کیا آ ج ہم وہ قوم نہیں بن گئے جسے
نہ خوشی منانے کا ڈھنگ نہ کسی حادثے پہ دکھ کے اظہار کا سلیقہ ۔چودہ اگست
پہ لوگ طرح طرح کے کام کرتے ہیں ہر کوئی جشن آزادی مناتا ہے،جی ہاں آزادی
کا جشن جبکہ ابھی تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ آزاد ہم ہوئے یا انڈیا،ہمارا تو
وجود ہی نہیں تھا بحثیت ملک،جب ملک نہیں تھا تو آزادی کیسی،کیا ہمیں اپنی
سالگرہ نہیں منانی چاہیے چلیں اس کو بھی چھوڑیں ،ہم سے تو اب تک یہ بھی طے
نہیں ہوا کہ پاکستان کب بنا چودہ اگست کو یا پندرہ اگست کو،چودہ اگست کی
رات کو بارہ بج کر تین منٹ پر جب مصطفی ہمدانی نے دنیا کے نقشے پہ ایک نئی
اور اسلامی مملکت کے وجودکا اعلان کیا تو کیا بارہ بجے تاریخ تبدیل نہیں ہو
جاتی،یقینا ہو جاتی ہے تو پھر کیا اس وقت پندرہ اگست شروع نہیں ہو گیا
تھا،تو پھر کس نے یہ طے کرنا تھا کہ اصل ڈیٹ آف برتھ کیاہے،چلیں اس کو بھی
چھوڑیں کیا کبھی کسی پہلی نظریاتی اسلامی مملکت کی سالگرہ 27رمضان کو بھی
یا د آئی،چھوڑ دیتے ہیں اس کو بھی آگے چلتے ہیں کیا سالگرہ یا جشن آزادی
یوں منایا جاتا ہے جیسے اپنے ہاں اسے برتا جاتا ہے،سارا سال کچھ نہ کچھ کسی
حد تک قانون کی پاسداری کہیں نہ کہیں نظر آ جاتی ہے مگر اس دن،نہ کوئی اصول
نہ ضابطہ ،نہ حد نہ حدود و قیود کی کوئی پابندی،سب کچھ انوکھا اور
نرالا،اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ گورنمنٹ کی رٹ جو پہلے ہی مثالی ہے اس دن تو
سرے سے ہی نہ جانے کہاں گم ہو جاتی ہے،ہمیں جن لوگوں نے ایک نیا ملک دیا
کیا انہوں نے ایسے ملک ایسے لوگوں اور ایسے حالات کا کبھی خوب میں بھی سوچا
ہو گا یقینا کبھی نہیں، اگست کا مہینہ ہمارے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے کہ
اس میں ہمارا پیا را ملک دنیا کے نقشے پہ ابھرا،بے شک اسے پر جوش طریقے سے
منانا چاہیے مگر ان لوگوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے لیے بنانے والوں
نے کیا کیا ستم سہے،سات لوگ اپنی جان سے گئے،لاکھوں خواتین بیوہ ہوئیں اتنی
ہی کی عصمتیں لٹیں،اور نجانے کتنی ہندوؤں اور سکھوں کے قبضے میں چلی
گئیں،انسانی تارٰیخ کی سب سے بڑی ہجرت بھی اسی ملک کے قیام کے وقت ہوئی،ان
لوگوں نے تو اپنا تن من دھن قربان کر کے ہمیں ایک نیا علیحدہ وطن دے
دیا،اور آگے ہم نے اس کے ساتھ کیا کیا،کاش کہ آج میرا پاکستان بال بال میں
جکڑا نہ ہوتا،کاش کہ میرا پاکستان بھی ترقی و خوشحالی کا نمونہ پیش کر رہا
