ترقیاتی کام اور انتخابات

ہمارے ملک ہندوستان میں الیکشن کا موقع بھی عجیب ہوتا ہے ،کسی بھی پارٹی کے امیدوار کو جو چاہے کچھ بھی بول دے یا ان پر سخت تنقید کرے لیکن ہمارے لیڈران ان کی باتوں کا ذرا بھی برا نہیں مانتے ہیں بلکہ ان کے اشکال کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان سے مل کر ان کے مسائل کو بغور سنتے بھی ہیں اور اگر موقع ہوتا ہے تو حل بھی کرانے کی پوری کوشش کرتے ہیں ۔وہ کسی بھی طرح سے عوام کو ناراض نہیں ہونا دینا چاہتے ہیں ۔گلی گلی ،گاؤں گاؤں،شہر شہر ،محلے محلہ وہ پد یاترہ سے لیکر ہیلی کاپٹر اور گاڑیوں سے دورے میں منہمک رہتے ہیں ۔اس قدر چوق و چوبند نظر آتے ہیں کہ اگر انتخابات کے دوران بجٹ پاس کر کے ہر امیدوار کو مختص کر دیا جائے پانچ سال عوام کو انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ ان کے تمام کام اسی ہفتہ دو ہفتہ میں مختلف پارٹیاں مل کر انجام دے ڈالیں گی۔انتخابات کا موسم بڑا دلچسپ ہوتا ہے ۔الیکشن کمیشن اگر نصف ترقیاتی کاموں کے منصوبوں کو مختلف پارٹیوں کے امیدواروں میں تقسیم کر دیں تو ملک بہت جلد ترقی کے منازل طے کرنے میں کامیاب ہو جائے گا ۔چونکہ ہر امیدوار کو کامیاب ہونے کی امید ہوتی ہے اس لئے وہ ترقیاتی کاموں کو ترجیحی بنیاد پر صاف و شفاف اور انصاف کے تحت کرانے کی کوشش کریں گے جس سے کام میں کوئی بد عنوانی ہو ہی نہیں سکتی ہے اور دیکھتے دیکھتے تمام سڑکیں ،گلیاں ،نالیاں اور بجلی کے تار و کنکشن وغیرہ کا کام جو پانچ سال میں بمشکل ہو پاتا ہے اور نصف سے زائد رقم بدعنوانی کی نذر ہو جاتا ہے وہ سب بچ جائے گا اور دیکھتے ہی دیکھتے گاؤں دیہات سڑکیں چمچماتی ہوئی نظر آئیں گی مانوں کسی مغربی ملک کے گاؤں ہوں۔اور گاؤں گاؤں اسپتال بھی تمام تر سہولیات سے لیس ہو جائیں گے اس پیسے میں ذرا بھی بد عنوانی کا احتمال نہیں ہوگا چونکہ ہر کسی کو اپنے وجود کی فکر ہوگی اور جیتنے کی امید ۔لیکن ہمارے یہاں ایسا نہیں ہوتا ہے بلکہ انتخاب جیتنے کے بعد ترقی کاموں کا منصوبہ بنتا ہے اور پھر کام کی شروعات ہوتی ہے اکثر ترقیاتی کاموں کا منصوبہ تو کاغذ پر پڑے پڑے بدعنوانی کی نذر ہو جاتی ہیں اور کچھ ہوتا بھی ہے تو لیپا پوتی گویا گاؤں شہر جو جس حال میں تھا اسی حال میں تا حیات رہنے پر مجبور ہیں ۔آپ اپنے آبائی وطن گاؤں میں تیس بیس سال کے بعد دیکھیں بس کچھ مکانات پکے دیکھائی دیں جو آپ نے خود اپنی محنت مزدوری کر کے شہر سے بھیجا ہے ۔لیکن وہاں نہ چوبیس گھنٹے بجلی کا تصور ہوگا اور نا کوئی آس پاس بنیادی ضروریات کے ہائی ٹیک اسپتال اور نہ ڈاک وغیرہ اس کے لئے وہی پورانا قصبہ جانا ہوگا ۔اس طرح ہم سوچتے ہیں کہ آخر میں بیس سال کے بعد اپنے گاؤں آیا ہوں لیکن یہاں تصویر تو ویسی ہی ہے جیسی ہم چھوڑ کر گئے تھے ۔