آہ ۔ درندوں نے پاکستان میں ایک اور خودکش حملہ
(Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid, India)
شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا این آر آئیز کے
لئے خوش آئند اقدام
آہ و فغاں ، مریضوں اورزخمیوں کی درد و کرب میں ڈوبی ہوئی چیختی چلاتی
آوازیں۔ پھر ایک مرتبہ انسانیت کے لئے شرمسار کرگئیں ۔ پاکستان کے صوبہ
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے ہاسپٹل میں 8؍اگسٹ کو درندوں نے خودکش بم
دھماکہ کرواکر ان مریضوں اور تیماروں کے ساتھ ساتھ، بلوچستان بار اسوسی
ایشن کے صدر بلال انور کاسی جنہیں چند منٹوں قبل فائرنگ کے ذریعہ ہلاک
کردیا تھا ۔انہیں دواخانہ منتقل کرنے والوں اور انکی ہلاکت کی خبر سنتے ہی
رنج و غم میں ڈوبے انکے وکلا ساتھیوں اور دیگر افراد جب دواخانہ پہنچے ،تو
ایک درندہ صفت شحص نے اپنے آپ کو بم دھماکے سے اُڑاکر ان بے قصور افرادکو
آنِ واحد میں موت کی نیند سلا دیا۔وہ توکئی افراد کو کربناک اذیت پہنچا کر
واصل جہنم ہوگیا لیکن جنہوں نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کی ہے وہ کیاانسان
کہلائے جاسکتے ہیں؟ یہ کہاں کی انسانیت ہے اور کونسا مذہب ہے جو معصوم اور
بے قصور جانوں کو بغیر کسی وجوہ کے ختم کررہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق
تحریک طالبان تنظیم الاحرار نے اس خودکش حملہ کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والا، اسلامی
تعلیمات سے آراستہ شخص یا اشخاص ایسی دہشت گردانہ کارروائی میں ملوث ہوسکتے
ہیں یا اس قسم کی کارروائی انجام دینے اپنے آپ کو خودکش بمبار کی حیثیت سے
پیش کرسکتے ہیں۔ اگر اسے جہاد کا نام دیا جاتا ہے کہ تو یہ اسلامی تعلیمات
کے مغائر ہے۔ اسلام ایک سلامتی والا عظیم الشان آفاقی مذہب ہے۔ پیارے حبیب
رحمۃ للعالمین صلی اﷲ علیہ و سلم نے انسان کی عظمت اور وقار کو جلا بخشنے
کے لئے ادب و اخلاق، حلم و بردباری، پیار و محبت کا درس دے کرظالم و جابر
حکمرانوں اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے انسانوں کو شرفِ انسانیت بخشی اور
رہتی دنیا اور آخرت تک کیلئے اسی عظیم الشان سلامتی والے مذہب کو ساری
انسانیت کی سلامتی کیلئے شریعت مطہرہ ﷺ پر عمل پیرا ہونے کی تلقین عملی طور
پر فرمائی۔ آج اسلامی ممالک میں جس طرح مسلمانوں کا قتلِ عام ہورہا ہے اور
جو ان معصوم و بے قصورمسلم بچے ، خواتین، ضعیف افراد کو نشانہ بناکر ہلاک
کررہے ہیں اوروہ اپنے آپ کو مسلمان بتانے کی بھی کوشش کررہے ہیں جبکہ علماء
دین نے صاف طور پر اعلان فرمادیا ہے کہ ان دہشت گردانہ حملوں ، بم دھماکوں
اور فائرنگ وغیرہ ،جس میں معصوم انسانیت کا قتل عام کیا جارہا ہے ان کا
شمار کسی طور پر اسلام میں نہیں ہوسکتا۔کوئٹہ کا واقعہ کوئی نیا نہیں ایسے
حملے تو پاکستان، افغانستان ، شام، عراق وغیرہ میں ہوتے رہے ہیں ، کہیں پر
دہشت گردوں نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے تو شام میں بشارالاسد کی