ہوتا ،کاش کے اس کے حکمرانوں نے اس کے وسائل اور اثاثوں کو ٹکے سیر نہ بیچا
ہوتا،کاش کہ میرے پاکستان میں ذات پات اور برادریوں کی تقسیم نہ ہوتی ،کاش
کہ میرے پاکستان میں کام کرنے والوں کو کمی کمین کا طعنہ نہ دیا جاتا،کاش
کہ میرے پاکستان میں ایک شخص کے چار نامو ں کی بجائے ایک ہی نام ہوتا،کاش
سردار چووہدری ملک وڈیرے ،خواجے مہاراجے،شیخ،زرداری اور لغاری مزاری انڈیا
میں ہی رہ گئے ہوتے اور ادھر صرف عام افراد آتے ،کاش کہ انڈیا میں کام کرنے
والے موچی ،درزی،نائی ،جولاہے اور ترکھان یہاں آ کے بھی وہی کچھ کہلاتے
،کاش میرے ملک کا پاسپورٹ دیکھ کے دنیا کے ماتھے پر بل نہ پڑتے،کاش میرا
پاکستان ایک مکمل اسلامی جمہوری پاکستان ہوتا، کاش میرا پاکستان زور آوروں
کی تجرباہ گاہ نہ ہوتا، کاش میرا پاکستان ایک ویلفیئر اسٹیٹ ہوتا،کاش میرے
ملک میں ریاست ہو گی ماں کہ جیسی کے خالی خولی نعروں کی بجائے ریاست کا
رویہ اور سلوک اپنے مکینوں کے لیے سوتیلی ماں جیسا ہی ہوتا،کاش میرے ملک
میں سیاستدانوں کے ساتھ ہر کرپٹ فرد کا احتساب ہوتا،کاش میرے ملک کا قانون
غریب کے لیے لوہے کا چنا اور امیر کے لیے موم کی ناک نہ ہوتا،کاش میرے ملک
کے ادارے بااختیار کے سامنے دو زانو اور بے اختیار کے سامنے شعلہ جوالہ نہ
ہوتے،کاش میرے ملک کا ہرعام بچہ ایلیٹ کلاس کے ساتھ بیٹھ کر ایک جیسا نصاب
پڑھتا اور ایک جیسی تعلیم حاصل کر سکتا،کاش میرے ملک کا ہر نادار مریض
دواؤں کے لیے ہسپتا لوں کی سیڑھیوں پہ ایڑیاں رگڑتا نہ برآمدوں میں بے یا ر
ومدد گار تڑپتا،کاش کہ میرے پاکستان کے حکمران جہاں اپنا علاج غریبوں کے
لیے مختص ہسپتالوں میں کرواتے وہیں اپنے بچوں کے انہیں غریبوں کے بچوں کے
اسکولوں میں بھیجتے انہیں آٹے دال کا بھاؤ پتہ چلتا،یہ مدینہ کے بعد دوسری
نظریاتی ریاست ہے جو نظریے پہ قائم ہوئی،مدینہ کے والی ﷺنے فرمایا تھا میری
بیٹی چوری کرے تو اس کا بھی ہاتھ کاٹ دینا،میرے ملک میں ایک ایک شخص درجنوں
افراد کو قتل کر کے بھی دندناتا پھر تاہے،ریمنڈ ڈیوس جیسے بدمعاش میرے ملک
کے معصوم لوگوں کو عین سڑک کے بیچ بھون کر مزے سے اپنے ملک سدھار جاتے
ہیں،کاش میرے ملک کی کوئی ماڈل میرے ملک کے قانون کو اس کی اوقات نہ دکھا
سکتی،کاش کہ میرے ملک میں زندگی یوں سستی نہ ہوتی اور موت اتنی عام نہ
ہوتی،کاش کہ میرے ملک کے لوگ اپنے ہی بھائیوں کو یوں تہہ تیغ نہ کرتے کہ نہ
مرنے والے کو پتہ نہ مارنے والے کو کہ کیوں مار رہا ہے،کاش میرا پاکستان
