انقلاب ۱۸۵۷ء میں اُردو زبان و ادب اور صحافت کا نمایاں کردار
(Ata Ur Rehman Noori, India)
انقلاب۱۸۵۷ء میں مجاہدین آزادی،محبان وطن
،شعرا اور ادبا نے بھی حصہ لیا ۔ چنانچہ
حاتمؔ،قائمؔ،میرؔ،سوداؔ،شیفتہؔ،بہادر شاہ ظفرؔ،مرزاداغ دہلوی،ؔ اور غالب ؔ
نے اہل وطن کی بدحالی اور بے چارگی کو اپنے شہر آشوب،رباعی،نظموں اور خطوط
میں تحریر کیا ہیں۔انگریزوں نے دہلی کے مکینوں پر بہت ظلم وستم ڈھایاجس کے
سبب بہت سے اہل کمال نے دلّی سے ہجرت کی ۔ سوداؔ، میرؔ ،
مصحفیؔ،سوزؔ،انشاؔ،جرأتؔ اوردیگر باکمال شخصیات نے لکھنؤ اور دیگر اردو ادب
کے دلدادہ شہروں کی جانب رخت سفر باندھا۔ان کو دلّی سے ہجرت کرنے کاکس قدر
قلق ہواہوگا؟اس لیے کہ یہ نامی گرامی شعرا دلّی کی آن بھی تھے اور دلّی کی
جان بھی۔میرؔ کہتے ہیں
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کوغریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
مفتی صدرالدین آزردہ ؔ اپنے شہر آشوب ’’فغان دہلی‘‘میں لکھتے ہیں
عیش وعشرت کے سوا کچھ بھی نہ تھا جن کویاد
لُٹ گئے ،کچھ نہ رہا، ہوگئے بالکل برباد
ٹکڑے ہوتا ہے جگر سن کے یہ ان کی فریاد
پھر بھی دیکھیں گے الٰہی کبھو دہلی آباد
مرزاداغ ؔ کے شہر آشوب کا ایک بند
زمین کے حال پہ اب آسمان روتاہے
ہر اک فراقِ مکیں میں مکان روتاہے
کہ طفل و عورت و پیر و جوان روتاہے
غرض یہاں کے لیے اک جہاں روتاہے
جو کہے جوششِ طوفان نہیں کہی جاتی
یہاں تو نوح کی کشتی بھی ڈوب ہی جاتی
پروفیسر حامد کاشمیری اپنے مضمون ’’اردوشاعری اور جدوجہد آزادی‘‘میں لکھتے
ہیں: ’’اہل ہند کے دلوں میں انقلاب کی چنگاری دراصل اٹھارہویں صدی کے نصف
آخر میں ہی میں سلگ اٹھی تھی۔وہ ملکی انتظامیہ کے خلل پذیرہونے کے نتیجے
میں غیریقینیت اور عدم تحفظیت کا سامنا کررہے تھے۔اس زمانے میں مختلف حملہ
آوروں نے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔۱۷۳۹ء میں نادر شاہ نے مغل فوج کوشکست
دے کر دہلی میں قتل عام کاحکم دیا۔اس کے بعد جاٹوں نے بغاوت کی۔۱۷۵۴ء میں
احمد شاہ ابدالی نے حملہ کرکے دہلی کوتاراج کیا۔۱۸۰۳ء میں انگریزوں نے
محمدشاہ کے عہد میں دہلی پر قبضہ کیا۔(۱۸۵۷ء پہلی جنگ آزادی،ص۱۳)
جہاں تک مرزاغالب ؔ کاتعلق ہے ،وہ فرنگیوں کے جوروتطاول کے چشم دیدگواہ تھے
، انہوں نے غیر مبہم اندازمیں اپنے خطوط میں اپنے دل کی بھڑاس نکالی اور حب
الوطنی اور جذبہ آزادی کااظہار کیاہے،ان کی دیکھتی آنکھوں کے سامنے قتل
وغارت گری کابازارگرم ہوا ۔وہ منشی ہرگوپال تفتہ کے نام خط میں لکھتے ہیں:
’’اپنے مکان میں بیٹھاہوں،دروازے سے باہر نہیں نکل سکتا،رہایہ کہ کوئی میرے
پاس آوے،شہرمیں ہے کون،گھرکے گھربے چراغ پڑے ہیں۔‘‘(مرجع سابق ،ص۱۵)
ظاہر ہے غالب نے انقلاب ۱۸۵۷ء کوبھگتابھی اورجھیلابھی،ان کی خاندانی امارت
چھن گئی،پنشن بندہوگئی،ان کے بھائی یوسف مرزابے کسی کے عالم میں انتقال کر