فوج اور روس کی فوج نے ہاسپٹلوں پر فضائی حملے کرکے اپنی کھلی دہشت گردی
ثبوت فراہم کیا ہے۔ عراق، پاکستان، افغانستان، شام، یمن، مصر، سعودی عرب،
ترکی وغیرہ میں دہشت گردانہ حملے کبھی مساجد اور دیگر مذہبی مقامات پر ہوئے
ہیں تو کہیں تعلیمی اداروں ، بازاروں اور تفریحی مقامات پر کئے گئے۔ ان
فائرنگ، بم دھماکوں، خودکش حملوں اور فضائی حملوں کے بعد ٹیلی ویژن چیانلس
اور سوشل میڈیا پر کہیں دہشت گرد تنظیمیں حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں
تو کہیں یہ مغربی و یوروپی اتحادی ممالک دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نیست و
نابود کرنے اور دہشت گردی کو ختم کرنے کا حوالہ دے کر حملوں کی ذمہ داری
قبول کرتے ہیں۔ اس طرح دوطرفہ دہشت گردانہ کارروائیوں میں گذشتہ چند برسوں
کے دوران لاکھوں معصوم مسلمانوں کا قتل عام ہوچکا ہے اور لاکھوں زخمی ہوچکے
ہیں جن میں ہزاروں افراد زندگی بھر کے لئے معذور ہوچکے ہیں اور نہیں معلوم
یہ سلسلہ ابھی کب تک جاری رہے گا۔ دشمنانِ اسلام مسلمانوں کی صفوں میں
انتشار پیدا کرکے مسلمانوں کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں جس میں انہیں گذشتہ
کئی برسوں سے کامیابی پر کامیابی حاصل ہورہی ہے لیکن ہمارے مسلم حکمراں
اپنے جھوٹی شان و شوکت ، دبدبہ وقاراور اقتدار کو بچائے رکھنے کے لئے
مسلمانوں کے قتلِ عام میں دشمنانِ اسلام اور دہشت گردوں کے ساتھ برابر کے
شریک نظر آرہے ہیں۔
کوئٹہ کے اس حملہ کے بعد صدمہ سے دوچار ایک سینئر وکیل کا کہنا تھا کہ سارے
دوست چلے گئے ، جونیئر چلے گئے ، وکلا کی ایک بہت بڑی تعداد ختم ہوگئی اب
کیا کہوں، پہلے خدشات تھے لیکن اب تو عملی طور پر ہوگیا۔ماضی میں کوئٹہ میں
ججز اور وکلاء پر حملوں اور ہلاکتوں پر انسانی حقوق کمیشن بھی اپنے خدشات
کا اظہار اور سیکیوریٹی فراہم کرنے کی سفارشات پیش کرچکا ہے۔کمیشن کے
صوبائی صدر طاہر خان کے مطابق وکلا کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے
اداروں کے پاس انٹلی جنس معلومات ہوتی ہے، ان کے پاس جن کی معلومات آتی ہیں
ان کو پکڑلیں اور اگر کسی سے مالی معاونت ہورہی ہے تو اس کو تلاش کیا جائے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان حکومت اور پاکستانی فوج کی جانب سے
ملک کے مختلف حصوں میں ضربِ عضب اور قومی ایکشن پلان میں کامیابی کی بات کی
جاتی ہے اور پاکستان سے دہشت گردانہ کارروائیوں پر کی جانے والی کارروائی
کو کامیاب بتایا جاتا ہے لیکن پھر اگلے چند ہی روز میں کہیں نہ کہیں خطرناک
دہشت گردانہ حملہ پاکستانی حکومت اور فوج کو انکی ناکامی کی طرف توجہ دلاتے
ہیں ۔ ہر خودکش حملہ کے بعد فوج اور حکومت کی اعلیٰ قیادت ،اعلیٰ سطحی
اجلاس منعقد کرکے صورتحال کا جائزہ لیتی ہے اور مستقبل میں مزید خطرناک
حملوں کے خاتمہ کیلئے ایکشن پلان ترتیب دیا جاتا ہے ۔کوئٹہ کے سول ہاسپٹل
میں ہونے والے حملے میں 40سے زائد وکلاء ہلاک ہوچکے ہیں اور 150کے لگ بھگ