امن وامان کے حوالے سے دنیا کے لیے مثال بنتا،کاش کہ میرے ملک میں گھر سے
نکلنے والا ہر شخص کو اطمینان و سکون سے گھر واپس کا یقین ہوتا،کاش کہ بچوں
کے والدین اپنے بچوں کو اسکول و کالج بھیج کر سارا دن ان کی خیریت اور امان
کے لیے نہ تڑپتے،کاش کہ میرے ملک کے ہر شہری کو کم سے کم بنیادی انسانی
ضروریات ہی میسر ہوتیں،کاش یہاں بجلی گیس اور پانی کا بحران نہ ہوتا، کاش
کہ یہاں کے حکمران ڈرامے باز نہ ہوتے،کاش چوکیدار یہاں چور نہ ہوتے ،کاش جن
لوگوں کو لوگ ووٹ د ے کے کاندھوں پر بٹھاتے ہیں وہ ان کے حاکم بننے کی
بجائے خادم بنتے ،کاش میرے ملک کے بچے اور بچیاں محفوظ ہوتے،کاش کہ میرے
ملک کے بزرگ ساری زندگی ملک کی خدمت کے بعد آخری عمر چند ہزار روپوں کی
خاطر بنک کی سیڑھیوں پہ نہ گذارتے ،کاش کہ میرے پاکستان میں کوئی بے گناہ
قتل نہ ہوتا کبھی کوئی خاتون غیرت کے نام پر کسی بے غیرت کے ہاتھوں قتل نہ
ہوتی،کاش کہ یہاں انصاف کا بول بالا ہوتا اور کیس دادا کر کے تاریخیں اس کا
پوتا نہ بھگتتا،کاش گھر کی ضروریات سے لیکر ملک کی معاشیات تک سود اور سود
خوروں کے نرغے میں نہ ہوتی،کاش میرا ملک لفظوں کی بجائے حقیقی معنوں میں
خود مختار ہوتا،کاش مسجدکے منبرو ں سے شعلہ بیانی کی بجائے امن و آشتی کے
پیغام سکھائے اور سنائے جاتے،کاش میرے ملک میں فنکار عالم نہ ہوتے ،کاش
میرے ملک کے سارے عالم باعمل بھی ہوتے،کاش میرے ملک میں مذہب پرائیوٹائز نہ
ہوتا،کاش میرے ملک میں ریاست کی رٹ ہر جگہ ہر وقت یکساں ہوتی،کاش کہ جس کا
جدھر جی چاہتا سڑک گلی اور محلہ بند کر کے نہ بیٹھ جاتا اور نہ بیٹھ
سکتا،کاش کہ میرے وطن پہ واقعی وہ فصل گل اترتی جسے اندیشہ زوال نہ
ہوتا،کاش کہ میرے ملک میں حیات جرم اور موت وبال نہ ہوتی،کاش کہ میرے ملک
میں سلطانی بھلے ہوتی مگر درویشی تو عیاری نہ ہوتی،کاش میرا پاکستان امن
ومحبت کا گہوارا ہوتا،محبت و بھائی چارے میں خود کفیل ہوتا،کاش جس طرح میرے
ملک کے لوگ دوسرے ملکوں کے ویزے کے لیے بارہ سے اٹھارہ گھنٹے لائنوں میں
لگتے ہیں کبھی کسی دوسرے ملک میں پاکستان آنے کے لیے بھی یہ نظارہ دیکھنے
کو ملتا،مگر عزم جواں ہیں حوصلے بلند ہیں ،سب کچھ یہاں بر ا بھی نہیں ،سب
سے بری بات یہ کہ ہم اپنے ملک میں نمبر ون شہری ہیں،ہم مرضی سے سوتے اور
جاگتے ہیں اور آزاد فضاؤں میں سانس لیتے ہیں ،یہ ملک ہمیں جس پرور دگا ر نے
دیا ہے ہمٰیں اسی سے امید ہے کہ وہی اس کا محافظ ہو گا،،،،اﷲ ہم سب پہ رحم
کرے۔ |