دراصل آدمی کا قلبی اقرار ، اسکے دل کا جھکاؤ ، اسکا چُوں
چراں کیے بغیر اسلام کو دل سے مانتے ہوئے شیطان کے بہکاوے سے بچتے ہوئے
اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دینا ہے - اللہ پاک نے دل اس لیے بنایا کہ اس
میں اللہ کی یاد ہو ، نُور ہو- جب اللہ سے تعلق مضبوط ہوجاتا ہے تو پھر
گُناہ کم اور اللہ کی عبادت بہتر سے بہتر ہونے لگتی ہے اور انسان یہ صرف
اپنے لیے کر رہا ہوتا ہے ، اپنے نفس سے جہاد کر رہا ہوتا ہے اور اپنی آخرت
سنوار رہا ہوتا ہے - اللہ پر یا کسی بندے پر احسان نہیں کر رہا ہوتا- مومن
کی کامیابی یا ناکامی کا معیار یہ نہیں کہ اس نے دنیا میں اپنی پہچان کے
لیے اپنی جان لگا دی یا حکومت قائم کر لی یا پھر کوئی ملک فتح کر لیا-نہیں
- - - - - اس کا معیار یہ ہو کہ اس نے خدا کو اور اسکے کلمے کو پہچانا یا
نہیں ، اس کو بلند کرنے کے لیے اپنے دل و دماغ اور جسم کی ساری قوتیں
لڑادِیں یا نہیں۔ ورنہ وہ احمق ہے- احمق وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات کے
پیچھے لگا دے - اگر دو کام کر لیے جائیں تو اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ یقیناً
پُر سکون زندگی عطا فرما دیں گے - اور آخرت کی کامیابی نصیب ہو گی-
(1)ایمان (2)عمل صالحہ
گناہوں کو ترک کرنا اور فرائض کوادا کرنا - اعمال صالحہ کی بنیاد ہے -
فرائض ادا کرنے کے ساتھ گناہوں کو چھوڑنا عبادت کی توفیق مِل جانا لازم و
ملزوم ہیں۔ پہلا قدم انسان خود ہی اٹھاتا ہے اس کے بعد اللہ پاک اس کا ہاتھ
خود ہی پکڑ لیتا ہے -
جیسے دنیا کے کاموں کے لیے انسان ہی پہلا قدم اٹھاتا ہے اور بھر پور کوشش
کر کے اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا ہے - پھر دنیا اس کا ہاتھ پکڑ لیتی ہے -
ہر چیز خود بخود نہیں ملتی اس کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے- اللہ کو پانے اور
اس کو راضی کرنے کے لیے بھی بھر پور محبت اور محنت درکار ہے -
پھر دیکھیں زندگی کے غم کس طرح خوشیوں میں بدلتے ہیں - |