کہا جاتا ہے کہ جب کسی فن پارے پر تنقید یا
تحقیق کرنی ہو تو اسے اسی طرح سمجھنا پڑتا ہے جیسے لکھنے یا تخلیق کرنے
والے نے سمجھا یا کسی فن پارے پر تنقید کے لئے اسے اسی میعار پر جا کر
سمجھنا پڑتا ہے جس کیفیت اور خیالات و جذبات سے لکھنے یا تخلیق کرنے والے
نے اسے لکھا یا بنایا ہے، جب تک نقاد اس کی مترادف کیفیت سے آگاہ نہیں ہو
جاتا وہ تنقید کے ان اصولوں پر پہنچ کر اپنا نقطہ نظر پیش نہیں کر سکتا یا
یوں کہہ سکتے ہیں کہ اسے اپنا نظریہ پیش کرنے کا حق نہیں رہتا۔۔ لہذا
پاکستان کے متعلق اپنی رائے پیش کرنا یا اس میں ترمیم کی رائے دینے کا حق
صرف اسی کو ہے جو ان تما تر قربانیوں کو سمجھ کر اور محسوس کر کے اس حق کا
استعمال کرے۔ ۔ قائد کو یہ نیا جہاں پیدا کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی
کیا کسی اور کو یہ انقلاب لانے کا خیال آیا؟ قیام پاکستان کے وقت کے حالات
و واقعات کیا تھے ؟ کیسے خاندا ن برباد ہوئے؟ کون اپنی ماؤں بہنوں کو زندہ
درگور کرنا چاہے گا سوائے عزت کے غرض سے قربانیاں دیں نہیں ان سے لی گئیں۔۔
ان تمام کیفیات کو جانے بغیر ہم اس درجے تک نہیں پہنچ سکتے کہ ہم تنقید
تائید کر سکیں کہ پاکستان کو کیسا ہونا چاہئے ۔۔ جب میں نے اس پاکستان کو
دیکھا ہی نہیں جو اس کی تخلیق کی وجہ یعنی اصل شکل تھی تو میں یہ کیسے کہہ
دوں کہ اس پاکستان میں تبدیلی کی ضرورت ہے ہو سکتا ہے کہ وہ پاکستان ان کے
لئے ہو ۔۔ اور یہ پاکستان ہمارے لئے جو ۱۴ اگست اور دیگر مواقعوں پر سبز
پرچم ، اور جھنڈیاں لہرا کر نا چ گانا کرنے ، ملکی بجٹ سے عا لیشان تقریبات
منعقد کر کے تقریریں کرنے یا پھر طرح طرح کے ناموں کی پارٹیوں میں خود کو
تقسیم کر کے جلسے کرنے کو اس کی سر بلندی گردانتے ہیں اور محض گھروں میں
برائے نام سبز پرچم لہرا کر سال میں۴۱ اگست کا ایک دن مکمل طور پر مناتے
ہیں یا پھر شاید ہم اسی پاکستان کے قابل تھے جب ہمیں ان قربانیوں سے سروکار
نہیں تو ہمیں وہ پاکستان کیونکر ملتا؟
بھائیوں، باپوں اور ماؤں نے خود قتل ہونے سے پہلے بہنوں اور بیٹیوں کو خود
گلا دبا کر یا زندہ دفن کر کے اپنی عزتیں بچائیں ، اگر کہیں لڑکیوں کی آواز
بھی آتی تو بھارتی اور انگریز دشمن شکاری کتوں کی طرح عزت کی نیلامی کے لئے
جھپکتے۔۔ بہنیں ، بیٹیاں ایک کمرے میں خود کو بند کر لیتیں عزت کے رکھوالوں
کو ختم کر کے جب عورتوں کو ایک کمرے میں پایا جاتا تو اس کمرے کے چاروں طرف
شکاری کتوں کی طرح زبان نکالتے ہوئے بیٹھ جایا کرتے یا پھر گھنؤ نے
ہتھکنڈووں سے انہین باہر نکال کر عزتیں نیلام کی جاتیں اس چار دیواری کے
گرد آگ لگا دی جاتی جس کے باعث وہ گھٹ گھٹ کر ہلاک ہو جاتیں لیکن یہ یاد
رہے اپنی عزت نہیں اپنی جان کی قربان کر دیتیں ۔۔
کوئی بھی عقل و شعور رکھنے ولا انسان خود کو ان حالات کا معائنہ کئے بغیر
اگر پاکستان میں ترمیم کی تجویز دے گا جس کام پر آج کل ہمارے حکمران عمل
پیرا ہیں تو وہ نہ صرف ان قربانیوں کا مذاق اڑائے گا بلکہ خود اہمیت اور
اوقات بھی واضح کر دے گا کہ آیا کہ وہ اس پاکستان کے قابل تھا بھی یا نہیں
۔۔
گویا ہم ان قربانیوں کے دور میں واپس تو نہیں جا سکتے لیکن خدا کا شکر ادا
کرنا تو دور روح اور جسم کی جنگ بھی گوارا نہیں ۔۔ ہمیں یہ ملک ماں کی گود
کی طرح ہی نصیب ہوا ہے بنا بنایا پلا پلایا ۔۔ لیکن اس میں وہ اپنایت اس
لئے محسوس نہیں ہوتی کیونکہ ہم ماں کی گود کی نرماہٹ بھول چکے ہیں جس کی
مٹی نے لہو سے خود کو سیچا اور ہمیں نرم گود دی ہم مصروفیات کے باعث ماں کی
گود کا سکون بھول چکے ہیں۔۔ہمارے لئے پاکستان محض ایک اینٹوں ، عمارتوں
حدود اربع ، رقبہ ، شہر یاعلاقہ ا ور ضروریات پوری کرنے کی جگہ بن کر رہ
گیا ہے۔ زندگی میں کچھ کرتے ہیں پاکستان کا نام روشن کرنے کے لئے نہیں بلکہ
دولت اور نام کمانے کر دوسرے کا مقابلہ کرنے کے لئے۔۔ ماں کی گود تو
فرمانبردار اور نا فرمان دونوں بچوں کے لئے ایک جیسی ہوتی ہے بس اولاد ہی
اپنا اپنا الگ حصہ مختص کر لیتی ہے یا خود کو محدود کر لیتی یہے ۔۔ اس گو د
کو وقت یا تنازعات میں بانٹ دیتی ہے۔۔
پاکستا آ ٓج بھی وہی ہے جو کہ ۷۰ سال پہلے تھا جسے اسلام ، ثقافت یا تہذیب
کی بنا پر حاصل کیا گیا تھا بس ضرورت ہے تو اسے ماں کا رتبہ دینے کی۔۔
پاکستان کا ہر محکمہ ہر ادارہ اور ہر شخص اگر اپنی جگہ صیح کام کرے تو یہ
غریب اور امیر طبقے کی تفریق کا خاتمہ ، حسد اور نفرت کا فقدان اور اتحاد
سے بیرونی طاقتوں کا مقابلہ آسان ہو سکے گا۔۔ میں پاکستان کو ہر سہولت سے
وآراستہ اور اونچی اونچی عمارتوں کو سموئے رکھے ہوئے بظاہر حسن کا حامل
دیکھنے سے زیادہ اپنے لئے ماں کی گود جیسا پر سکون دیکھنا چاہتی ہوں امن و
امان کا گہوارا جہاں ہر غم ہر مشکل اولاد کو چھونے سے قاصر ہوتی ہے۔۔اور کم
نعمتوں کے ہوتے ہوئے بھی اولاد پروان چڑھ جاتی ہے ۔۔ |