نریندر مودی کا اقبال جرم

بلوچستان، گلگت، آزاد کشمیر کی گونج پہلی بار لال قلعہ سے سنی گئی۔یہ سب بوکھلاہٹ کا اظہار تھا۔ لال قلعہ کی فصیل سے نریندر مودی کا خطاب اگر چہ پونے دو گھنٹہ کے قریب طویل تھا۔ جس میں مودی اپنی دو سالہ حکومتی کارناموں کو 70سال پر بھاری قرار دے رہے تھے۔ مگر بھارتی وزیراعظم نے شمال مشرق اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے تقریباً6کروڑ عوام پر بدترین مظالم پر کوئی تبصرہ نہ کیا۔ کشمیریوں کی نسل کشی کو اپنی حکومت کے کارنامے کے طور پر پیش کیا۔ جہاں مسلسل کرفیوہے۔مظاہرے ہو رہے ہیں۔کرفیو کو توڑ کر عوام آزادی کے حق میں اور بھارت کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں۔پرامن عوام پر اندھا دھند فائرنگ، مہلک پیلٹ فائرنگ، زہریلی گیسوں کا استعمال ہو رہا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں شاید اس کی کوئی مثال نہ ملے کہ کسی قوم نے مسلسل 39دن اور 39راتیں کرفیو نہ صرف برداشت کیا ہو۔ بلکہ اسے توڑ کر سول نافرمانی اور بغاوت کا بر ملا اعلان کیا ہو۔

لال قلعہ پرانی دلی میں واقع ہے۔ جس کی دیواریں دس فٹ اونچی ہیں۔ شا ہجہاں کے بعد اورنگ زیب عالمگیر کا یہ مسکن تھا۔ چاندنی چوک کے قریب یہ قلعہ تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ مسلم دور کی یادگار پیش کرتا ہے۔ مسلمانوں کو عہد رفتہ میں حکمرانوں کے عروج و زوال کی داستان سناتا ہے۔ یہ بیان کرتا ہے کہ جب دنیا آکسفورڈ اور ہارورڈ قائم کر رہی تھی۔ بر صغیر میں مسلم حکمران قلعے اور باغات، مینار اور محلات تعمیر کر رہے تھے۔ آج بھی دنیا خلائی ٹیکنالوجی ، سٹیلائٹ ، ایجادات میں مشغول ہے اور مسلم دنیا خانہ جنگی، انتشار، اقتدار کی سیاست میں مگن ہے۔ ہمارے حکمران مل کر کچھ کرنے، آئیندہ نسلوں کی خود کفالت کا سوچنے ، ستاروں اور خلاؤں کی تسخیر کے بجائے کرسی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

وزیراعظم میاں نواز شریف کشمیر ی عوام ک غلامی کے 70سال میں پاکستان کی جشن آزادی کو کشمیریوں کے نام کر رہے ہیں۔ جب کہ کشمیر کے آزاد ہونے تک پاکستان کی آزادی کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ جو ان حالات میں آزادی کا دعویٰ کرے ، وہ خود کو جھوٹی تسلی دے رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ کشمیر کی آزادی کے بغیر پاکستان کی آزادی نا مکمل ہے۔ اب اس میں افغانستان کا اضافہ ہو رہا ہے۔ افغانستان پر غیر ملکی تسلط قائم ہو رہا ہے۔ امریکہ اور بھارت کا اثر بڑھ رہا ہے۔ بد قسمتی سے افغانستان کی موجودہ حکومت پاکستان کے بجائے بھارت کو اپنا دوست سمجھ بیٹھی ہے۔ یہ سچائی نہیں بلکہ غلط فہمی ہو سکتی ہے۔ بھارت اور اس کے عالمی اتحادی افغانستان کو جس طرح ٹرانزٹ یا راہداری کے طور پر استعمال کر رہے ہیں ، اسی طرح وہ اس سر زمین کو اپنی سیاست اور مفادات کے لئے بھی راہداری کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔جس کا اظہار مودی نے لال قلعہ سے بھی کیا۔

