میرا پاکستان کیسا ہو؟

١٤ اگست ١9٤0 کے ‏دن کا ذکر سنتے ہی میرے ذہن میں دو چیزیں آتی ہیں ، ایک یہ کہ اس دن مملکت خداداد پاکستان مرض وجود میں آیا اور دوسری یہ کہ اس دن میرے والد محترم متحدہ ہندوستان یا یہ کہئے کہ کچھ ہی دیر قبل تقسیم ہوے ہندوستان کہ دارلحکومت دلہی میں پیدا ہوے ۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب تقسیم ہند کہ باعث دلہی اور ہندوستان کے دیگرعلاقوں میں فسادات پھوٹ چکے تھے اور سرکاری سرپرستی میں مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا تھا اور لاکھوں کی تعداد میں مسلماناں ہند پاکستان کیلئے رخت سفر باندھ رہے تھے۔ گویا ابّا جان ایک ایسے وقت میں ایک ایسے شہر میں پیدا ہوے تھے کہ جو میرے آبا و اجداد کیلئے صدیوں سے جانا پہچانا تو تھا اور جہاں میرے اجداد نے شاہجہاں کا دور ، نادر شاہ کے حملے ، مغلوں کا عروج و زوال ، ١٨٥٧ کی جنگ آزادی ، غالب کے مشاعرے ، انگریزوں کی غلامی، تحریک خلافت ، کانگریس کی مکّاری اور تحریک پاکستان دیکھی تھی لیکن ١٤ اگست ١٩٤٧ کے دن صبح آزادی کے طلوع ہوتے ہی یہ شہر میرے دادا اور باقی ماندہ تمام مسلمانان ہند کیلئے یکدم پرایا ہو گیا تھا اور اب پاک سرزمین ہی مسلمانان ہند کے لئے دنیا کے سب سے حسین خطّے کی حیثیت اختیار کر گی تھی کیونکہ ان کیلئے ارض پاکستان ہی اس عزم عالیشان کا نشان تھی کہ جو انہوں نے ٢٣ مارچ ١٩٤٠ کو حضرت قائد اعظم کی قیادت میں لاہور کے منٹو پارک مے کیا تھا اور اب پاک سرزمین ہی مسلمانان ہند کی امیدوں کا مرکز تھی اور وہ قوت اخوت عوام سے اس پاک سرزمین کا نظام چلا کر قوم ، ملک اور سلطنت کو ہمیشہ کیلئے پائندہ اور تابندہ کرنا چاہتے تھے گویا مسلمانان ہند پرچم ستارہ و ہلال کو ہی رہبر ترقی و کمال سمجھتے تھے جو کہ سلطنت عثمانیہ کہ پرچم کی صورت میں اس عظیم ماضی کا ترجمان تھا کہ جس کے تحت مسلمانوں نے تین بر اعظموں پر حکومت کی تھی اور قسطنطنیہ کو فتح کیا تھا اور اب یہی پرچم سترہ و ہلال مملکت خداداد پاکستان کی صورت میں ایک شاندار حال اور ایک تابناک مستقبل کی ضمانت تھا گویا ہجرت کے اختتام میں وہ ایک ایسی جگہ پر پہنچنے کے خواہشمند تھے کے جیسے وہ جگہ رب ذولجلال کے سایہ میں ہو۔ یہ وہ نظریہ تھا اور ایسا میرے بزرگوں کی نظر اور خواب میں پاکستان تھا کہ جس کیلئے لاکھوں فرزندان توحید نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا اور کروڑو نے ہجرت کی تھی. اسی نظریے کے تحت میرے دادا ہندوستان میں اپنا سب اثاثہ چھوڑ کر میری دادی اور اپنے کمسن بچوں کے ہمراہ ایک صندوک میں صرف چند کچے کپڑے ،ایک سلائی مشین اور ایک ترکی ٹوپی لیکر پاکستان آگے تھے۔

اب رہا سوال یہ کہ آخر میرا پاکستان کیسا ہو تو میری نظر میں نہ تو مجھے کوئی نیا پاکستان چاہئے اور نہ ہی مجھے کراچی اور لاہور کو لندن یا پیرس بنانا ہے۔ میری نظر میں اس پاکستان کو نیا پاکستان بنانے اور لاہور کو پیرس بنانے کے بجاۓ ہمیں اپنی توجہ اس بات پر مرکوز رکھنی چاہئے کے ہم اس پاکستان کو وہی پرانا پاکستان بنا دیں کہ جس کیلئے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دیں اور ترک وطن اختیار کیا ہمیں اس پاکستان کو ویسا ہی پاکستان بنانا ہےجیسا کہ اس پاکستان کے بارے میں ہمارے بزرگوں کا ارمان تھا۔ ہمیں ایک ایسا پاکستان بنانا ہے جو قائد کے فرمان کے مطابق اسلام کی اصل تجربہ گاہ بن سکے۔

