حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق کام کرکے اپنے دیس کے اور اس کے شہریوں
کو آلودگی سے بچا سکتے ہیں۔
میرے پاکستان میں چند دہا ئی پہلے، ممالک تربیت لینے آتے تھے ۔ اسکی شہروں
کے نقشے ماڈل کے طور پر لیجاتے تھے جیسے ساوتھ کو ریا نے کراچی کا نقشہ
ماڈل لیا ہو ا تھا، جیسے اسکے جہاز دنیا کے نمبر ایک جہاز ہو ا کرتے تھے،
میرے وطن کے لوگ دنیا کو جہازوں کے بارے میں تربیت دیتے تھے ، مگر ہم آہستہ
آہستہ بے حس ہو تے گئے اور اسی ہی کو کمال سمجھ کر اسی پر اکتفا کر لیئا
اور اقبال کے اسباق بلا تے گئے ۔ اقبال نے برسوں پہلے ہماری تن آسانی سے
گلہ شکوہ کیا تھا، ہم نے سمجھا ہی نہیں اورآج گرتے چلے جا رہے ہیں۔ آج ہم
پستی کی طرف گرتے چلے گئے، اور ہمارے تقلید کرنے والے اونچائی کی طرف پرواز
کر تے گئے۔ اقبال نے توہمیں "ستاروں سے جہاں اور بھی ہے" ڈھونڈ نکا لنے کا
کہا تھا۔
میرے پا کستان کی سونی دھرتی ، زراعت کے لیئے نہایت ہی مو زوں ہے، ہمارا
نہری نظام بہترین نظام میں شمار کیا جا تا ہے، ہم پڑوسی ملک بھارت کی مثال
لے سکتے ہیں۔ جس نے بنجر پنجاب کو زرخیز پنجاب میں تبدیل کیا اور ملک کے
بیس سے ذیادہ صو بوں کو گندم فراہم کرتا ہے۔ ہمارے آبادی ستر فی صد آبادی
ذراعت سے منسلک ہے اس آبادی کی بہتر سائنسی بنیادوں پر تربیت کرکے ہم اپنی
آبادی دو وقت کی روٹی میسرکر سکتے ہیں۔ان کی آمدنی بڑھا سکتے ہیں۔ کسانوں
سے ٹیکس ختم کرکے انہیں خو ش کرکے تندہی سے کام کرنے دینے سے آمدنی میں اضا
فی کیا جا سکتا ہے، اور ملکی پیداوار بڑھا ئی جا سکتی ہے۔
ہم سویٹزررلینڈ کی مثال لے سکتے ہیں جو ایک چھو ٹا ملک ہے اس کی تقریبا
ساری آمدنی سیاحت کی فروغ پر سے حا صل ہو تی ہے ، دنیا کی سب سے بڑی پھولوں
کی مارکیٹ وہاں ہے اور خطیر آمدنی حا صل ہو تی ہے، ہمارے ہاں چار موسم ہے،
ہر ایک موسم ایک اپنی ہی ایک حسین رت ہے۔ ہم بھی اپنے حسین علاقوں کی سیاحت
کو فروغ دیکر اس کے لیئے ایک علیحدہ انٹرنیشنل چینل بنا کر دنیا پر اپنی خو
بصورتی آشکارا کر سکتے ہیں، دنیا کی نظر میں اپنا تاثر بہتر بنا سکتے ہیں۔
میرا ملک، میرا وقار، میر پہچان، پاکستان دنیا کی اس خطے میں واقع ہے جہان
دنیا ایک خواب ہی دیکھ سکتی ہے۔آپ چائینہ پاکستان اقتصادی راہداری کی مثال
لیں۔چایئنہ گوادر تک پہنچنے لیئے دنیا بھر سے رابطے میں رہنے کے لیئے
پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے پر مجبور ہے۔ جس سے پاکستان کو بیش بہا
فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ پاکستان کا یک پورا بجٹ اس راہداری کے کامیاب تکمیل سے
پورا ہو سکتا ہے۔ مگر ہمیں دشمن کی چال پر یہاں بھی نظر رکھنی ہو گی۔ اور
ہمیں پاکستان کے سارے صوبوں سے انصاف بھی کرنا ہو گا۔ ان کو پورے حقوق دلوا
کر ہماس راہداری کو کامیاب بنا سکتے ہیں۔ ایک روشن پاکستان کا خواب شرمندہ