اس دوران نا جانے کتنی سرکاریں آئیں اور گئیں لیکن ترقیاتی کام کچھ بھی نہیں ہوا ہاں چند کھڑنجے اینٹ کے نظر آجائیں یا پھر کچھ ایسے نہر جس کو نالے میں تبدیل کر دیا گیا ہو ۔ اسی طرح کی کچھ مثالیں ہیں جو بی بی سی سے ماخوذ ہیں۔ریاست کیرالہ میں ادوکی اور تریوینڈرم کی سڑکوں پر گاڑیوں کا ایک قافلہ خوب شور شرابے کے ساتھ نکالا گیا۔ یہ ریلی سیاست دان جیا لالیتھا کی تھی اور اس ریلی میں ان کی جماعت آل انڈیا انّا دراویڈ مْنیتر کڑگم کا انتخابی نشان بھی تھا۔اس ریلی اور اس کے شور کے علاوہ امیدواروں کو نوجوان مردوں نیگھیر رکھا تھا جنھوں نے گلے میں سونے کی چین پہن رکھی تھیں اور جیبوں میں 500 روپے کے نوٹ کی گڈیاں تھیں جن کو وہ بانٹے جا رہے تھے۔جیا لالیتھا کی جماعت کیرالہ کی ہمسایہ ریاست تمل ناڈو میں حکومت میں ہے۔ یہ جماعت تمل ناڈو کے بعد کیرالہ میں بھی وہی انتخابی حربے استعمال کر رہی ہے یعنی مفت چیزیں بانٹنا۔بلدیاتی انتخابات میں جیت کے بعد جیا لالیتھا کی جماعت اسمبلی کی سات نشستوں کے لیے لڑنے کے لیے تیار ہے جو مئی میں ہونے والے ہیں۔شراب کے کاروبار کی بڑی شخصیت بجو رمیش جنھوں نے کے ایم مانی جیسے بڑے سیاستدان کو شکست دی تھی بھی آل انڈیا انّا دراویڈ مْنیتر کڑگم کی ٹکٹ سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔رمیش بڑے بڑے وعدے کر رہے ہیں۔ شادی کے لیے 50 ہزار روپے اور سونا، 25 ہزار روپے بچے کی پیدائش کے لیے، صرف 20 روپے میں تین وقت کا کھانا، لیپ ٹاپ، لڑکیوں کے لیے سائیکلیں، الیکٹرانکس، ٹی وی۔ یہ سب جیا لالیتھا تمل ناڈو میں مہیا کرتی ہیں۔ رمیش نے کہا کہ ہاں ایک اور مزید چیز ’کوڑا ٹھکانے لگانے کا پلانٹ۔‘انھوں نے کہا ’اگر میں جیت گیا تو آل انڈیا انّا دراویڈ مْنیتر کڑگم اس حلقے میں لوگوں کو یہ سب کچھ فراہم کرے گی۔ اور پھر حکمرانوں کو دیگر ریاستوں میں بھی یہ سہولیات فراہم کرنی ہوں گی۔‘دوسری جانب ادوکی میں کیرالہ پولیس نے تمل ناڈو سے آنے والی بڑی تعداد میں نقدی، چھتریاں اور دیگر تحائف قبضے میں لیے ہیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ ادوکی کے اس علاقے میں جہاں تمل آبادی اکثریت میں ہے، آل انڈیا انّا دراویڈ مْنیتر کڑگم ووٹ حاصل کرنے کے لیے مفت میں تحائف بانٹ رہی ہے۔کیرالہ ایک نہایت سیاسی شعور رکھنے والی ریاست ہے اور یہاں کے لوگ کبھی بھی تحائف کے جھانسے میں نہیں آئیں گے۔سیاسی تجزیہ کار جیکب جارج کا کہنا ہے ’کیرالہ میں کبھی بھی ووٹرز کو رشوت دے کر خریدنے کی روایت نہیں رہی۔ ہم ہمیشہ سے سیاسی جماعت کی کارکردگی اور امیدواروں کے ساکھ کو دیکھتے ہیں۔‘اس طرح اگر دیکھا جائے تو یہاں کے انتخابات کے دور بہت کچھ بیان کر دیتے ہیں اور بہت کچھ کرنے کے لئے لائق بھی ہوتے ہیں اس لئے اس موسم کو بس سلیقے سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے ۔
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 112378 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.