اب کیا ہوگا

اگر دنیا میں رہنا ہے تو کچھ پہچان کر۔لباس خضر میں بھی لاکھوں رہزن چلتے ہیں۔میرے پورے مضمون کا نچوڑ اس شعر کے اندر پنہاں ہے مجھے اس معاملے میں لکھنے کی نہ دلچسپی تھی اور نہ ضرورت ہمارے اپنے مسائل بے پناہ ہیں مگر کچھ دوستوں کی بے حد اصرار پر قلم اُٹھانے کی کوشش کرنا چاہوں گا مگر میں پابند نہیں کہ کسی کے خواہش کے مطابق لکھوں میں اپنے انداز سے ہی چلوں گا بات ہونے جارہی ہے ایم کیو ایم کی لیکن پہلے ہم کراچی کی بات کریں گے کراچی ایک ایسا شہر ہے جہاں پورے پاکستان کے لوگ بستے ہیں جی بی کے بھی بڑی تعداد میں لوگ بسے ہوئے ہیں کوئی روزگارتو کوئی حصول تعلیم کی غرض سے بلکہ پاکستان سے باہر کے لوگوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے جب بھی کراچی کا نام لیا جاتا ہے توخیال مہاجر برادری کی جانب جاتا ہے چونکہ سب سے زیادہ مہاجر یعنی جو ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے ہیں وہی لوگ سب سے زیادہ ہیں بس یوں سمجھ لیجئے کراچی کی پہچان ان ہی کے نام سے ہے ایک زمانہ تھا کراچی روشنیوں کا شہر،امن کا شہر، غریبوں کی ماں نہ جانے کتنے ناموں سے جانا جاتا تھا واقعی یہ حقیقت بھی تھی کہ کراچی ان ناموں اور القابات پر پورا اترتا بھی تھا غریب لوگ دن بھر مزدوری کر کے فٹ پاتھوں پر سویا کرتے تھے اور صبح کام پرنکلتے تھے کراچی میں رہنے والا آدمی جس قوم یا مذہب کا ہو کوئی تعصب نہیں تھا محبت کرنے والے لوگ تھے ضرورتمندوں سے ہمدردی رکھتے تھے ایک ایسا ماحول تھا جو ایک انسان کی عین خواہش ہوتی ہے1986ء میں کھل کر ایم کیوں ایم سامنے آئی اس کی جو بھی وجوہات ہوں یہ ہمارا موضوع نہیں یقینا ان کا بانی لیڈر الطاف حسین ہی تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف کراچی بلکہ سندھ میں بھی ان کا ہولڈ اور پہچان ہوئی ایم کیوں ایم بڑے نشیب و فراز سے گزری اتار چڑھاؤ آتے رہے مگر ساتھ ساتھ کراچی کا امن وہ نہیں رہا جو پہلے تھا جی ہاں اس کے بہت سے عوامل اور ذمہداران ہوسکتے ہیں میرا اشارہ کوئی ایک پارٹی یا شخص نہیں بہت سے عوامل کارفرما ہوسکتے ہیں جب حالات زیادہ کشیدہ ہوئے تو ایم کیو ایم نے پورے کراچی میں گیٹ لگوائے رات کو دیر سے کوئی غیر مہاجر اپنے گھر جانے کے لئے اس حفاظتی گیٹ کھٹکھٹاتا تو اسے اپنی شناخت کروانی پڑتی تھی پھر اسے اجازت ملتی تھی پھر ایک وقت آیا ایم کیوں حقیقی بنی پھر وہ زمانہ بھی گزر گیا 1992میں کراچی میں لگے وہ تمام گیٹ اُکھاڑدیئے اس کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی ہوئی جس باعث امن کا فقدان اور خوف ہراس میں اضافہ ہوا فٹ پاتھ پر سونے والوں کو ہتھوڑا نامی ایک گروپ نے قتل عام شروع کیا اب غریبوں کے لئے فٹ پاتھ کی سہولت ناپید ہوئی،اس کے بعد ایک دن ایسا آیا صبح اُٹھ کر کراچی کے لوگوں نے