تعبیر ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔
پاکستان کو لوڈشیڈنگ اور انرجی کرائسس جیسی ترقی کا پہیہ جام کرنے والے
مصیبتوں کا سامنا ہے مگر اﷲ تبارک و تعالٰی نے اسکا حل بھی اس سر زمیں کی
گو دمیں ہی رکھا ہے۔ دوسر پڑوسی ملک چائینہ دنیا کی پہلی قوم ہے جو سولر
انرجی سے 38000 میگا واٹ بجلی پیدا کر رہی ہے۔ اسی طرح کو ریا اور جاپان
بھی 25000 میگا واٹ سے زائد بجلی حاصل کر رہی ہے۔ ان سب کی محل وقوع ایسی
جگہ ہے جہاں سورج کی روشنی 1900 گھنٹے سالانہ ہیں ۔اب اﷲ تعالیٰ نیہمیں
ایسی محل وقوع دی ہے جہاں سورج کی روشنی ان ایشیا ئی ممالک میں سب سے زیادہ
ہے یعنی 2100 گھنٹے سالانہ۔ ہم سولر انرجی سے بہترین فا ئدہ اٹھا سکتے ہیں۔
اسے طرح وینڈ انرجی کے لحاظ سے بھی پاکستان بہترین ہے۔ جس سے ہم کافی حد تک
توانائی بحران سے نجات پا سکتے ہیں۔
پاکستان شمسی توانائی آلات بنا نے والے کمپنیوں کیلئے جنت سے کم نہیں ہو
سکتا ۔ پاکستان سولز ٹیکنالوجی میں ماہر سپین، چین، امریکہ ، آسٹریلیا جیسی
ممالک کی کمپنیوں کو یہاں موقع دے سکتا ہے اور کامیاب بزنس پارٹنر بنا کر
اپنا یک اچھا تاثر بنا سکتا ہے۔
آج پاکستان کو سیکورٹی جیسے سخت حالات کا سامنا ہے۔ہم نے اپنے دشمن بھی
پہچان لیئے ہیں ۔ ہمیں برادر پڑوسی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر سے
بہتر بنا نا ہو گا، ان کے ساتھ ہمارے وسیع سرحدیں ہیں ، ان سرحدوں کو بھی
ان کے ساتھ مظبوط اور خو شگوار تعلقات قائم رکھ محفوظ بنا یا جا سکتا ہے۔
اسلامی ممالک کی نظرین پاکستان پر ہی آکے ٹکتی ہے، پاکستان کو آگے آکر ایک
مضبو ط عالمی اسلامی بھائی چارہ کا لیڈر بن کے ابھرنا ہو گا۔ اور سب کو
ساتھ لیکر چل کر اسلامی ممالک کے اپنے کھو ئے ہو ئے مقام کو واپس دلا کر
دنیا پر اسلامی بھائے چارے کو واضح کرکے اپنی پو زیشن ماننی ہو گی۔ اسی میں
ہماری اور اسلامی ممالک کی بقاء ہے۔ ورنہ اغیار ہمیں پاش پاش کرنے میں
مصروف ہیں۔
ان ساری با توں کی با وجود اگر امن نہیں تو پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔
پاکستان کو یہ بات یاد رکھنی چا ہیئے کہ ہم دنیا کے محتاج نہیں، ہاں دنیا
ہماری محتاج ہے، دنیا کی گزرگاہ، رسد گاہیں ہم ہی سے ہو تی آئی ہیں۔
پاکستان کی ایک ہاں بھی قوموں کی تقدیر بدل سکتی ہے ، ایک ناں قوموں کو رلا
بھی سکتی ہے۔ پاکستان نے اپنے اپکو سپر پاور کہلا ئے جا نے والوں کو بھی
نیست و نا بود کیئے رکھااور آج بھی بہت سو کو پھنسائے رکھا ہے۔ ہمارے پاس
بہترین افواج ہے، ا جس کے شانہ بشانہ عوام کھڑے ہیں، ا من قائم ہو سکتا ہے
مگر خوددار، پر اعتما د لیڈر شپ سے۔
ہم واقعی سازشی دور سے گزر رہے ہیں، ہمارے خلا ف دنیا اکھٹی ہو چکی ہے، ہم
پھنس تو چکے ہیں مگر وہ چیزیں جو ہمیں اس گرداب سے نکال سکتی ہے وہ ہمارا
بھا ئی چارہ ، یگانگت ، ملی یکجتی ہی ہے، پاکستان ایک جسم، صوبے اسکے پا نچ