افرادزخمی ہوئے ہیں۔جملہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 71بتائی جارہی
ہے۔پاکستانی وزیراعظم نواز شریف اور فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف نے ہاسپٹل
پہنچ کر زخمیوں کی عیادت کی اور گورنر ہاؤس میں وزیر اعظم کی سربراہی میں
اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا جس میں فوجی سربراہ اور دیگر اعلیٰ حکام شریک
تھے۔اجلاس کے بعد پی ایم ہاؤس سے موصول ہونے والے بیان کے مطابق وزیر اعظم
نے کہا کہ دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے ریاست کے تمام سیکیوریٹی ادارے پوری
قوت کے ساتھ کام کریں۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ دہشت گرد نئے طریقے اپنا
رہے ہیں اور ’سافٹ ٹارگٹس‘ یا آسان ہداف کو نشانہ بنارہے ہیں۔فوجی سربراہ
کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں شکست کے بعد دہشت گردوں کی توجہ بلوچستان
کی جانب ہوگئی ہے ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں سیکوریٹی کی بہتر
صورتحال کو نقصان پہنچانے اور خاص کر چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے
کو ہدف بنانے کے لئے یہ حملہ کیا گیا اسی قسم کا بیان وزیر اعظم نے بھی دیا
ہے۔نواز شریف نے اس موقع پر اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ ہم بین الاقوامی
دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔جبکہ امریکی
محکمہ دفاع نے گذشتہ دنوں شدت پسند تنظیم حقانی نیٹ ورک کے خلاف ٹھوس
کارروائی نہ کرنے کے الزام میں پاکستان کو دی جانے والی فوجی امداد کے
30کروڑ ڈالر روک دیئے ہیں۔امریکہ 2002سے ہی دہشت گردی کے خلاف کارروائی میں
پاکستان کو فوجی مدد کرتا رہا ہے ۔ سال 2015میں اس بجٹ کے تحت پاکستان کے
لئے ایک ارب ڈالر کی رقم طے ہوئی تھی لیکن امریکی کانگریس نے اسے جاری کرنے
سے پہلے ایک شرط رکھی تھی کہ اس میں سے 30کروڑ ڈالر تبھی جاری کئے جائیں جب
سیکریٹری دفاع حقانی نیٹ ورک کے خلاف پاکستان کی کارروائی سے مطمئن ہوں اور
اس کا سرٹیفیکٹ دیں جبکہ سیکریٹری دفاع ایش کارٹر نے اس طرح کا سرٹیفیکیٹ
جاری کرنے سے انکار کردیا ہے جس کی وجہ سے اس سال پاکستان کو 30کروڑ ڈالرز
کی رقم نہیں مل سکتی۔امریکی محکمہ دفاع کے مطابق کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت
سب سے زیادہ امداد اب تک پاکستان کو دی گئی ہے اور سنہ 2002سے اب تک اسے
14ارب ڈالر دیئے جاچکے ہیں۔ اس طرح پاکستان کو امریکہ دہشت گردی کے خاتمہ
کے لئے کروڑوں ڈالز دے چکا ہے یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ پاکستان کے مختلف
علاقوں میں امریکہ کی جانب سے ڈرون حملے کئے جاتے ہیں جس میں عام شہریوں کی
ہلاکتیں ہوچکی ہیں اس کے خلاف ملک بھر میں آوازیں اٹھتی ہیں ، حکومت عوام
کو سمجھانے کے لئے کچھ نہ کچھ تیقن دیتی ہے کیونکہ پاکستانی فوج کیلئے
امریکہ سے لی جانے والی خطیر رقم کہیں چھوٹ نہ جائے۔پاکستانی حکومت ، فوج
