گلبرگ قتلِ عام کا فیصلہ
(Falah Uddin Falahi, India)
ریاست گجرات کے دارالحکومت احمد آباد میں
ایک خصوصی عدالت نے 14 برس قبل ریاست میں فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث 24
مجرمان کو قید کی سزا سنائی ہے۔مجرمان میں سے 11 کو عمر قید ایک کو دس سال
جبکہ 12 کو سات، سات سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔یہ معاملہ فروری سنہ 2002
میں احمد آباد کی گلبرگ سوسائٹی میں ایک مشتعل ہجوم کے ہاتھوں 69 افراد کے
قتل کا ہے جن میں کانگریس کے سابق رکن پارلیمان احسان جعفری بھی شامل
تھے۔یہ فسادات گودھرا میں سابرمتی ایکسپریس ٹرین پر ہونے والے حملے کے بعد
ہوئے تھے جس میں 59 افراد مارے گئے تھے۔جس وقت یہ واقعہ پیش آیا تو ملک کے
موجودہ وزیرِ اعظم نریندر مودی گجرات کے وزیرِ اعلیٰ تھے۔جن افراد کو عدالت
نے سزا سنائی ان میں سخت گیر ہندو تنظیم وشو ہندو پریشد کے ایک رہنما اتل
ویدیہ اور کانگریس کے سابق کونسلر میگھ جی چودھری بھی شامل ہیں۔
عدالت نے رواں ماہ کی دو تاریخ کو اس معاملے میں 24 افراد کو مجرم قرار دیا
تھا جبکہ 36 کو بری کر دیا گیا تھا۔مجرم ٹھہرائے جانے والوں میں سے 11 کو
قتلِ عمد کی دفعہ 302 کے تحت مجرم قرار دیا گیا تھا۔اس مقدمے کی اہمیت اس
لیے بھی ہے کیونکہ اس کی تفتیش سپریم کورٹ کی رہنمائی میں ایک خصوصی
تحقیقاتی ٹیم نے کی تھی۔واضح رہے کہ گجرات فسادات سے متعلق نو دیگر مقدمات
بھی ہیں جن کی تحقیقات عدالتِ عظمیٰ کے احکامات کے تحت کی جا رہی ہیں۔سزا
سنائے جانے کے بعد ذکیہ جعفری کا کہنا ہے کہ میں اس فیصلہ سے مطمئن نہیں
ہوں بلکہ لڑائی اور لمبی ہوگی اور میں چین سے نہیں بیٹھونگی ۔کئی سماجی
کارکن اور سیاسی لیڈروں کی طرف سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا موت کی
سزا صرف مسلمانوں کے لیے ہے؟ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں سنہ 2002 میں
ہونے والے گلبرگ قتلِ عام کیس میں جمعے کو خصوصی عدالت نے 11 لوگوں کو عمر
قید اور 12 کو سات برس قید کی سزا سنائی ہے۔اس خصوصی عدالت میں موجود
سینیئر صحافی ویشیش دیال کے مطابق ایک مجرم کو 10 برس قید کی سزا سنائی گئی
ہے۔عدالت کے اس فیصلے پر لوگ سوشل میڈیا پر اپنی رائے ظاہر کر رہے ہیں اور
ٹوئٹر پر ’گلبرگ ورڈیٹ‘ ٹرینڈ یر رہا ہے۔2002 میں ہونے والے اس قتل عام میں
ہلاک ہونے والے کانگریس پارٹی کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کی اہلیہ
ذکیہ جعفری نے کہا: ’میں مطمئن نہیں ہوں، میں خوش نہیں ہوں۔ مجھے اپنے
وکیلوں سے صلاح و مشورہ کرنا ہوگا، یہ انصاف تو نہیں ہے۔‘انھوں نے کہا:
’عدالت کو تمام قصورواروں کو عمرقید کی سزا دینی چاہیے تھی۔ یہ کیس میرے
لیے آج ختم نہیں ہوا ہے۔ ہم اب بھی وہی ہیں جہاں سے ہم نے شروعات کی
تھی۔‘سماجی کار کن تیستا سیتلواڈ کا کہنا ہے کہ ’ہم بدلہ لینے والا فیصلہ
نہیں چاہتے، بلکہ اصلاح چاہتے ہیں۔‘آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر
اسد الدین اویسی نے ٹوئٹر پر لکھا ہے: ’اگر سول سوسائٹی کی تاریخ میں گلبرگ
قتل عام سب سے سیاہ باب تھا، تو اس میں مجرم کو سزائے موت دی جانی چاہیے،
عمر قید یا 10 سال کی سزا کافی نہیں ہے۔‘ایک اور ٹویٹ میں انھوں نے لکھا:
’بڑے مجرموں کو چھوڑنا نہیں چاہیے۔ اس پر اپیل کی جانی چاہیے اور سازش کے
الزامات بھی عائد کیے جانے چاہیں۔‘آشیش ترویدی نے طنزیہ طور لکھا ہے: ’کمال
ہے۔ میں نے ریپ کیا، آگ لگائی، قتل کر سکتا ہوں اور پھر بھی مجھے صرف 7 سال
کی سزا ملے گی۔۔۔۔۔ وہ بھی 14 برسوں کے بعد۔۔۔ گجرات میں ہندو ہوتے ہوئے
مجھے فخر محسوس ہو رہا ہے!‘اب بتائیں کیا یہ قانون کا مذاق نہیں تو اور کیا
ہے ۔خود برادران وطن اس پر سوال کھڑا کر رہے ہیں چونکہ وہ انصاف پسند ہیں
اور انصاف کی آواز بلند کرنا چاہتے ہیں لیکن کیا اس کا کوئی اثر پڑے گا
جواب نفی ہے۔
|
|