آخبار دیکھا تو ایک بڑی تصوری نظر آئی جس کے گلے میں جوتوں کا ہارڈالا گیا تھا اور وہ تصویر ایم کیو ایم کے قائد کی تھی اس کے بعد خبر آئی کہ الطاف حسین باہر نکل گئے ہیں یہاں ایک بات بتاتا چلوں کہ الطاف حسین کی موجودگی یا غیر موجودگی ہو کوئی ایسا حکمران نہیں جس نے 90کا یاترا نہیں کیا ہو اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیاکراچی میں کوئی حکومت نہیں ہے یا نہیں تھی یا کراچی کو کھلا چھوڑا گیا تھا مگر ایسا ممکن نہیں ضرور ذمہداروں کو ایم کیو ایم کے تمام حرکات سکنات کا بخوبی جانکاری تھی مگر ہر آنے والی حکومت نے نظریہ ضرورت کے تحت ان کے ساتھ نہ صرف روابط رکھا بلکہ ہاتھ بھی رکھا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آج جو کچھ منظر نامہ ان کے سامنے رونما ہوا وہ دیکھتے آنکھوں سنتے کانوں ہوا ہے گزشتہ کچھ عرصہ قبل جب حکومت کے ساتھ ایم کیو ایم کی ان بن ہوئی تھی اس دوران پاکستانی چینلوں میں الطاف حسین کی وہ تقاریر بھی دکھائی جو بھارت جا کر اپنے ملک کے خلاف اُس نے کیا تھا کیا اتنا کافی نہیں تھا؟یہاں اچکزئی کی وہ بات یاد آرہی ہے انہوں نے اسمبلی فلور میں بہ بانگ دہل یہ کہا کہ جتنے بھی ملک دشمن عناصر ہیں وہ سب یہاں ایجنسیوں کے پے رول پر ہیں یہ اس ملک کی تاریخ میں سب سے سنسنی خیز بات ہے ایم کیو ایم کے اس پاکستان مخالف نعرے سے کہیں زیادہ اچکزئی کی بات حیران کن ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک دشمن ملک ذمہ دار ہی ہیں اگر اتنی بڑی بات محض الزام ہے تو آج اچکزئی کو سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہئے تھا اگر سچ ہے تو اس پر کارروائی کی ضرورت تھی آجائیں اب الطاف حسین کی طرف جو کئی دہائیوں سے ملک سے باہر ہیں بلکہ وہ برطانیہ کا شہری بھی ہے کیا الطاف حسین میں ذاتی دم خم اتنا ہے جو ملک کے اندراس کی سالمیت کے خلاف نعرے لگوائے اس حرکت کے پچھے لمبی کہانی اور لمبا ہاتھ کارفرما ہوسکتا ہے ایک طرف یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کشمیر میں پاکستان زندہ باد کے نعروں کا مودی نے ان کے ذریعے جواب دیا ہے خیر ناممکن کچھ بھی نہیں جبکہ یہ بھی میڈیا میں سننے کو ملا کہ الطاف حسین نے سامراجی قوتوں کو ساتھ دینے کی اپیل بھی کی ہے اس کے علاوہ ایک اہم بات وہ یہ کہ الطاف حسین نے ملک کے خلاف کی جانے والی اپنی تقریر پر معافی مانگنے کے بعد فون پر کسی اور ملک بات کرتے ہوئے سابقہ تقریر سے کہیں زیادہ سخت الفاظ استعمال کئے ہیں یہ بات بھی پاکستانی میڈیا نے بتایا اب بتایا جائے کہ بات کہاں تک پہنچی ہے؟