لال قلعہ کے لاہوری گیٹ سے جب مودی اپنے ملک کی آزادی کے دن خطاب کرنے جا رہے تھے۔ اس وقت سامنے جامع مسجد پر بھارتی کمانڈوز نے قبضہ کر رکھا تھا۔ مگر دوسری طرف جین مندر، گوری شنکر مندر میں مورتیوں کی پوجا ہو رہی تھی۔ سکھوؤں کے گوردواری سیز گنج اور عیسائیوں کے چرچ کی بھی ناکہ بندی کی گئی تھی۔ مودی نے بھارت میں مسجد ، گوردوارہ اور چرچ کے خلاف ریاستی جنگ کا کوئی تذکرہ نہ کیا۔ مگر وہ سچ کہہ گئے کہ آزادی ایسے نہیں ملتی۔ مظال سہنے پڑتے ہیں۔ دیش کو آزاد کرنے کا جذبہ ضروری ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ہر کسی کی یہ قسمت نہیں کہ وہ آزادی کی قیمت ادا کرے ، قربانی پیش کرے۔ آزادی قربانی کے بغیر نہیں ملتی۔ مودی ایک سانس میں آزادی کی قیمت بیان کر رہے تھے اور دوسری سانس میں اپنی موقف کی نفی کر رہے تھے۔ مودی نے کہا کہ آج کہں جنگلوں میں ماؤ واد کے نام پر، سر حد پر انتہا پسندی کے نام پر، پہاڑوں میں دہشت گردی کے نام پر کندھوں پر بندوق لے کر بے قصوروں کو مارنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ مودی نوجوانوں سے کہہ رہے تھے کہ وہ آزادی کا راستی چھوڑ کر بھارت کی غلامی قبول کر لیں۔ ایک طرف مودی آزادی کی اہمیت اور قربانی کے بارے میں بتا رہے تھے اور دوسری طرف آزادی پسندوں کو بھارتی غلامی میں رہنے کی تلقین کی جا رہی تھی۔ ایک طرف مودی بھارت ماتا کی جئے، وندے ماترم، جئے ہند کے نعرے لگوا رہے تھے اور دوسری طرف پاکستان کا نام لئے بغیر الزامات عائد کئے جا رہے تھے۔

مودی نے تشدد کے آگے نہ جھکنے ، اسے برداشت نہ کرنے کا اعلان کیا مگر ریاستی دہشت گردی، گجرات کے بعد کشمیر میں نسل کشی کو فراموش کر دیا۔ ریاستی تشدد اور ریاستی دہشت گردی سے کشمیر کی زمین کو خون سے سرخ کرنے والے مودی نے یہ نہیں بتایا کہ اسے کچھ نہ ملے گا۔ بلکہ وہ زلیل اور رسوا ہو کر کشمیر سے نکلے گا۔ بھارتی وزیراعظم نے اس سے قبل دلی میں کشمیر پر منعقدہ اے پی سی میں کہا تھا کہ کشمیر میں حالات سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کی وجہ سے ہیں۔ مودی پاکستان کوللکاررہے ہیں کہ اسے بلوچستان اور آزاد کشمیر میں ’’زیادتیوں‘‘ کے لئے دنیا کے سامنے جواب دینا ہو گا۔ بھارت کی طرف سے یہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت ہے۔ اس پر شدید احتجاج نہیں کیا گیا۔

نریندر مودی نے بلوچستان میں بھارتی دہشت گردی کا کھلا اعتراف کیا ہے۔بھارت کے ملوث ہونے کا اقبال جرم کیا ہے۔ بلوچستان پر بھارت کا کوئی دعویٰ نہیں ہے۔ وہ پاکستان کی اندرونی معاملات میں مداخلت بھی کرتا ہے اور اس کے ایجنٹ پاکستان میں بم دھماکے اور معصوم شہریوں کو قتل بھی کرتے ہیں۔ بھارت کے حاضر سروس افسر کلبھوشن سمیت لا تعددسرکاری دہشت گردوں کی گرفتاری ہوئی ہے۔ ان کے بارے میں تفصیلات دنیا کے سامنے پیش کرنے میں مزید تساہل سے کام لیا گیا تو مضبوط کیس بھی کمزور ہو سکتا ہے۔ بھارت کی اس مداخلت اور دہشت گردی کا اعتراف مودی لال قلعہ سے بھی کیا۔ مودی نے خطاب میں بلوچستان، گلگت اور آزاد کشمیر کے عوام کی جانب سے بھارت کے شکریہ ادا کرنے کی خوشخبری سنائی۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ شکریہ بھارتی وزیراعظم کو خواب میں ادا کیا گیا یا اس کا انداز کوئی اور تھا۔مودی کی تقریر کوچیف جسٹس آف انڈیا ٹی ایس ٹھاکرے نے بھی انتہائی مایوس کن قرار دیا۔ جسٹس ٹھاکرے بتا رہے ہٰیں کہ مودی کے بارے میں سچ بیان کرنے میں وہ کسی سے خوف محسوس نہیں کریں گے۔

پاکستا ن بھارتی وزیراعظم کے بلوچستان میں دہشت گردی کے اعترافی بیان اور اس پر نام نہاد شکریہ کے جھوٹے دعوؤں کو بے نقاب کرے۔ یہ سب کشمیر میں جدو جہد آزادی میں تیزی آنے پر بھارت کا ردعمل ہے۔ کشمیریوں کی نسل کشی، ریاستی دہشت گردی اور اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ریفرنڈم کے مطالبے کو دنیا کے سامنے مسلہ کے ایک اہم فریق کے طور پر پیش کیا جائے تو یہی بھارت کو معقول جواب ہو گا۔ اس وقت جدو جہد آزادی کشمیر کو مسلسل جارحانہ انداز میں دنیا کے سامنے لانے، کشمیر میں ریڈ کراس، آزاد میڈیا، انسانی حقوق تنظیموں ، عالمی ریلیف اداروں کی مداخلت کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 557169 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More