اور دیگر سیکوریٹی اداروں کا ایقان ہیکہوہ ہر ممکنہ کوشش کرتے ہوئے پاکستان
سے دہشت گردی کا خاتمہ کردیں گے لیکن کیا یہ ممکن ہوسکتا ہے؟
سعودی تارکین وطن کو راحت
سعودی عرب کے فرمانروا و خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی
جانب سے سعودی عرب میں مقیم این آر آئیز کے لئے 100ملین سعودی ریال جاری
کرنے کا اعلان کیا۔ یہ رقم ان تارکین وطن کو دی جائے گی جو گذشتہ کئی ماہ
سے تنخواہوں سے محروم تھے ان تارکین وطن میں ہزاروں کی تعداد میں
ہندوستانی، پاکستانی اور دیگر ممالک کے افراد شامل ہیں۔اس رقم کی ادائیگی
کے لئے ایک شرط یہ بھی رکھی گئی ہے کہ جو کمپنیاں حکومت کے ٹنڈرس لے کر کام
کی ہے اور وہ اپنے ملازمین کو گذشتہ کئی ماہ سے تنخواہیں نہ دئے ہوں انہیں
ہی بقایا تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے یہ رقم دی جارہی ہے۔اور اس رقم کی
ادائیگی کے بعد ان کمپنیوں کو وزارتِ لیبر میں رپورٹ کرنی ہوگی کہ کتنی رقم
انہوں نے اپنے ملازمین کو ادا کی ہے۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ گذشتہ
دنوں سعودی اوجر کمپنی کے دیوالیہ نکلنے کے بعد اس کے ہزاروں ورکرس جو
گذشتہ 9ماہ سے تنخواہوں سے محروم تھے اور انہوں نے اپنی تنخواہوں کی مانگ
کرتے ہوئے جدہ میں شاہراہوں پر احتجاج کیا تھا جس کے بعد وزارتِ خارجہ ہند
و وزارتِ خارجہ پاک کی جانب سے سعودی اعلیٰ قیادت سے نمائندگی کی گئی جس کے
بعد شاہ سلمان نے یہ اہم فیصلہ کرتے ہوئے ان تارکین وطن کو راحت پہنچانے
اہم اقدام کیا۔اور ان ملازمین کی رہائش اور انکی اپنے ملک واپسی کے
انتظامات کرنے کے احکامات بھی جاری کئے۔
ایران میں 21سنی مسلمانوں کو اجتماعی پھانسی
ایرانی حکام نے گذشتہ دنوں تہران کے جنوب مغربی شہر کرج کے مقام پر رجائی
شہر میں قید، اہل سنت مسلک کے 21 مسلمانوں کو اجتماعی طور پر پھانسی دے دی۔
موت کے سزا یافتہ 17 سنی قیدیوں کو کسی بھی وقت پھانسی دیے جانے کا امکان
ہے۔ ایران کی قومی مزاحمتی کونسل کی خارجہ امور کمیٹی کے رکن موسیٰ افشار
نے ’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں ایران سے یہ اطلاعات
موصول ہوئی ہیں کہ حکام نے منگل کو علی الصباح 21 کارکنوں کو پھانسی دے دی
ہے۔ ذرائع کے مطابق اجتماعی طور پر قتل کئے جانے والوں میں نوجوان عالم دین
شہرام احمدی بھی شامل ہیں۔ پھانسی پانے والے شہریوں کے عزیز واقارب کا کہنا
تھا کہ حکام کی طرف سے انہیں پیر اور منگل کی درمیانی شب جیل میں حاضر ہونے
کی ہدایت دی گئی تھی مگر جب وہ جیل پہنچے تو انہیں بتایا کہ ان کے رشتہ
داروں کو پھانسی دے دی گئی ہے اور وہ ڈی این اے کی مدد سے اپنے اقارب کی
شناخت کرکے ان کی میتیں اپنے ساتھ لے جائیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قیدیوں کو
پھانسی دیے جانے سے قبل رجائی شہر جیل کے ارد گرد سیکیورٹی کے فول پروف
انتظامات کیے گئے تھے اور جیل کو تمام اطراف سے پولیس نے گھیرے میں لے رکھا