کہا یہ جارہا ہے کہ الطاف حسین پر جان دینے والے جیالے وقت سے قبل ادھر ادھر ہوئے ہیں ایم کیو ایم کے سابق رہنما عامر لیاقت کے مطابق بڑے پیمانے پر خون خرابہ بھی ہوسکتا ہے ایم کیو ایم کے رہنماؤں کا پکڑے جانا اور کچھ کو رہا کیا جانا اور فاروق ستار کی پریس کانفرنس سے ظاہر ہوتا ہے محض ایک پری پلان ڈرامے کا حصہ نظر آتا ہے19تاریخ کو ہی ایم کیو ایم نے اپنے عارضی دفتر کا بھی بندوبست کیا تھا کیا انہیں یہ معلوم تھا کہ ان کے دفاتر سیل بھی ہوسکتے ہیں؟یہ بہت بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ بھی ہوسکتا ہے ماضی میں جناح پور کے بنانے کے حوالے سے ایم کیو ایم پر الزام تھا کہیں ایسا تو نہیں کہ اب اس پر عملی کام ہورہا ہو اور اس بات کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جاسکتا ہے قرائن یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ الطاف حسین کا بڑے طاقتوں نے ہاتھ تھاما ہوگا اور ان کی ایما پر بلا خوف و خطر یہ سب کچھ ہورہا ہے جبکہ ایم کیو ایم کے بعض رہنما مڈیا پر بات کرتے ہوئے اعتماد کے ساتھ یہ کہ رہے ہیں کہ اب بھی فیصلے کرنے کی پاور الطاف حسین کے پاس ہی ہے وہ لیڈر تھے لیڈر ہیں اور تا حیات رہیں گے پھر فاروق ستار کی پریس کانفرنس اور حکومت کا ان پر اعتماد کرنا چہ معنی دارد؟بیرونی طاقتوں کی ایما پر یہ اپنے عزائم اور حکمت عملی کہ اسی انداز میں چلارہے ہیں جیسا وہ چاہتے ہیں جی ہاں مقدمات تو فاروق ستار پر بھی درج ہیں مگر پروٹوکول کے ساتھ میڈیا پر ایم کیو ایم کے رہنما جب بات کرتے ہیں اور الطاف مائنس کو مسترد کرتے ہوئے ان کا انداز یہ بتارہا ہے کہ وہ پہلے سے ہی تیاری کر چکے ہیں ان کے مقابلے میں ملک مختلف تھانوں میں الطاف کے خلاف ایف آئی آر کاٹی گئی ہے ارے جناب جو بڑا تھانیدار ان کے پیچھے ہیں ان کے بارے میں غور کیا جانا ہئے،البتہ حکومت نے برطانیہ کہ ان تمام حالات کے متعلق آگاہ کرنے کے ساتھ اپیل نما خط بھی بھیجا ہے کہ الطاف کے خلاف کارروائی کی جائے اگر اس پر عمل ہوا تو کنٹرول کیا سکتا ہے اگر خدا نخواستہ برطانیہ نے بھی کوئی کارروائی نہیں کی تو سمجھ لو ہوشیار ہ ہونے کی ضرورت ہے یہ تھا اس منظرنامے کا ہلکا اشارہ اب یہ ذکر بھی ضروری ہے جو اس ملک میں رائج ہے یہاں کسی فرد تنظیم یا علاقہ جس پر ظلم ہورہا ہو ان کے حقوق پامال ہورہے ہوں وہ جتنا بھی فریاد کریں اپیلیں کریں ان کی اس وقت تک نہیں سنی جاتی ہے جب تک وہ طاقت نہ پکڑیں مظلوم پوری طاقت کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں تب جا کر حکمرانون کو ہوش آتا ہے پھر معاملات طول پکڑتے ہیں وقت پر شنوائی ہو ڈنڈے کے بجائے ان کا مداوا کیا جائے تو حالات کبھی بھی کنٹرول سے باہر نہیں ہونگئے حکومت مثبت حکمت عملی کی عادی ہوتی تو نرمی سے ان کے مقدمات بھی وقتی طور پر ختم کر کے انہیں باہر سے بھلا سکتی تھی جب انہیں پکڑنے کی سزا دینے کی بات ہوجائے تو وہ کیوں واپس آئیگا وہ تمام حدود کو پاس کرنے سے بھی نہیں ہچکچائے گے،،حکومت نہیں بلکہ پورا ملک