چمن کراسنگ پوائینٹ پر دوستی گیٹ کی بندش
کے بعد ملک میں ضروری اشیاء کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں۔ اس سے قبل طور خم
سرحد کی بندش سے بھی یہی صورتحال پیدا ہوئی تھی۔ نیز سمگلنگ سے بھی
پاکستانی مارکیٹ میں قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اگر ملکی پیداوار میں اضافہ کیا
جاتا تو یہاں اشیاء کی یوں قلت سے بچا جا سکتا تھا۔ آج ہر کوئی رہائشی
کالونیوں کی تعمیر میں دلچسپی دیتا ہے۔ رئیل سٹیٹ انڈسٹری کو گزشتہ عرصہ
میں خاص طور پر پرویز مشرف کے دور حکومت کے بعد سے بہت فروغ ملا ہے۔ ملک
بھر میں رہائشی کالونیاں تعمیر کرنے میں سرمایہ کار ایک دوسرے پر سبقت لے
رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی ملکی پیداوار میں اضافہ کی جانب توجہ نہیں
دیتا۔ بلکہ غضب یہ ہو رہا ہے کہ زرخیز اراضی پر تعمیرات ہو رہی ہیں۔ جب کہ
وفاق یا صوبائی حکومتوں کو کوئی احساس ہوتا ، مستقبل کی فکر ہوتی، تو فوری
طور پر زرعی اراضی پر تعمیرات پر سختی سے پابندی لگا دی جاتی۔ پراپرٹی
مافیا ملک کو تیزی سے تباہ کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی پیداوار میں میں
کمی ہو رہی ہے۔ اشیاء کی طلب کے مقابلہ میں رسد میں کمی ہو رہی ہے۔ اس وجہ
سے قیمتیں دن بدن بڑھ رہی ہیں۔ جب یہاں سے مال باہر جائے گا تو یہاں کے
مارکیٹ میں چیزیں قدرتی طور پر مہنگی ہوں گی۔ چمن سرحد کی بندش نے وقتی طور
پر اس پر کنٹرول کیا ہے۔
پاک افغان سرحد کو بند کرنے کے لئے دیوار کی تعمیر کے بارے مختلف آراء پیش
کی جاتی ہیں۔ اگر افغان اپنی سر زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے
دیتے تو یہ نوبت کبھی نہ آتی۔ پاکستان میں دہشت گردی کے لئے یہی سرحد
استعمال ہو رہی ہے۔ بہترین اور معقول اقدام یہ تھا کہ دیواریں تعمیر کرنے
کے بجائے پل تعمیر کئے جاتے۔ لوگ تقسیم ہونے کے عذاب سے بچ جاتے۔ ملاپ کی
کوششیں کی جاتیں۔ سرحدوں کے آر پار منقسم خاندان ایک دوسرے سے ملاقات کے
لئے ترستے اور تڑپتے رہتے ہیں۔ یہ منظر کشمیر کی جنگ بندی لکیر کے آر پار
بسنے والوں کی تڑپ سے بھی عیاں ہوتا ہے۔ یہ عارضی لکیر تھی۔ مگر بھارت کو
اجازت دی گئی کہ وہ اس کو دیواریں لگا کر بند کر دے۔ بھارت یہاں سے در
اندازی کا واویلا کر رہا تھا۔ جب کہ منقسم کشمیری اس فرضی لائن کو عبور
سکتے ہیں۔ یہ ڈیورنڈ لائن کی طرح انٹرنیشنل سرحد نہیں ہے۔ چمن سر حد کی
بندش سے بلوچستان اور قندھار کا رابطہ ٹوٹ گیا ہے۔ نیٹو سپلائی، ٹرانزٹ
ٹریڈ اور دیگر تجارت رک گئی ہے۔ افغان اگربھارت کو پاکستان پر ترجیح دیں گے،
پاکستانی پرچم کی بے حرمتی کی جائے گی اور پاکستان کت خلاف نعرے لگیں گے تو
خیر سگالی اور بھائی بندی کا جذبہ فوت ہو جاتا ہے۔
اعتماد سازی کے اقدامات ضروری ہیں۔ مگر اس کا دارومدار افغان حکومت پر ہے۔
مگر کابل حکومت کا رویہ جارحانہ ہے۔ وہ بھارت سے روسی ساختہ ایم آئی25اور
35ائر کرافٹ خرید رہا ہے۔ افغانستان کو اپنے دفاع کے لئے جدید اسلحہ حاصل
کرنے کا حق ہے۔ تا ہم بھارت اصل میں افغانستان میں اپنے اڈوں کو مضبوط کرنے
کے لئے اس حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ اس کا اندازہ نریندر مودی کے حالیہ
بیانات سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ افغان نیشنل آرمی کے سربراہ جنرل کادم شاہ