تھا۔ اس دوران پھانسی کے دیگر 17 ملزمان کو کسی نامعلوم مقام پر منتقل
کردیا گیا ہے۔ خدشہ ہے کہ انہیں بھی کسی وقت پھانسی دے دی جائے گی۔ ایرانی
انٹیلی جنس اداروں نے ان سنی مسلمانوں کو سنہ 2009ء اور 2011ء کے عرصے کے
دوران کردستان اور ملک کے دوسرے علاقوں سے حراست میں لیا تھا۔ پھانسی کی
سزا پانے والوں میں علماء، دینی مدارس کے طلباء اور سماجی کارکن شامل ہیں۔
ایرانی حکام نے ان پر ملک کے خلاف سازش، سلفی تنظیموں کے ساتھ تعلقات، فساد
فی الارض، اﷲ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ اور دیگر الزامات کے تحت مقدمات
چلائے تھے۔ایران میں ان سنی علماء اور طلبا کو پھانسی دیئے جانے سے ایسا
محسوس ہوتا ہے کہ ایران میں سنیوں کو کسی قسم کی مذہبی آزادی نہیں ہے اور
اگر وہ اپنے مسلک کے مطابق کام کریں تو انہیں کسی نہ کسی الزام کے تحت سزا
ہوسکتی ہے۔
غزہ کی پٹی پر اسرائیلی معاشی محاصرہ
غزہ کے مکینوں پر اسرائیل کی ظلم و بربریت کے خلاف بین الاقوامی سطح پر
آوازیں اٹھ چکی ہیں۔ اسرائیلی حکومت اور فوج غزہ کے مظلومین کو غذائی اجناس
اور ادویات لے جانے کی بھی کھلے طور پر اجازت نہیں دیتی اور ہر چیز
اسرائیلی فوج کی جانچ پرتال کے بعد غزہ میں لے جائی جاتی ہے اور اگر
اسرائیل نہ چاہے تو انہیں اشیاء خورد و نوش ہوں یا ادویات کسی بھی چیز کے
لے جانے کا کسی کو اختیار نہیں اور عالمی ادارے بھی اسرائیل کے سامنے بے بس
نظر آتے ہیں۔اگلے ماہ عالمی امدادای کارکنوں پر مشتمل دو قافلے فلسطین کے
علاقے غزہ کی پٹی پر اسرائیل کا مسلط کردہ معاشی محاصرہ توڑنے کے لیے اسپین
سے سمندر کے راستے روانہ ہوں گے۔ توقع کی جارہی ہے کہ ان امدادی قافلوں کے
ہمراہ امدادی سامان کے ساتھ ساتھ 24 کے قریب عالمی مشاہیر شخصیات غزہ کے
دورے پر آئیں گی۔مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق سماجی کارکن اور ‘‘میلوں
مسافت کی مسکراہٹ’’ کے عنوان سے غزہ کی پٹی کے لیے امدادی قافلوں کے انچارج
ڈاکٹر عصام یوسف نے لندن میں ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ انہیں توقع ہے
کہ وسط ستمبر 2016ء کو اسپین کے شہر بارسلونا سے غزہ کی پٹی کے لیے امدادی
سامان کے ساتھ روانہ ہونے والے عالمی امدادی قافلوں ‘زیتونہ’ اور
‘‘امل’’[امید] کے ہمراہ بین الاقوامی مشاہیر، انسانی حقوق کے مندوبین، امن
نوبل انعام یافتہ شخصیات سمیت دو درجن اہم شخصیات غزہ کا دورہ کریں گی۔عصام
یوسف کے مطابق بین الاقوامی امدادی کارکنوں نے غزہ کی پٹی کا محاصرہ توڑنے
کے لیے جاری مہم کو ‘‘غزہ کا محاصرہ توڑیے’’ کا عنوان دیا ہے۔ان ہی کے
مطابق وہ پوری دنیا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ غزہ کے محصورین کے لیے بھیجے
جانے والے امدادی قافلوں میں بڑ چڑھ کر حصہ لیں اور امداد کی فراہمی میں
بھی حصہ ڈالیں۔ فلسطینی سماجی کارکن کا کہنا تھا کہ امن نوبل انعام حاصل
کرنے والی عالمی شخصیات کا غزہ کا محاصرہ توڑنے والے قافلوں میں شامل ہونا
خوش آئند اور فلسطینی قوم کی فتح ہے۔ |
|