گئے ۔انہوں نے انگریزوں کے ہاتھوں ظلم وتشددکے دل دوزمناظردیکھے۔چنانچہ
انہوں نے اپنے تاثرات ، واردات اور مشاہدات کااظہار کھل کر اپنے خطوط میں
کیا۔جہاں تک ان کی شاعری کا تعلق ہے انہوں نے سوائے چند اشعار کے صحافتی
انداز اختیار نہ کیا۔اسی لیے شمیم طارق نے جن کی فروری ۲۰۰۲ء کی مطبوعہ
کتاب ’’غالب اور ہماری تحریک آزادی‘‘میں صرف اس نکتۂ خاص کوتوجہ کا محور
بنایا ہے کہ غالبؔ کے دل میں آزادیِ وطن کی خاطر مسلح مزاحمت کاروں کے لیے
احترام یاہمدردی کاکوئی جذبہ موجود نہ تھا۔
بہرحال۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کو کارگر بنانے میں اردوصحافت نے بھی اپنا تاریخی
رول اداکیاہے۔انگریزوں کے ملک پر قابض ہونے تک تقریباً پینتالیس اردو
اخبارات شائع ہوئے۔صادق الاخبار،دہلی،اردواخبار(ایڈیٹر محمدباقر)،رفیق
ہندی،ہزار داستان (ایڈیٹر محمدسلطان عاقل)،سلطان الاخبار، اودھ پنج،دبدبۂ
سکندری (ایڈیٹرریاض خیر آبادی ) اور بہادر شاہ ظفر کے روزنامچے وغیرہ قابل
ذکر ہیں۔ان اخبارات کے مدیران اور مالکان کو سزائیں دی گئیں بلکہ دہلی
اردواخبار کے ایڈیٹر محمد باقر(محمدحسین آزاد کے والد) کو دہلی دروازے کے
باہر میدان میں گولی مارکرشہید کردیاگیا۔(محمدحسین آزاد، از: نند کشور وکرم،
ص۱۰)
غرضیکہ آزادیِ ہند میں اردوزبان وادب نے اپنی بے مثال خدمات انجام دی ۔ اس
بات کی دلیل کے لیے اتنا کہہ دیناہی کافی ہے کہ ’’انقلاب‘‘کانعرہ سب سے
پہلے اُردو زبان ہی میں دیا گیااور اُردوکے متوالوں نے اس نعرے کو پورے
ہندوستانیوں تک پہنچا یا بھی اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک ہندوستان میں آزادی
کے لیے جہدوجہد اورکاوشیں تیز سے تیز تر ہوتی گئیں۔چنانچہ جوش ؔ کہتے ہیں
کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب
انقلاب ۱۸۵۷ء کی بنیادی وجہ چربی لگے کارتوسوں کوتصور کیاجاتاہے۔درحقیقت یہ
ایک محض فلیش پوائنٹ تھاورنہ ہندوستانیوں کو ذلیل وخوار کرنے کاسلسلہ بہت
پہلے سے شروع ہوچکا تھا۔پلاسی کی جنگ (۱۷۶۰ء)،بکسرکی لڑائی(۱۷۶۴ء)،بنارس
(۱۷۷۵ء )،جھانسی(۱۸۳۵ء)،ستارہ (۱۸۴۸ء )اور ناگپور کی فتح (۱۸۵۴ء)اور دوسرے
واقعات دراصل اسی قومی ذلت کاحصہ تھے۔ہاں چربی لگے کارتوسوں کے استعمال نے
دلوں میں کھولتے ہوئے لاوے کوضرور نکاس کی راہ فراہم کی،جس نے پوری قوم کو
نہ صرف بیدارکیابلکہ سیاسی شعور سے بھی بہرہ مند کرکے اتحاد وتنظیم کی
اقدار کو پروان چڑھایا۔اس وقت کے اخبارات کے اقتباسات اس بات کے شاہد ہیں
کہ کارتوس کے سبب جلی چنگاری کو اُردواخبارات ہی نے شعلۂ جوال بنایااور ہر
ہندوستانی کے دل میں آزادی کی شمع روشن کیں۔مجموعی اعتبار سے اردواخباروں
نے نہ صرف انقلابیوں کاساتھ دیابلکہ پورے ملک میں انقلاب کی فضاکوتیار کرنے
کاکام بھی کیا۔انقلاب ۱۸۵۷ء چاہے وقتی طور پر ناکام ہوالیکن اس نے قوم وملک
کو آزادی کی راہ دکھادی جس پر چل کرآزادہندوستان کی تعمیر ممکن تھی۔
٭٭٭ |
|