بسم اللہ الرحمان الرحیم
وما ارسلناک الا رحمتہ للعالمین .
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پوری انسانیت اور قیامت تک کے زمانہ کے لئے
عبادت،معاشرت اور سیاست کے لئے نمونہء اکمل ہیں. ملک خداد پاکستان جسکو
کلمہ لا الہ الااللہ کے نام پراوراسلامی احکامات کو عملا" نافذ کرنے کے
وعدہ پر ہی حاصل کیا گیا تہا تو اس میں کسی شبہ کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے
کہ پاکستان کو کیسا ہونا چہئے.
پاکستان کے وجود میں آنے کی ٦٩ ویں برسی کل ہی منائی گئی ہے.جبکہ یہ واضح
ہے کہ پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی ایسے لوگ جو انگریزی تہذیب کے
دلدادہ تہے پاکستان کو خالص اسلامی رنگ میں دیکہنے کو دقیانوسی تصور کرتے
تہے.ان ٦٩ سالوں کے دوران سیاسی طور پر انہی کے جانشین مضبوط ہوئے اور
اسلام پسندون کی کی نیا کے تختوں میں دراڑیں ہی پڑتی گئیں رفتار کی اس کمی
کے سبب حصول منزل دور ہوتی چلی گئی تآنکہ راستہ اختیار کرنے میں ہی قوم
بٹتی چلی گئی بہ ایں سبب آج ہم اس مقام پر کہڑے دیکہ رہے ہیں بہلا راستہ
جاتا کدہر کو ہے.
اب آتے ہیں سوال کے دوسرے جز کی طرف ،کونسے عملی اقدامات کو اختیار کیا
جائے کہ پاکستان ویسا تخلیق ہو جا ئے جیسا ہم چہتے ہییں.
پاکستان کیسا ہونا چہئے میں دوسری رائے تو رہی نہیں مگر عملی اقدامات کیا
ہوں اس میں متفرق رائے ہونے کی وسیع گنجائش ہے.اپنی رائے پیش کرنے سے پہلے
اگر میں ترکی کی مثال پیش کروں تو بےجا نہ ہوگا خوف طوالت کے پیش نظر اتنا
عرض کروں کہ اسلام پر جو قیامت ترکی میں گزری کہ شعائر اسلام ہی مٹا دییے
گئے پاکستان بفضلہ ایسی آفت سے تا وقت محفوظ ہے الحمدللہ آج ترکی اپنی سمت
متعین کر چکا ہے اور بعید نہیں کہ اگر اسی ڈگر پرسفر جاری رہا تو اپنی
کہوئی ہوی اسلامی خلافت کی منزل دوبارہ حاصل کرلے.
پاکستان میں بحمدہ شعائر پوری آب و تاب سے زندہ ہیں.
آئیے پہلے ان اسباب کو تالاش کرتے ہیں جنکی وجہ سے پاکستان ایک ایسی کہا ئی
کے قریب ہو چکا ہے کہ ہم خوف زدہ ہیں کہیں گر نہ جائے اور ہم بیک آواز متفق
ہیں کہ نہیں ہماری مادر وطن کو ہرگز ایسا نہیں ہونا چہئیے کیونکہ ہم ایسی
انمول امت کے پیرو کار ہیں جن کے بارے میں سماوی اعلان ہو چکا ہے (و انتم
الاعلون ان کنتم موءمنین)
ارض رب کائنات پر تمہاری حکمرانی ہوگی اگر تم مومن رہے.(مفہوم)
اسباب تنزلی کیا ہیں.ایک ،دو،تین نہیں بلکہ ان گنت ہیں اکابر وجوہات کو بہی
شمار کیا جائے تو ایک لمبی فہرت مرتب ہو سکتی ہے اگر کوئی مجہ سے اتفاق کرے
تو میں سب خرابیوں کی ماں بے انصافی کو سمجہتا ہوں عدل ایک ایسا قیمتی ہیرا
ہے کہ اسکے قیام سے کائنات کا توازن قائم ہے قیام عدل سے انشاءاللہ ساری
خرابیاں جڑ سے ختم ہو سکتی ہیں لیکن عدل وانصاف کی منزل تک پہنچنے کا راستہ
بہی یقینا" خاردار جہاڑیوں اور پر پیچ وادیوں سے ہی گزرتا ہے.
فردقوم کے وجود کا حصہ ہے فرد کی اصلاح سے ہی ایک مصلح قوم ابہر سکتی ہے "ہر
فرد ہے ملت کا ستارہ" ساتہ میں دیانت دار قیادت کا ہونا بہی ایک ضروری امر
ہے اس کیلئے اگرچہ کچہ ضوابط موجود ہیں عملدرآمد اور مزید جانچ پہٹک والے
قوانین کی ضرورت ہے. (الناس علی دین ملوکہم)
اگر نظام حکوت کا جائزہ لیں اور اسے ایک سواری سے تشبیہ دی جائےتو صدارتی
اونٹ کی سواری بہی ہمیں راس نہ آئی اگرچہ اونٹ کو صحرا کا جہاز مانا گیا ہے
مگر پاکستان کے حصے میں جو اونٹ آیا وہ غالبا" کاٹنے والی نسل کا ہوگا چلتے
چلتے وجود میں ایسے دانت گاڑہے کہ زخم بہرنے کو ہی نہیں آتا.
اگر پالیمان کے گہوڑے کا تجزیہ کریں تو ہمارے نصیب میں وہ بہی ایسا سرکش
نکلا کہ اسے اپنی مستی اور اپنے حاندان کی بہلائی کے سوا سواری کا دہیان ہی
نہ رہا ایسا پٹخ کر مارا کہ آئیے روز کی سرجری سے بہی زخم ہے کہ جڑنے کا
نام ہی نہیں لیتا.
آتے ہیں طاقتور اور توانا مارشل لاء کے چیتے کی طرف اسنے تو ایسے دانت اور
پنجے گاڑہے کہ وجود کو ہی کاٹ کے دو ٹکڑے کر دیا-
اس سب کے بعد ایک ناتواں اور ضعیف بوڑہی امید اسلامی جمہوریت ہی کی باقی
رہتی ہے ممکن ہے وہ اپنے تجربہ اور گزرے حالات کی بدولت کوئی ایسی ترکیب پر
قوم کو ڈال دے کہ جو ہم چہتے ہیں ممکن ہو سکے ظہر ہے توپ ٹینک تلوار سے
حاصل کرنے سے تو ہم رہے یا بقول لنڈورے ہی بہلے.
تو آئیے عزم کریں کہ ان عناصر اور خرابیوں کے خلاف جہاد سمجہ کر اٹہ کہڑے
ہوں ملک کو بدعنوانی کے دیمک کیلئے سپرے کی تلاش میں لگ جائیں فحاشی کے
ناسور کو جڑ سے اکہاڑ پہنکنے کیلئے کمر بستہ ہو کر اپنی توانائی اسی پر ہی
خرچ کردیں. کہتے ہیں مایوسی گنہ ہے مگر قوم کا مایوس ہونا تو اسکی موت کے
مترادف ہی ہے.
ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیر مابا نفسہم |