ہمیں ایک ایسا پاکستان بنانا ہے کہ جہاں قانون سب کیلئے ہو۔ ہمیں وہی پرانا پاکستان چاہئے ہے جہاں جناح صاحب بھی قانون کی پاسداری کرتے تھے. جہاں جناح صاحب کی گاڑی بھی سرخ بتی پر رک جایا کرتی تھی۔ جہاں جناح صاحب کیلئے جب ٢ روپیے کے موزے لیے گئے تو یہ که کر واپس کردیے کہ ایک غریب ملک کا سربراہ ٢ روپئے کے موزے نہیں پہن سکتا۔ ہمیں وہی پرانا پاکستان چاہئے ہے جو حضرت قائد اعظم نے اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر بنایا تھا۔ ایسا پاکستان بنانے میں ہمارا پارلیمانی نظام نا کام ہو چکا ہے. پارلیمانی نظام میں کیوںکہ الگ الگ ہلکہ انتخاب کی بنیاد پر سربراہ مملکت کوچناں جا تا ہے لہذا اس نظام کے تحت ایسے لوگ سربراہ مملکت بن جاتے ہیں کے جنہیں ملک کے عوام پسند نہیں کرتے لہذا میری نظر میں ہمیں اب ایک ایسے صدارتی نظام کی ضرورت ہے کہ جس میں پورے ملک کو ایک ہلکہ انتخاب قرار دے کرصدرکا انتخاب کیا جاے تاکہ پاکستان میں ہمیشہ کیلئے لسانیت اور صوبائیت کی بنیاد پر سیاست کا خاتمہ ہوسکے۔ اور اس طرح سے نظام کی تبدیلی کے ذریے سے ہم پاک سرزمین کے نظام کو قوت اخوت عوام کے تصّور پر گامزن کرسکتے ہیں۔

ہمیں پاکستان کو معاشی طور پر ایک مضبوط پاکستان چاہتا ہوں .ایک ایسا پاکستان جو ماضی کی طرح جرمنی جیسے ملک کو قرضہ دینے کی صلاحیت رکھے. ایسا پاکستان بنانے کیلئے ہمیں ایک معاشی اصلاحات کرنے کی ضرورت، ہمیں سنجیدہ قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ٹیکس اصلاحات ہونگی اور طبقے سے ٹیکس وصول کرنا ہوگا ، ہمیں ٹیکس نظام کو شفاف بنانا ہوگا اور اس بات کو یقینی ہوگا کہ ٹیکس سے حاصل شدہ رقم عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو۔ ہمیں بتدریج شرح سود کو کم کرنا ہوگا اور ملک سے سود کی لعنت کا خاتمہ ہوگا تاکہ ملک میں سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جا سکے اور غربت کا خاتمہ کیا جا سکے۔ یہی وہ طریقہ جس سے ہم قوم ، ملک اور سلطنت کو پائندہ اور تابندہ باد کرسکتے ہیں اور ہم شادباد منزل مراد کی طرف روانہ ہو سکتےہیں۔

بیشک ہمارا سبز پرچم ستارہ وہلال ہمیں تحریک خلافت کی یاد دلاتا ہے اور اس بات کی ترجمانی کرتا ہے کہ ہم سلطنت عثمانیہ کے وارث ہیں لیکن یہ پرچم ستارہ و ہلال اسی وقت ایک شاندار حال اور تابناک مستقبل کا ترجمان بن سکتا ہے جب ہم ایک مضبوط خارجہ پالیسی بنائیں اور اپنے فیصلے واشنگٹن میں کرنے کے بجاے اسلام آباد میں کریں اور اپنے فیصلوں میں امریکا اور یورپ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرنے کے بجاے قرآن و سنّت کے مطابق فیصلے کر کے الله کی رضا کے مطابق فیصلے کریں۔ یہی وہ راستہ ہے کہ جس پر چل کر ہم اس پاکستان کوسایہ خدا ذولجلال میں میں دے سکتے ہیں۔

میری نظر میں میرا پاکستان ایک ایسا پاکستان ہونا چاہئے جو ہمیشہ سایہ خدا ذولجلال میں رہے. آمین
muzzammil ghayas
About the Author: muzzammil ghayasCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.