مشکل دور سے گزر رہا ہے ہر جانب محاذ کھڑے ہیں بیرونی اور اندرونی کشیدگی پریشان کن ہے ایسے حالات میں دور اندیشی اور حکمت عملی ضروری ہے در حقیقت انسان کی فطرت میں یہ شامل ہے کہ اس کے ساتھ برابری کا سلوک برتاؤ نہ ہو تو وہ ضرور اپنی بساط کے مطاق مخالف سمت میں جدوجہد کرنے لگتا ہے اور جب مظلوم خواہ سرکار کی نظر میں وہ ملزم ہی کیو ں نہ ہو اس وہ ہاتھ پکڑ لیں جو ان پر ظلم کرنے والوں کا دشمن ہو تو وہ متاثر خوشی خوشی اس کا تھ دے گا اس سے جتنا بھی نقصان کسی کو کیوں نہ ہو اب ہم گلگت بلتستان کی بات کرتے ہیں مودی نے بھی گلگت بلتستان کے حوالے سے اپنے عزائم کا اظہار کیا ہے شروع سے ہی گلگت بلتستان کا نقشہ کشمیر کے نقشے کے ساتھ ہی دیکھایا جارہا ہے یہ کویہ نئی بات نہیں بلکہ انٹرنیشنل سطح پر جی بی کو بھی کشمیر ہی تصور کیا جاتا ہے یہ تو قوم پرستوں کی جدوجہد کی وجہ سے اب گلگت بلتستان کا مقدمہ الگ ہوا ہے اگر یہاں قوم پرست نہ اُٹھتے تو ایسا ممکن نہیں تھا حکومت کو چاہئے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں پر غداری کا مقدمات کی رویش پر نظر ثانی کرے یہاں کی حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے طاقت کے استعمال سے گریز کیا جائے جب جی بی آپ کے آئین سے باہر ہے تو ڈنڈے کے زور پر یہاں کے لوگوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ کوئی نیک شگون نہیں ہے ماضی اور حال کے حالات واقعات سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے دنیا میں واحد جی بی کے لوگ ہیں جو سال میں دو دفعہ دو آزادی کے دن مناتے ہیں جبکہ جی بی کی اصل یوم آزادی تو یکم نومبر ہے اس کے باوجود وہ چودہ اگست بھی مناتے ہیں اس کے باوجود ان پر غداری کے مقدمات لاگوکرکے انہیں پابند سلاسل کرنا زیادتی ہوگی نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا حالت جنگ میں ہے ایک دوسرے کے وسائل پر قبضہ جمانے کا سلسلہ بھی جاری ہے ایک عجیب سی کیفیت سے دنیا دو چار ہے جب کہ گلگت بلتستان کے قدرتی وسائل پوری دنیا کے لئے چیلنچ کے مترادف ہیں اس لئے ارباب اختیار کو سنجیدگی سے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے،یہ لکھنے کے ساتھ خبریں بھی سن رہا تھا تو معلوم ہوا کہ کراچی کا میئر ایم کیو ایم کا ہی ہوگا،حالات کا پانسہ کسی بھی وقت بدل سکتا ہے اسلئے سوچ سمجھ کر قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے ہمااری دعا ہے کہ یہ خطہ پر امن اور خوشحال رہے اور ہم سب کہ متحد ہوکر اپنے مشترکہ قومی مفادات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)
Yousuf Ali Nashad
About the Author: Yousuf Ali Nashad Read More Articles by Yousuf Ali Nashad: 18 Articles with 19129 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.