بڑے اعضاء ، ان کے درمیان بہترین رابطہ اور بھائی چارہ ہی ہمیں طا قت دلا
سکتا ہے، اور یہ بھائی چارہ آسانی سے تب بنایا جا سکتا ہے جب اسکے صوبوں کو
یکساں نظر سے دیکھا جائے، حقیقی صوبائی خود مختاری ہی ہمیں جو ڑے رکھ سکتی
ہے۔ ہمیں یہ یا د رہے پاکستان مٹنے کے لیئے کھبی نہیں بنا، یہ ابھرنے کے
لیئے ہی بنا ہے، ہاں ہم سے ہماری ضمیر کی عدالت میں پو چھ گچھ ہو گی کہ ہم
نے کیا کیا اس پاکستان کے لیئے، ہم نے پاکستان کے بنا نے میں کتنی محنت کی،
ہم نے پاکستان کو کیسے دیکھا، ہم نے اپنی آنکھ میں پاکستان کو کیسا دیکھنا
تھا اور اس کے لیئے کیا کیا۔
اگر ہم نے اپنے وطن اپنے گھر کو پہچانا تو ہم دنیا پر حکمرانی کے لیئے تیار
بیٹھے ہیں۔ جو کبھی شاعر فرماتا تھا اور دعا میں ـ"فصل گل " ما نگا کرتا وہ
بھی اﷲ سبحان وتعالی نے ہمیں کئی اشکال میں دیا۔۔۔ ہم کیا کچھ نہیں رکھتے،
خزانوں سے مالا مال زمیں( اٹھاروں نمبر نیچرل ریسورسز میں)، ایٹمی قوت(
واحداسلامی ملک ) ، بہترین افواج، بہترین دماغ ( ارفعہ کریم، علی معین
نوازش) ، سولر پلانٹس کے جنت نظیر وطن جس میں 21000 گھنٹے سالانہ روشنی
پڑتی ہے ،کو ئلے کے نا ختم ہو نے والے ذخائیر ( پانچ سو سال تک) ، سب سے
ذیادہ یوتھ پاور رکھے والا ملک ( 63 %) ، گوادر کی گہری ترین بندرگاہ جس کو
کو ئی ملک صرف حسرت کی نگاہ ہی سے دیکھ سکتا ہے۔ بہترین ٹیلنٹ ( ساتویں
نمبر پر بہترین ڈاکٹر،انجنئیرپیداکرنے والا ملک )۔ سو نا اگلتی زمین (چار
موسم، بہترین زرعی زمین)، بہترین سیاحتی مقامات ( سوات، نتھیا گلی، کاغان،
ناران، زیارت)، ۔۔۔ کیا کچھ نہیں ہمارے پاس ۔۔۔۔۔۔بس صرف اپنے آپکو پہچاننے
کی ضرورت ہے، ا پنے ملک کو سہارا دینے کی ضرورت ہے۔ اپنے وسائل سے فائدہ
اٹھانے کی ضرورت ہے۔
پھر شاعر بھی اپنی زبان تبدیل کرنے پر مجبور ہو جائیں گے اور کہیں گے
اے چاند تو یہا ں پہ نکلا کر
یہ دیس ہے خود شناس لوگوں کا
شاعر نے جو داغ داغ اجالے دیکھے تھے وہ بھی ختم ہو جائیں گے، شاعر نے جسے
شب گزیدہ سحر کہا تھا اس پر ترقی، خو شیوں کا سورج طلوع ہو گا۔
میں اپنے پاکستان کو دنیا کے صف اول کے ممالک میں دیکھ رہاہو، بشرطیکہ کہ
ہم اپنا اپ پہچانے ، اس کے لیئے دعاگو ہو کہ اﷲ تعالی اسے زندہ و پایندہ
رکھے۔
ایک شاعر نے جو دعا مانگی تھی کہ
خدا کرے میرے ارض پاک پہ اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہ اوپر بیان کی گئی کئی صورتوں میں پو ری تو ہو چکی ہے، ہاں البتہ ایک
اندیشہ زوال بہترین قیادت نہ ہو نے کا ہے۔ افسوس ہم پر فصل گل اترتے ہو ئے
بھی آج تک بہترین قیادت نہیں ملی۔ اور ان سب خو بیوں کے ہو تے ہوئے اندیشہ
زوال مو جو د ہے، اور فصل گل سے فائدے اٹھانا عبث ہے۔ ہمیں پر اعتماد ،
مخلص قیادت کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان زندہ باد
جشن آزادی کی ڈھیر ساری خو شیاں مبارک
کاشف خٹک، پشاور |
|