شمیم 29اگست کو اسی مقصد سے دہلی کا دورہ کرنے والے ہیں۔ وہ امریکی فوج کی
ہدایت پر بھارت کوجنگی ہیلی کاپٹر، آرٹلری، ایمونیشن، ٹینک ، ٹرینر گاڑیاں
خریداری کی فہرست پیش کریں گے۔ ملٹری ہارڈ ویئر کی افغانستان کو ترسیل کی
امریکی اجازت مزید خدشات پیدا کر سکتی ہے۔ کیوں کہ افغان فوج میں طالبان کے
ہمدردبھی موجود ہیں۔ جو یہ اسلحہ نیٹو کے خلاف بھی استعمال کریں گے۔ یہ
قیاس آرئی اسے بنیاد پر کی جا سکتی ہے کہ دہلی سے اسلحہ کابل پہنچتے ہی
بھارتی اڈوں پر منتقل ہو جائے گا۔ جو اسے پاکستان کے خلاف استعمال کریں گے۔
بھارت کابل کو پاکستان کے خلاف صرف ایک ٹرانزٹ یا راہداری کے طور پر
استعمال کر رہا ہے۔ بھارت نے گزشتہ 15سال میں افغانستان میں 2ارب ڈالر سے
زیادہ کے تعمیراتی کام کئے۔ تا ہم اس کا فوکس پاکستان کے خلاف اپنے دفاع کو
مضبوط کرنا تھا۔
مقبوضہ کشمیر میں قتل عام میں تیزی اور پاکستان کی جانب سے مسلہ کشمیر اور
بھارتی ریاستی دہشتگردی کو دنیا میں اجاگر کرنے کے ردعمل میں بھارت پاکستان
میں دہشتگردی نیٹ ورک کو فعال کرنے پر توجہ دے رہا ہے۔ کوئٹہ دھماکہ،
افغانستان میں پاکستان کے خلاف مہم جوئی، نریندر مودی کے دعوے اس کی مثال
ہیں۔ دہلی میں افغا ن سفیر شیدا محمد ابدالی طالبان اور دہشتگردی کے خلاف
جنگ کے لئے بھارت سے جنگی اسلحہ حاصل کرنے کا دعوے کرتے ہیں، مگر اس بات کی
کوئی ضمانت نہیں کہ یہ اسلحہ طالبان کے بجائے افغانستان کے خلاف استعمال
ہوگا۔ بھارت افغانستان میں موجود اپنے دہشتگردوں کے لئے جدید اسلحہ
افغانستان پہنچا رہا ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں امن کے نام پر پاکستان کو
عدم استحکام کا شکار کرنے کی بھارتی اقدامات کی سرپرستی کی تو یہ خطے کی
سلامتی کے لئے خطرناک اور تباہ کن سرگرمی ہو گی۔
سابق صدر حامد کرزئی بلوچستان میں مداخلت کے مودی بیانات کی حمایتکرتے ہیں
اور اسے درست حکمت عملی قرار دے رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے وزیراطلاعات حسن
الحق نے دہلی کا دورہ کیا اور مودی کے پاکستان دشمنی پر مبنی بیانات کی
تعریف کی۔ وہ 1971ء میں بنگالیوں کے قتل عام اور بلوچستان میں حالات کو
یکساں قرار دیتے ہیں۔ جب کہ بھارتی فوج اور مکتی باہنی نے مل کر بنگالیوں
کاقتل عام کیا اور الزام پاکستان پر عائد کر دیا۔
وزیراعظم نواز شریف نے پاکستا ن کے یوم آزادی کو کشمیر کی آزادی کے نام
کردیا تو مودی نے بھارتی یوم آزادی کو انتقامی ردعمل کے طور پر بلوچستان،
گلگت اور آزاد کشمیر کے نام کیا۔ جب کہ بھارت کا کشمیر پر جابرانہ قبضہ ہے۔
اسی قبجے کے لئے وہ 70سال سے کشمیریوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ اب کشمیری بار
بار کے قتل عام کے بجائے ایک ہی بارآر یا پار فیصلے کے لئے تیار ہیں۔ بھارت
نے ان کی آواز کو دبانے کے لئے 48دن سے سخت کرفیو لگا رکھا ہے۔ کشمیر امن
پسند دنیا کی توجہ چاہتا ہے۔ پاکستان نے آواز بلند کی تو بھارت نے اعلانیہ
طور پر ریاستی دہشت گردی کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیا۔تا کہ دنیا کی توجہ
کشمیر میں بھارتی قتل عام سے ہٹ جائے۔باالآخر افغانوں اور بلوچوں کو
پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی سازش میں بھارت ایک بار پھر ناکام ہو گا۔
|