میرا پاکستان پیارا پاکستان
(Farheen Naz Tariq, Chakwal)
پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ -
پاکستان کو حاصل کرنے کا مقصد تھا مسلمانوں کے لیئے ایک ایسا ملک جہاں وہ
تمام تر مذہبی آزادی اور اسلامی قوانین کے تحت سکون سے زندگی گزار سکیں جب
مسلمانوں نے ہندوستان سے ہجرت کی تو وہ اک خواب لے کر چلے تھے اک خواب کہ
پاکستان مسلمانوں کی جنت ہوگا مگر یہاں پہنچنے پر ان کےنظریات کی بری طرح
نفی ہوئی پاکستان کو کیسا ہونا چہیئے تھا اور پاکستان کیسا ہے ان دونوں کے
درمیان بہت بڑا اختلاف پایا جاتا ہے-
ہونا تو یہ چہیئے تھا کہ پاکستان میں ہر طرف انصاف اور اسلامی قوانین کا
بول بال ہوتا مگر بدقسمتی سے ایسا ہو نہ سکا-
پاکستان چونکہ اک اسلامی ملک ہے لہذا اسے ویسا ہونا چہیئے جیسی مسلمانوں کی
عظیم ریاست مدینہ تھی- سب انسانوں کو برابر کا درجہ دینا چہیئے جہاں املاک
وزن تک مکہ کے مہاجرین سے بانٹ دیا گیا ہو- جہاں کوئی غریب بھوکا نہ مرے
اور اس کا نہایت آسان حل یہی تھا کہ لوگوں کی تمام املاک نیشنلائیز کر لی
جائیں اور پھر ان کو لوگوں کی جائز ضرورت کے مطابق ان کو مفت الاٹ کی جاتیں
اس سے ملک و ملت میں بغض و لالچ کا عنصر بھی ختم ہو سکتا ہے اور ملی یگانگت
و اخوت بھی پیدا ہو گی- اور بہت سارے جرائم جو محض عوام کے ساتھ نا انصافی
اور زیادتی کی بدولت فروغ پا رہے ہیں ان میں بھی خاطر خوہ کمی ہوگی-
ہر سرکاری محکمے میں کرپشن عروج پر ہے اک چپڑاسی سے لے کر ڈائریکٹرز تک اس
مہلک بیماری کی زد میں ہیں اس کی روک تھام کے لیئے ایران حکومت نے سرخ
فدائین کا اک محکمہ بنا رکھا ہے جو ہر محکمے میں نظر رکھنے پر مامور ہیں
ہمیں بھی ایسا کوئی اقدام کرنا چہیئے تاکہ خصوصأ بیوروکریسی کے ان حسین و
ذہین دماغوں کی جو ملک کی گراں قدر خدمت کر سکتے تھے-
بعض اوقات الیکشن کے دنوں میں دیکھنےمیں آتا ہے کہ امیدوار گھر گھر جا کر
ہزار یا پانچ سو عوام کی جیبوں میں ڈالتے ہیں اور ووٹ خرید لیتے ہیں یا ایک
انتہائی کرپٹ بندہ صرف اس لیئے چن لیا جاتا ہے کیونکہ مخصوص لوگوں کے
آباؤاجداد بھی اسی پارٹی کے ساتھ منسلک تھے یا ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص
انتہا درجے کی کرپشن کرنے کی بعد آخر ایام حکومت میں اک سڑک بنوادیتا ہے
اور عوام اسے اپنا مسیحا سمجھنے لگتی ہے دوبارہ اسی کو چنا جانے لگتا ہے
حالانکہ عوام میں اس سوچ کی پرورش بے انتہا ضروری ہے کہ یہ اقدام ان کے
احسانات نہیں بلکہ فرائض کا حصہ ہیں یہ جو تنخوہیں لیتے ہیں وہ اسی عوام کے
خون پسینے سے کمائے اور دیئے گئے ٹیکس کے پیسوں سے دی جاتی ہیں لہذا ان کا
فرض عوام کے حقوق کی حفاظت ہے نہ کہ پامالی- عوام کو اس کے یہ حقوق نہ دیے
جانے عوام کی اپنی جہالت و کم فہمی ہے عوام کے باشعور طبقے کا یہ فرض بنتا
ہے کہ عوام میں اپنے حقوق کی آگہی و بہتر سیاسی نشوونما کی کوشش کرے-
کسی عظیم انسان کا قول ہے کہ جوریاست مجرموں پر رحم کھانے لگے وہ انصاف سے
دور ہوتی چلی جاتی ہے ہماری ریاست اسکی اک جیتی جاگتی مثال ہے یہاں مجرم
داؤپیچ سے بچ جاتے ہیں اور ے گنہ سولی چڑھ جاتے ہیں نیز کسی چور کو محض
دوسال کے بعد رہا کر دیا جاتا ہے کہ جاؤ اور پھر سے اپنا پیشہ شروع کرو
شہریوں کی ناک میں دم کرو یا اک قاتل کو محض چودہ سال کی سزا دینے کے بعد
عادی مجرم کا لائسنس دے کر جیل کے بہر بھیجا جاتا ہے لیکن اگر اسکی جگہ
اسلامی سزائیں رائج ہوں اور چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے تو اسے دائمی معذوری
کا خوف رہے گا اور معاشرہ ایسے جرائم سے پاک ہو گا- نیز اسلحہ کے لائسنس
اور اسکی خریدوفروخت پر کڑی پابندیاں لگانے اور ان پر سختی سے عمل کرنے ،پولیس
اور اینٹی ٹیرارسٹ سکواڈز کی نفری بڑھانے سے انسداد دہشت گردی کو خاطر خوہ
مدد مل سکتی ہے
اور سب سے بڑھ کر ہمارے ملک میں قوانین تو موجود ہیں صرف عمل اور ان کا فہم
پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے- نیز عوام میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے کی
ضرورت ہے ہمیں حقوق لینے کے ساتھ ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی کا بھی شعور
ہونا چہیئے-
ایک مشہور روسی کہاوت ہے کہ کسی بھی ملک کو فتح کرنے کے لیئے جنگ ضروری
نہیں اس ملک کی نئی نسل کی پرورش اپنے خطوط پر کردی جائے آپ بنا ہتھیار
اٹھائے جنگ جیت سکتے ہیں وہی حکمت عملی جو ہندوستان نے بنگلہ دیش میں اپنے
اساتذہ کے ذریعے اختیار کی اور ایک قوم کے اندرونی اختلافات کو اس قدر بڑھا
دیا کہ ملک ہی جدا نہ ہوئے بلکہ ہمیشہ کے لیئے دو بھائیوں میں دراڑ آگئی
اگر یہ حکمت عملی ہمارا دشمن ہمارے خلاف استعمال کر سکتا ہے تو کیا اسی
حکمت عملی پر عمل کر کے ہم اپنے پاکستان کو اک روشن مستقبل نہیں دے سکتے کہ
اپنی نئی نسل کے تازہ دماغوں کو اخلاق و عمل کی تعلیم دیتے ہوئے کارآمد
شہری بنائیں-
بعض اوقات بہت بڑے بڑے مسائل کے حل بہت چھوٹے ہوتے ہیں جن پر عمل کرکے ملک
کو بہتر بنایا جاسکتا ہے اللہ پاک ہمارے ملک کو رہتی دنیا تک آباد رکھیں
آمین- |
|